بیرسٹر حمید باشانی
عدم مساوات صرف ان لوگوں کا ہی مسئلہ نہیں جن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی غور کرے تو یہ اس سے زیادہ ان لوگوں کا مسئلہ ہے ، جن کے پاس بہت کچھ ہوتا ہے۔ یہ بہت کچھ ہونے کی وجہ سے یہ خوش قسمت لوگ الگ بستیوں میں رہ سکتے ہیں، الگ سکولوں میں پڑھ سکتے ہیں، الگ ہسپتالوں میں علاج کروا سکتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ اسی سماج کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسی سماج میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں انہیں شب و روز معاشرے میں پائی جانے والی غربت کی کوئی نہ کوئی شکل دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے انسان کو سماج کی اجتماعی بھلائی اور بہبود کے لیے سوچنا پڑتا ہے۔ اپنے سے کم خوش قسمت لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
ہمارے ہاں غریب آدمی ہمیشہ صحت کی سہولیات کے فقدان کا شکارہا ہے۔ چونکہ یہ غریب آدمی سرکاری ہسپتالوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں صفائی کی حالت سے لیکر ہسپتال کے عملے کے رویے تک ہر چیز مایوس کن حد تک خراب رہی ہے۔ چونکہ ملک کے خوش حال طبقات کو ان ہی ہسپتالوں کے خصوصی وارڈز سے لیکر اعلی درجے کے پراہویٹ کلینک اور ہسپتال میسر رہے ہیں، اس لیے سرکاری ہسپتالوں کی مخدوش حالت کا ان کو کوئی ذاتی تجربہ نہیں ہوا۔
مگر ملک میں جمہوریت کے تسلسل کی وجہ سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ عوام کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے یا ان سے ووٹ لینے کے لیے سیاست دانوں کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ عام لوگوں کے مسائل سے آگہی حاصل کریں اور ان پر بات کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ روائتی میڈیا کی نسبتا آزادی اور سوشل میڈیا کے متعارف ہونے کے بعد ہمارے سماج میں موجود غربت کی چھپی ہوئی بھیانک شکلیں بھی ابھر کرسامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔
ہسپتالوں کی حالت زار اور ان میں پڑے ہوئے بے بس لوگ ہمارے سماج کی ایک ڈراونی تصویر ہے ، جو واضح طور پر لوگوں کے سامنے آئی۔ اس سے کئی لوگوں میں انسانی ہمدردی کے جذبات جاگ اٹھے۔ سیاست دانوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس نظام کو درست کرنے کے دعوے شروع کر دئیے ہیں۔ جو کچھ انتخابی منشوروں اور تقاریر میں کہا جا رہا ہے اگر اس کے نصف پر بھی عمل ہو سکے تو پاکستان کے غریبوں کے دن پھر سکتے ہیں۔ اور ان کے مصائب میں خاطرخواہ کمی آسکتی ہے۔
انسانی ہمدردی کے جذبات اپنی جگہ اہم ہیں۔ غریبوں کے لیے ہمدردی رکھنا بھی بہت اہم ہے۔ مگر یہ جو مسئلے ہمیں درپیش ہیں یہ مادی نوعیت کے ہیں، اور ان کے حل کے لیے سائنسی اور عقلی اپروچ کے ساتھ ساتھ مادی وسائل کی ضرورت ہے۔ اچھے جذبات رکھنے اور ہسپتالوں کا انظام و انصرام درست کرنے سے کافی فرق پڑھ سکتا ہے، مگر پاکستان میں صحت کے مسئلے کو معاشی عدم مساوات کے مسئلے سے الگ کر کے نہیں حل کیا جا سکتا۔
رچرڈ ولکنسن اور کیٹ پکٹ برطانیہ کے دو بڑے معروف ماہر وبائیات ہیں۔ ان کی شہرت کی وجہ صحت کے شعبے میں موجود نا برابری پر طویل تحقیق ہے۔ وبائی امراض کے ان دو ماہرین نے برسہابرس کی تحقیق کے بعد ایک کتاب لکھی۔ دی سپیرٹ لیول نامی اس کتاب میں انہوں نے دو سوالوں کے مفصل اور تسلی بخش جواب دئیے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کسی بھی سماج میں مساوات کیوں سب کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ صحت کا مسئلہ ذاتی دولت سے کیوں جڑا ہوا ہوتاہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک عدم مساوات والے سماج میں، جہاں لوگوں کے درمیان سماجی فاصلے زیادہ ہیں، جہاں ہم اور وہ کا رویہ عام ہے، جہاں بھروسے کی کمی اور جرائم زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ سماج اتنا ہی سخت اور کڑا ہوتا ہے۔ ایسے سماج میں اور زیادہ پولیس، اور زیادہ جیل خانوں اور صحت اور سماجی خدمات میں اضافہ چاہیے ہوتا ہے۔ یہ ساری خدمات بہت مہنگی ہیں، اور صرف جزوی طور پر کار آمند ہیں۔ لیکن ہمیں ان کی ہمیشہ ضرورت رہے گی ، اگر ہم عدم مساوات کا خاتمہ نہیں کرتے۔
اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ عدم مساوات تعصب پیدا کرتی ہے، اور سماج میں ہم آہنگی کو کم کرتی ہے۔ عدم مساوات سماج کو تقسیم کرتی ہے۔ غیر مساوی سماج میں ایک چھوٹے سے فرق سے بھی بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔ دولت از خود سماجی اور صحت کے مسائل کا مداوا نہیں کر سکتی۔ مسئلہ دولت کی تقسیم کا ہے، جس سے اصل فرق پڑتا ہے۔ مجموعی طور پر سماجی مسائل اور صحت کے مسائل کے درمیان ایک واضح لنک ہے۔ آمدن میں فرق سے طرز زندگی کا تعین ہوتا ہے، طرز زندگی سے ہی سماجی اور صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
عدام مساوات، طبقاتی سماج اور رتبے کے فرق کا تجربہ ایک سماجی درد ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ طبقاتی سماج میں غیر فعالیت کیوں ہوتی ہے۔ یہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زیادہ مساوی سماج کے لیے جہدو جہد یوٹوپیا نہیں ، ایک عملی بات ہے۔ کسی سماج میں جتنے زیادہ طبقاتی تضادات ہوں گے، اتنا ہی زیادہ محرومیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی قیمت چکانی ہو گی۔
صحت کے مسائل اور سماجی مسائل کا باقی سماج پر بڑاثر پڑتا ہے اس لیے کہ سماج بحیثیت مجموعی اس کی قیمت چکانے پر مجبور ہے۔ کسی ذہنی بیمار کے لیے ہسپتال بنے یا مجرم کے لیے جیل قیمت عوام کو مل کر ادا کرنی پڑتی ہے۔ عدم مساوات سے ذہنی مریض اور مجرم پیدا ہوتے ہیں۔ عوام کا پیسہ اگر عدم مساوات کو کم کرنے پر لگایا جائے تو اس مجرم اور مریض بھی کم ہوں گے۔
ہماری دنیا میں گزشتہ چند دھائیوں سے دماغی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ صحت کی عالمی تنظیم کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جاپان، جرمنی اور سپین کی آبادی کے دس فیصد لوگ ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ اس سے زیادہ غیر مساوی نظام والے ممالک یعنی انگلستان، آسٹریلیا اور نیوز لینڈ میں ایسے لوگوں کی تعدا دگنی یعنی بیس فیصد ہے، اور آمدنی کے اعتبار سے کئی زیادہ غیر مساوی سماج یعنی امریکہ میں یہ تعداد پچیس فیصد سے زیادہ ہے۔ بہت زیادہ نا ہموار اور غیر مساوی سماجوں میں لوگ زیادہ آمدنی، اعلی سماجی رتبے، مادی دولت، جائداد کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ایسا وہ اپنے گھرانے اور رشتوں سے دوری کی قیمت پر کرتے ہیں، جس سے ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے۔
کسی سماج میں جتنی زیادہ عدم مساوات ہوتی ہے، اس میں اسی نسبت سے صحت اور سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ امریکی ریاست لوزیانا، میسوری اور البامہ میں بہت زیادہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، اور ان ریاستوں میں بدترین سماجی اور صحت کے مسائل پائے جاتے ہیں۔ نیو ہمشائر اور ورمونٹ میں آمدنی میں فرق نسبتا کم ہے ، چنانچہ ان ریاستوں میں صحت اور سماجی مسائل بھی کم ہیں۔ امریکہ میں ایک ہی ہمسائے میں رہنے والے سیاہ فام اور سفید فام کی اوسط عمر میں اٹھائیس سال کا فرق ہے۔ اسی طرح معاشی نا ہمواری سے تعلیم کے معیار سمیت زندگی کے دوسرے شعبوں میں فرق نمایاں ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی اور آبادیاتی تبدیلی سے نا ہمواری پیدا ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس کی وجہ سیاسی لینڈ سکیپ میں تبدیلی ہے۔ جن سیاسی عوامل نے اس میں بنیادی کردار ادا کیا اس میں ٹریڈ یونینز کا کمزور ہو جانا، ترغیبات میں کمی آجانا، سماجی فوائد میں تبدیلی ، دائیں بازوں کی طرف جھکاو، تنخواوں میں بڑھتا ہوا فرق، کم از کم معاوضہ پر کنٹرول ختم کرنا، ٹیکس کا کم ترقی پسندانہ نظام اختیار کرنا اور اس جیسے دوسرے کئی عوامل شامل ہیں۔
عدم مساوات سیاسی عمل کاسیاسی نتیجہ ہے، اور اسے سیاست کے زریعے ہی بدلا جا سکتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ صحت کے مئسلے کو معاشی اور سماجی ناہمواری کے مسائل سے الگ کر کے نہیں حل کیا جا سکتا۔ مساوات غریب اور امیر دونو ں کے لیے فائدہ مند ہے ، اور صحت مند سماج کے لیے لازم ہے۔ سیویڈن، ناروے وغیرہ صحت مند معاشروں کی اچھی مثالیں ہیں
♥