رانا محمد اظہر کا شمار بلاشبہ پاکستان کے معمر ترین سیاسی کارکنوں میں کیا جاسکتاہے۔ وہ ان معدودے چند درجن افراد میں شامل تھے جنھوں نے نومبر 1967 میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ گلبرگ لاہور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ 84 سالہ رانا اظہر قیام پاکستان سے قبل متحدہ پنجاب کے شہر ہو شیار پور کے ایک نواحی قصبہ ہریانہ میں پید اہوئے تھے۔
وہ آٹھویں جماعت میں تھے کہ پنجاب کا بٹوارہ ہوگیا اور وہ اپنے اہل خانہ سے نقل مکانی کرنے اوکاڑہ آگئے۔ جب ہریانہ سے پاکستان آرہے تھے ان کے کزن اعظم خان نے کہا ’ اظہر( قیام پاکستان اور نقل مکانی کے تناظر میں) ایک بات اچھی بھی ہے کہ مار سے بچ جائیں گے ہم نے سکول کا کام نہیں کیا ہوا‘۔
اوکاڑہ سے 1949 میں میٹر ک کرنے کے بعد ایف ایس سی کرنے کے لئے رانا اظہر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخل ہوئے ۔ ان دنوں کالج کے پرنسپل ایم۔ڈی تاثیراور اساتذہ میں پروفیسر حمید احمد خاں، عبدالمجید سالک اور علامہ علاؤالدین صدیقی شامل تھے۔ رانا اظہر کہتے ہیں کہ جب ہم انٹر کے دوسرے سال میں پہنچے تو تاثیر صاحب کا انتقال ہوگیا ۔
تاثیر صاحب ہر دلعزیز استاد تھے۔ طلبا ہوں یا اساتذہ وہ سبھی میں یکساں طور پر مقبول تھے ۔ ان کی اچانک موت کا کا لج کی فضا پر بہت گہر اثر ہوا تھا۔ تاثیر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے سردار عبدالرب نشتر جو ان دنوں گورنر پنجاب تھے، خود کالج آئے تھے اور انھوں نے تاثیر صاحب کے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اسلامیہ کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد بی ایس سی کرنے کے لئے رانا اظہر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوگئے۔ یہاں انھوں نے انگریزی خواجہ منظور حسین اور اشفاق علی خان سے پڑھی جو انگریز زبان و ادب میں مہارت کے حوالے سے بہت اچھی شہرت کے حامل تھے۔ صفدر میر بھی ان دنوں گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھایا کرتے تھے۔
سنہ1953 میں گورنمنٹ کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد دوستوں کی پھیلائی ہوئی مایوسی کہ سائنس مضامین میں ملازمت کے مواقع عنقا ہیں ، کی بنا پر ایل ایل بی کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں داخل ہوگئے۔رانا اظہر کے سیاسی کئیر ئیر کا آغاز لا کالج سے ہوا ۔
ان کے کلاس فیلو ز میں پنڈی ساز ش کیس کے شہرت یافتہ میجر اسحاق محمد کے چھوٹے بھائی چوہدری انور شامل تھے جو ان دنوں کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی کارکن تھے انہی کی بدولت وہ بائیں بازو کی سیاست سے روشناس ہوئے۔ ان کے دیگر ہم جماعت یا کالج فیلوز میں کیپٹن ظفراللہ پوشنی ( پنڈی سازش کیس کے سب سے کم عمر ملزم )جن کی شخصیت بہت پرکشش تھی ۔میجر اسحاق، سیف خالد ( لائل پور) ندر ت الطاف( معروف کہانی کار) شامل تھیں ۔ سب دوستوں نے مل کر پوشنی کو کالج یونین کا الیکشن لڑوایا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے تھے۔
رانا اظہر 1953 میں افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی گورنمنٹ کالج لاہور آمد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بزم اردو کی دعوت پر منٹو،کالج تشریف لائے تھے۔ ہم پریکٹیکل والے طلبا نے جب دیکھا کہ منٹو آئے ہوئے ہیں تو ہم ان کے لئے کرسیاں لے آئے ان کی بیگم تو کرسی پر بیٹھ گئیں لیکن منٹو نے طلبا کے بے حد اصرار کے باجود سیڑھیوں پر بیٹھنے کو ترجیح دی تھی ۔
ایک طالب علم نے گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا کہ آپ فحش کیوں لکھتے ہیں ؟ منٹو نے کہا کہ آپ اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتے کہ میرے افسانوں کے کردار ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور اگر ان کی موجودگی حقیقت ہے تو ان کا بیان فحش کیسے ہوگیا۔
