آئی ایس آئی پاکستان کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر)اسد درانی کی کتاب دی سپائی کرانیکلز آج کل ملکی اور بین الاقوامی حلقوں میں گرماگرم بحثوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔اسد درانی اس کتاب کے اکلوتے خالق یا مؤلف نہیں ۔بلکہ یہ کتاب ان کے بھارتی ہم منصب امر جیت سنگھ دولت سابق سربراہ بھارتی خفیہ ایجنسی را ؔ کے ساتھ متعدد دوبدو بیٹھکوں میں کی گئی کچھ پیشہ ورانہ اور کچھ سیاسی و نیم سیاسی ’’گپ شپ‘‘اور تبادلہ خیالات ومعلومات پر مشتمل ہے جس کا ٹرانسکرپٹ معروف بھارتی مصنف ادتیہ سنہانے کتاب کی شکل میں ڈھال دیاہے ۔
کتاب میں ادتیہ سنہاخودہر دو اصحاب کی گفتگو کو قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد موضوعات کے حوالے سے ضمنی سوالات بھی پوچھتے نظر آتے ہیں۔اس لحاظ سے اس کتاب کو ان تینوں افرادکی مشترکہ تخلیق قراردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ادتیہ سنہا اس سے قبل امرجیت دولت کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر سے متعلق بھی ایک کتاب تالیف کرچکے ہیں جوسابق بھارتی وزیراعظم باچپائی کے دور حکومت کے حوالہ سے ہے۔ادھر اسد درانی صاحب کی ایک نئی کتاب بعنوان ’’طوفانی پانیوں میں بھٹکتا پھرتا پاکستان‘‘ ان دنوں زیر طبع ہے،جو انگریزی زبان میں ہے۔
(Pakistan Adrift:Navigating Troubled Waters)
پاکستان میں اس کتاب کے خلاف سب سے شدید اور مذمتی احتجاج سابق وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی طرف سے دیکھنے میں آیا جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت ،اس کے مواد ، اوراس کی تالیف میں راؔ کے سابق سربراہ کو شریک کرنے کی تحقیقات کی غرض سے ایک جے آئی ٹی بنانے اور اسد درانی پر غداری کامقدمہ چلائے جانے کا پرزور مطالبہ کیا۔
آئی ایس آئی نے اسد درانی کو طلب کر کے انہیں اس کتاب کی اشاعت کاجواز اور وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا ہے،دیکھیں اسد درانی اپنی صفائی میں کیا دلائل پیش کرتے ہیں۔
جہاں تک نوازشریف کا تعلق ہے،بظاہر وہ اسد درانی پر ملک کے اہم راز فاش کرنے یا حساس نوعیت کے معاملات و واقعات کو متنازعہ حیثیت دینے کی بناپر مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن یار لوگ یہی بات ان کے بارہ بھی تو کر رہے ہیں۔
چنانچہ ڈان اخبار کے صحافی سرل امیلڈاکو دئے جانے والے انٹرویومیں ممبئی حملوں کے بارہ میں کہا جانے والا ایک کثیرالمعانی جملہ،نیز ان کے اس مبینہ بیان پر کہ انہوں نے ایک راز فاش کردیا ہے اور دوسرا ابھی رہتا ہے، کچھ لوگ نواز شریف پر بھی غداری کا مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نواز شریف اور اسددرانی کا معاملہ ایک جیساہی دکھائی دیتا ہے۔اس پہلو سے اسد درانی نوازشریف کو بجا طورپر کہہ سکتے ہیں کہ’’ تجھ کو پرائی کیا پڑی،اپنی نبیڑ تُو‘‘ ۔لیکن اس کتاب میں ایک ایسی بات ضرور درج ہے جو نوازشریف کے لئے پرائی ہرگز نہیں بلکہ سراسر ذاتی بھی ہے اورخاندانی بھی ،اور کتاب میں اس ’’ا نکشاف ‘‘ کاشامل کیا جانایقیناً ان کے خیال میں زیادتی بھی ہوگی۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہی بات نوازشریف کو سب سے زیادہ چبھی ہوگی جبھی اس کتاب کے بارہ میں سب سے اولین،نمایاں اور مؤثر احتجاج انہی کی طرف سے دیکھنے کو آیا۔
تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ کتاب کے باب انیس میں ،’’جو بی بی،میاں صاحب اور عباسی‘‘کے عنوان سے باندھا گیا ہے،اس میں ایک مقام پر امرجیت دولت صاحب یہ کہتے ہیں کہ جب ان کے پاکستانی دوستوں نے انہیں بتایا کہ شاہد خاقان عباسی میاں صاحب کاانتخاب ہیں تو میں نے پوچھا کہ انہوں نے ان کو شہباز(شریف)پرکیوں ترجیح دی؟۔جواب یہ ملا کہ عباسی کی طرف سے تسلی تھی کہ وہ میاں صاحب کی پیٹھ میں چھرانہیں گھونپے گا!۔
“Abbasi is Mian Saheb’s choice.I asked how come he chose him over Shebaz?
