لیاقت علی
عاطف میاں کی وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقتصادی مشاورتی کونسل میں بطوررکن تقرری اورپھرایک دن بعد ہی اس بنا پراس کی برطرفی کہ وہ احمدی ہے، نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کردیا ہے کہ کیاپاکستان کبھی ایسا ملک بن سکے گا جہاں تمام شہریوں کو بلا لحاظ مذہب مساوی آئینی اورقانونی حقوق حاصل ہوں؟۔
قرائن سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں شاید ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس نہ ہونےکی بہت سی دیگروجوہات بھی ہوسکتی ہیں لیکن سب سے بڑی اوربنیادی وجہ اس کے قیام کی تہہ میں کارفرما مذہبی نظریہ ہے۔ اگرمذہب کی بنیاد پرمسلمانوں کی علیحدگی کا دعوی نہ کیا جاتا تو پاکستان کے قیام کاکوئی جوازنہیں تھا۔
ہمارے لبرل لاکھ کہتے رہیں کہ جناح نے مذہب کا استعمال بطورحکمت عملی کیا تھا ان کے پیش نظرایک مذہبی ریاست کا قیام قطعی نہیں تھا لیکن اب تک کا تجربہ ثابت کرتا ہے کہ ان کا مطمع نظرمذہبی ریاست کا قیام تھا یا نہیں لیکن مذہب کے نام پرمسلم علیحدگی پسندی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جوآج ہمارے سامنے ہے اس سے مختلف نتیجے کی توقع محض خام خیالی تھی اورہے۔
لبرل حضرات جناح کی معذرت خواہی میں ان کی پہلی تقریر کاحوالہ بھی بڑے پرجوش اندازمیں دیتے ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ریاست کو اپنے شہریوں کے مذہبی عقائد سے کچھ لینا دینا نہیں ہےلیکن ان کی وفات کے صرف چھ ماہ بعد ہی ان کا یہ خواب کہ ریاست کا شہریوں کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے بکھر کررہ گیا اورمذہب ہی قیام پاکستان اوراستحکام پاکستان کا جواز قرارپایا۔
قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جناح کا نظریہ اگر کوئی تھا بھی تو وہ پس منظرمیں چلا گیا اورلیاقت علی خان کا نظریہ ریاست جومذہبی بنیادوں پراستوار تھا پاکستان کا آئیڈیل قرارپایا۔ جناح کے نام نہاد سیکولرازم کے حوالے سے لبرلزکا موقف بہت کمزوراورسطحی ہے کیونکہ مذہب کے نام پرملک بنا کریہ کہناکہ ریاست کا اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگاباہم متضاد انداز فکر ہے۔
عامتہ الناس کواس سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ کسی تحریک کے دوران لگائے جانے والے نعرے تحریک کے قائدین کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں یا پھراس تحریک کا حقیقی مقصد۔ وہ تو محض اس بات کو دیکھتے ہیں کہ کہا کیا جارہا ہے اگر وہ کہے جانے والی باتوں کو تسلیم کرلیں تو پھر وہ ان باتوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے کمر بستہ ہوجاتے ہیں
پاکستان کی مذہبی بنیاد ہی ہے جس کی بنا پرمذہبی سیاسی جماعتوں کو پاکستان کے سیاسی میدان میں واک اوورحاصل ہے۔ ووٹوں کے میدان میں شکست کھانے کے باوجود وہ اپنے تمام نظریاتی اورسیاسی اہداف و مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔عاطف میاں کے مسئلے پر بھی مذہبی سیاسی جماعتوں کے سامنے ہماری نام نہاد مین سٹریم سیاسی پارٹیوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔
کسی ایک مین سٹریم سیاسی جماعت نےبھی عاطف میاں کی تقرری کا موثراندازمیں دفاع نہیں کیا بلکہ مسلم لیگ ن نےتو مذہبی سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے سینٹ میں ایک قرارداد پیش کرنے کی تیاری کرلی تھی جس میں اس تقرری کی مخالفت کی گئی تھی۔
موجودہ حالات سے یہی لگتا ہے کہ آنے والی کئی دہائیوں تک پاکستان مذہبی اقلیتوں کے لئے غیر محفوظ ملک رہے گا اوران کے مساوی آئینی اورقانونی حقوق کے حصول کی منزل ابھی بہت دور ہے۔
One Comment