ایل ایل بی کرنے کے بعد رانا اظہر نے عابد حسن منٹو اور سید افضل حیدر کے اشتراک سے انارکلی لاہور میں شیخ عنایت اللہ کے اوپر وکالت کا دفتر قائم کیا لیکن جلد ہی انھیں اوکاڑہ جانا پڑا اور وہ دوبارہ لاہور نہ آسکے۔1961میں وہ اوکاڑہ تحصیل میں بطور ایڈووکیٹ این رول ہوگئے ۔ مقامی آبادی کیونکہ جانگلی بولتی تھی جس کو خود سمجھنا اور اس کی زبان میں سائل کو سمجھانا رانااظہر کے لئے مشکل تھا۔ اس لئے ابتدائی طور پر انھیں اپنی وکالت چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اوکاڑہ ان دنوں چھوٹا سا شہر تھا جہاں چند صنعتی یونٹس کے سوا اورکچھ نہیں تھا ۔ سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ اس صورت حال میں جب محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو رانا اظہر بی ڈی ممبر کے امیدوار بن کر میدان میں آگئے لیکن جلد ہی انھیں بااثر افراد نے الیکشن میں حصہ لینے سے روک دیا ۔
عملی سیاست کے اس تلخ تجربے نے رانا اظہر مایوس کردیا اور انھوں نے مقامی ثقافتی سرگرمیوں میں خود کو مصروف کر لیا ۔ وہ کلاسیکی موسیقی اور ڈراموں میں دلچسپی لینے لگے اور’ علم اور لطف کا ایک اور دروازہ کھل گیا‘ ۔ ان کا کہنا ہے کہ کلاسیکی موسیقی کی سوجھ بوجھ پیدا ہوجانا کسی شخص کے لئے بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔
بھٹو نے جب جنرل ایوب خان کی کابینہ سے استعفی دیا اور انھوں نے ایوب آمریت کے خلاف اپنی سیاسی مہم کا آغاز کیا تو رانا اظہر بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔جب اخبار میں چھپا کہ بھٹو ایک نئی سیاسی پارٹی بنائیں گے جس کے قیام کی تاریخ کا اعلان جلد ہوگا تو انھوں نے خط لکھا کہ جب پارٹی کے قیام کے لئے اجلاس ہو تو انھیں مطلع کیا جائے۔
کہتے ہیں کہ چند ماہ بعد بعد پارٹی کنونشن کی تاریخ اور مقام بارے خط آگیا۔کہتے ہیں کہ ’کنونشن سے ایک دن پہلے شام کو لاہور پہنچا ۔ انارکلی کے ایک سستے ہوٹل میں کمرہ لے کر سوگیا۔30 نومبر کی صبح نہا د ھوکر گلبرگ پہنچ گیا ۔ اوریگا سنیما کے بالمقابل ایک کوٹھی کے گیٹ پر کنونشن کا بینر لگایا گیا تھا۔سڑک عبور کی اور اندر چلا گیا ۔کوٹھی کے باہر کوئی آدمی نہیں تھا۔نہ ہی پولیس تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے حکومت کنونشن کو کوئی اہمیت نہیں دی رہی جیسے غیر اہم فنکشن ہو‘۔
کنونشن سے واپس آکر رانا اظہر نے پیپلز پارٹی کو اوکاڑہ میں منظم کرنے کی مہم شروع کردی۔ پارٹی کے خلاف بر سر اقتدار حکومت اور مذہبی سیاسی جماعتیں متحد تھیں اور بھٹو اور پیپلز پارٹی پر طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے تھے۔ رانا اظہر نے مشکل ترین حالات میں پارٹی کو منظم کیا ۔ مارچ1977 میں رانا اظہر نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے تھے۔۔
جب جنرل ضیا ء الحق نے جولائی 1977 مارشل لا نافذ کیا تو رانا اظہر پارٹی کے ان کارکنوں میں شامل تھے جنھیں قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں تھیں۔ وہ اوکاڑہ میں تحریک بحالی جمہوریت کے رہنماوں میں شامل تھے۔ رانا اظہر پیپلزپارٹی اور بھٹو کی کارکردگی سے مایوس ہوئے اور ان کا شمار ان پارٹی کارکنوں میں ہوتا تھا جو پیپلز پارٹی کو بنیادی سماجی تبدیلی کا محرک سمجھتے تھے لیکن بر سر اقتدار آکر پارٹی نے جو سمجھوتے کئے انھوں نے رانا اظہر کو بہت زیادہ مایوس کیا۔
وہ جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لا میں تو پارٹی چھوڑ کر نہ گئے کیونکہ ان کے نزدیک یہ موقع پرستانہ فعل ہوتا لیکن جب مارشل لا ختم ہوگیا تو انھوں عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیا کر لی۔ یہ ایک ایسے سیاسی کارکن کی آپ بیتی ہے جو ڈاون ٹو ارتھ ہے۔ جس نے گلی محلے اور گاؤں کی سیاست کی ہے ۔ جسے عام آدمی کی خواہشات اور امنگوں اور مطالبات کا ادراک ہے اور جو سیاست کو عام انسانوں کی زندگی میں بہتری اور خوشحالی لانے کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔
پبلشرز: انور سنز پبلشرز ساہیوال