بیرسٹر حمید باشانی
جس دور میں ہم رہتے ہیں یہ ما بعد از حقیقت کا دور ہے۔ مابعد از حقیقت کا لفظ میں نے جناب نصرت جاوید کے کالم سے مستعار لیا ہے، ورنہ میں نے اس کا ترجمہ مابعد از سچ کیا ہوا تھا، جو کوئی خاص جچتانہیں۔ اصل لفظ پوسٹ ٹروتھ ہے، جو بہت سادہ اور آسان ہے، مگر اردو کے قالب میں ڈھل کر یہ کچھ مشکل سا ہو جاتا ہے۔ بہرحال اسے بعد از حقیقت لکھا جائے، یا سچ کے بعد کا زمانہ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ سچ کے بعد کے دور میں آگئے ہیں۔
سچ کے دور میں داخل ہونے اور پھر اس سے نکلنے میں ہم لوگوں نے کئی مراحل طے کیے ہیں۔ پہلے مراحلے پر ہم نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ تسلیم کیا۔ یعنی اکثریت کاایک سچ یا ایک جھوٹ ہوتا تھا۔ پھر ہم میں سے کچھ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہر آدمی کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ اور ایک شخص کا سچ، ممکن ہے دوسرے کے نزدیک جھوٹ ہو۔ اس پر ابھی کنفیوزن پورے طریقے سے دور نہیں ہواتھا کہ ہم پوسٹ ٹروتھ دور میں آگئے۔ اب سچ وہی ہے، جو ہمیں دکھ رہا ہے یا ہماری پسند کا سوشل میڈیا اورر وایتی میڈیاہمیں دکھا رہا ہے۔
اب اس سچ کے ہمارے دور کے دو بڑے متاثرین ہیں۔ ایک سیاست اور دوسرا میڈیا۔ سیاست نئے دور کے ان سیاست کاروں سے متاثر ہوئی، جنہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کیا۔ اور روایتی ذرائع ابلاغ کو سوشل میڈیا کی وجہ سے کئی حیرت ناک جھٹکے لگے۔ سیاست میں اس کا پہلا موثر اظہار تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا۔ سچ کیا ہے ؟ حقیقت کیا ہے ؟ اصل بات کیا ہے ؟
سنہ 2016ہ کے موسم خزاں میں لکھا تھا کہ ٹرمپ نے خبروں کا ایک طوفان پیدا کیا، جس میں پیشہ ور اور سوشل میڈیا دونوں پھنس گئے۔ وہ پہلے ایک خوفناک جھوٹ کے ذریعے سوشل میڈیا میں ہیجان پیدا کرتا ہے، پھر بیٹھ کر دیکھتا ہے جب پیشہ ور میڈیا کسی قسم کی تصدیق کی زحمت کے بغیر میدان میں کودپڑتا ہے۔ یہ میڈیا کے لیے اخلاقی بحران ہے، مگر یہ جمہوریت کا بحران بھی ہے۔
ستمبر 2016میں دی اکنامسٹ نے جھوٹ کافن ، سچ کے بعد کی سیاست سوشل میڈیاکے دور میں ، کے عنوان سے سرخی جمائی۔ اس نے ٹرمپ کی مہم کو نمونے کے طور پر لیا اور لکھا : وہ ایک ایسی دنیا میں رہتا ہے ، جہاں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنایا جا رہا ہے۔ اس پوسٹ ٹروتھ یا بعد از سچ کے دور میں، سچ ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ ٹرمپ جیسے لوگوں کے جھوٹ دنیا میں جھوٹا نقطہ نظر پیدا کرنے کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ اپنا تعصب پھیلانے کے لیے ہوتے ہیں۔
سنہ 2016کے موسم بہار میں گارڈین اخبار کے آسٹریلیا کے سیاسی ایڈیٹرنے یہ سوال اٹھایا تھاکہ اگر حقائق کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو میڈیا کے لیے کیا کردار باقی رہ گیا ہے۔ اس نے لکھا کہ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب ہم پوسٹ ٹروٹھ ماحول میں کام کر رہے ہیں، جہاں ہمارے سامعین اپنی پسند کے ایک بلبلے میں رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ وہ ایسے تبصروں اور معلومات کا انتخاب کر سکتے ہیں، جو ان کے نظریات کے عین مطابق ہے، اور باقی سب کو مسترد کرسکتے ہیں۔
اکنامسٹ کے الفاط میں ووٹر جھوٹ کے سمندر کے بہاؤ میں بہہ رہے ہیں، اور ان کے پاس تھامنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ووٹر سیاسی عمل سے تعلق منقطع کر چکے ہیں ، بدظن ہو چکے ہیں، اور وہ میڈیا کے چال چلن اور سیاست دانوں کی بد دیانتی سے اس قدر بد د ل ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے ہی تعصب میں پنا ہ لیتے ہیں۔ اس لیے وہ پوسٹ ٹروتھ سیاست کی بوچھار کا آسان شکار ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس حالت تک کیسے پہنچے۔