The answer was that Abbasi was not expected to stab him in the back.
اس پر ادتیہ سنہا صاحب حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ کیا نوازشریف کو ڈرتھا کہ اس کا بھائی اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دے گا؟
جواباًدولت صاحب کہتے ہیں کہ( شہبازشریف) اگر چھرا گھونپتے بھی ہیں تو وہ زیادہ گہرانہیں ہوگا۔
دولت صاحب کی ان دونوں باتوں پر درانی صاحب کی طرف سے کوئی تائیدی یا تردیدی تبصرہ کتاب میں درج نہیں۔میاں نوازشریف نے جوقومی سلامتی کونسل کی توجہ اس طرف دلائی ہے کہ اس کتاب میں بہت سے اہم قومی راز فاش کئے کئے ہیں ،تو ان کی ذات اور ان کے بھائی کے حوالے سے جو بڑا’’قومی‘‘رازفاش ہوا ہے وہ مذکورہ بالا ہی ہے۔
درانی صاحب نے شاہدخاقان عباسی کی صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک محنتی ،ذہین اور ہوشیار شخص ہے۔اداروں سے مشورے لیتا ہے، اسٹیبلشمنٹ کو بھی خوش رکھتا ہے اور اتنا چالاک ہے کہ بارباریہ بھی کہتا رہتا ہے کہ وہ نوازشریف کی پالیسیوں کو ہی چلارہا ہے۔
اس پردولت صاحب کہتے ہیں کہ فی الحال تو وہ نوازشریف کا خلا پر کئے ہوئے ہے لیکن اگر وہ 2018 میں دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوجاتا ہے تو پھر وہ ایک خودمختاراور آزاد شخص ہوگا۔وہ ہوشیار،تعلیم یافتہ ہے،انجنیئر ہے ،وہ کسی کا اُلو نہیں بنے گا۔
امرجیت دولت کے اس سوال پر کہ بھارت کے بارہ میں عباسی کیا رویہ یا رجحانات رکھتا ہے تو اسد درانی نے کہا کہ وہ میاں صاحب کی طرح نہیں کہ جب بھی دہلی نے کال دی تو بچھ گئے۔یہ ان کی وزارت عظمیٰ کے شروع کے دنوں کی بات ہے جب ان سے سوال کیا گیا کہ افغانستان میں بھارت کا کیاممکنہ کردار ہوسکتا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’صفر‘‘۔ان کا پیغام واضح تھا،میاں صاحب کا بھارت( سے متعلق پالیسی سے) اب کوئی لینا دینانہیں رہا۔
کتاب خاصی ضخیم ہے اور دیگر بہت سے انتہائی حساس اور متنازعہ قسم کے عنوانات پر گفتگو پر مشتمل ہے جن میں اسامہ بن لادن کی امریکہ کو حوالگی کی خفیہ ڈیل،کیا اکھنڈبھارت ممکن ہے؟ ،پاکستان اور بھارت،دونوں ملکوں کو اصل میں کون چلا رہا ہے۔سیاچن،کارگل کے معرکے،انڈوپاک یا پاک افغان کنفیڈریشن کا قیام،برصغیر کی مزید تقسیم اور نئے ملکوں کے قیام کے امکان پر بحث شامل ہے۔
مؤخرالذکرامکان کے ضمن میں یہ اہم بات بھی درج ہے کہ دونوں پنجاب (بھارتی اور پاکستانی)کو ایک دوسرے کے قریب تر لانے کے منصوبے پر شہبازشریف نے کافی کام کیاہے اور یہ کہ اصل میں یہ نظریہ گجرال صاحب کاتھا کہ لائن کے پاردونوں پنجاب،دونوں کشمیر،دونوں سندھ ایک دوسرے کے قریب ہونا شروع ہوں اور پھر دیکھیں کہ یہ دوطرفہ تعلقات کس منطقی حدتک پہنچ سکتے ہیں۔
دولت کا کہنا تھا کہ وہ لاہور میں مقیم راجہ امریندرسنگھ سے ملاقات کرنے کاخواہشمندہے۔وہ ابھی بھی خود کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا وارث سمجھتا ہوگا۔
درانی صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعددبار بھارتی عہدیداروں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ پاکستان پارٹیشن ختم کرکے بھارت کے ساتھ یکجا ہونے کے لئے تیار ہے ۔لیکن اس کا مقصد بھارت کاحصہ بن کراسے اندر سے تباہ وبربادکرنا ہوگا۔
قارئین کرام الیکشن کی آمدآمد ہے اور الیکشن سے صرف چند ہفتے قبل انٹرویوزمیں ذومعنی قسم کے انکشافات اور اس قسم کی کتاب کی اشاعت کافی معنی خیزہے۔ ستر برسوں کے بعد برصغیر کی بساط پہ کون سی طاقتیں کن عناصر کواپنا آلہ کار بنا کر کون سی نئی چال چلنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
♥