سال 2011 میں ایک کتاب چھپی تھی۔ کتاب کا مصنف آسٹریلیا کا وزیر مالیات تھا۔ اور کتاب کا نام تھا سائڈ شو۔ اس کتاب میں اس نے سیاست دانوں اور میڈیا پر غصے کا اظہار کیا کہ انہوں نے جمہوریت کو چھوڑ کر شخصیات، وقتی اور ادنیٰ چیزوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔ اس کا یہ دعوی تھا کہ جب میڈیا پر ڈیجیٹل انقلاب نے سخت معاشی دباؤ ڈالا تو اس نے سیاست سمیت ہر چیز کو تفریحی میں بدل دیا۔ سیاست دانوں نے نئے دستورکا ایسا جواب دیا کہ خیالات کا مقابلہ ہنسنے یعنی کامیڈی کے مقابلے میں تبدیل گیا۔
آج اس کی دلیل درست لگتی ہے۔ ایک گونگی جمہوریت سیاسی بحث کی اہمیت کم کر دیتی ہے۔ ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔ اس سے شک و شہبات اور بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ معاشی عدم تحفظ اور نا ہمواری کا ماحول اس کو بد تر بنا دیتا ہے۔ جب عوام اپنے آپ کو خطرے سے دوچار محسوس کریں، یا وہ ایسا محسوس کریں کہ ان کو ایک طرف دھکیل دیا گیا ہے، یا وہ پیچھے چھوڑ دئیے گئے ، تو ان کو ایک قربانی کا بکرا چاہیے ہوتا ہے، اور وہ کسی بھی ایسی چیز پر یقین کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں جو ان کو یہ بکرا فراہم کرے۔ ما بعد از حقیقت سیاست یہی کر رہی ہے۔ وہ ان کو قربانی کے بکرے فراہم کر رہی ہے۔
اگر صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی ان کے پیشے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے تو وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ہمیں آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی اخلاقی اقدار کو بھلا چکے ہیں۔ اور ہمارے روئیے نے جرنلزم پر شک و شبہات پیدا کرنے میں مدد کی ہے۔ صحافت کے پیشے کی کچھ ذمہ دارایاں ہیں۔ ان کا کام جھوٹ اور سچ کو الگ کرنا ہے۔ اشاعت سے پہلے حقائق کی تصدیق کرنا ہے، اس کے بعد نہیں۔ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا ہے۔
آپ اپنے بارے میں کیا جانتے ہیں، یا آپ دنیا کے بارے میں کیا جانتے ہیں، یہ بات زندگی کے بارے میں آپ کے نقطہ نظر کا تعین کرتی ہے۔ سوشل میڈیا کی ڈیجیٹل انفارمیشن کو فوری طور نشر کرنے کی صلاحیت نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ نیویارک یونیورسٹی میں صحافت کے پروفیسر چارلس سیئییف کا کہنا ہے کہ انٹرنٹ پر موجود معلومات کو عام طور پر درست ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ حقیقت کو افسانے سے الگ کرنا مشکل تر ہو رہا ہے۔ ہم معلومات کے قحط سالی کی ابتدا میں ہیں۔
آکسفورڈ یونورسٹی میں فلسفے اور اخلاقیات کے پرو فیسر فلوریڈی نے اپنی نئی کتاب میں لکھا ہے کہ ڈیجیٹل انفارمیشن بنی نوع انسان کا چوتھا بڑا انقلاب ہے۔ کوپرنکس نے ہمیں کائنات کے مرکز کے چکرسے نکالا۔ ڈارون نے حیاتیات میں ہماری ایک خاص سوچ سے، فرائڈ نے ہمیں اپنے خود فریب دماغ کی خود ساختہ استحقاق کی گرفت سے باہر نکالا اور اب ہم انفوسفائر کے مرکز سے باہرنکل رہے ہیں۔ آپ کے آن لائن پروفائل سے لوگ آپ کے بارے میں رائے بناتے ہیں، اور ان کی رائے کی وجہ سے آپ بھی اپنے بارے میں رائے بدلتے ہیں، اور اس سے آپ کی اصل شخصیت بھی بدل جاتی ہے۔
ہم انقلابی دور میں رہتے ہیں۔ انفارمیشن روشنی کی رفتار سے دنیا میں گردش کرتی ہیں۔ اس کو لا محدد دبار نقل کیا جاتا ہے، یہ انفارمیشن ہر اس شخص کو دستیاب ہے جس کے پاس انٹر نیٹ ہے۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی وبائی چیز ڈیجیٹل انفارمیشن ہے۔ لیکن انفارمیشن کی تاریخ مس انفارمیشن کی تاریخ بھی ہے۔ ماضی میں ایک متبادل حقیقت پیدا کرنے کے لیے ایک مطلق العنان ریاست کی ضرورت پڑتی تھی، مگر اب یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق آن لائن رویوز کا تیسرا حصہ جعلی ہے۔ اور جعلی تصاویر عموماًسوشل میڈیا پر نیوز سائٹس پر نمودار ہوتی ہیں، اور انعامات جیتتی ہیں۔ اپنی کتاب ، چوتھا انقلاب میں پروفیسر فلوریڈی لکھتا ہے آن لائن بیانیہ وہ نگاہ بدل دیتا ہے، جس سے ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں۔ اس لیے ما بعد از حقیقت کے اس دور میں کسی بات پر یقین کرنے سے پہلے اسے خوب ٹھونک بجا کر دیکھنا اور پرکھنا ضروری ہے۔
♦