قارئین کرام موجودہ امریکی صدرمسٹرڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کو ان کے جس سلوگن نے کامیابی سے ہمکنارکیاوہ امریکہ کو ایک بارپھر سے عظیم بناناتھا۔یہ سلوگن بہت ہی حقیقت پسندانہ قسم کا تھا۔کیونکہ اس کا مطلب یہی تھا کہ امریکہ ،جوکبھی عظیم تھا،اب نہیں رہا۔گو اس سے قبل سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن نے بھی اس سلوگن کو اپنی انتخابی مہم میں استعمال کیا تھالیکن ان کی جیت محض اس سلوگن کی مرہون منت نہیں تھی۔ اس زمانے میں امریکہ بہت حد تک عظیم ہی تھا،یا کم از کم ایسا تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس سلوگن کا درست استعمال ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے ہرلحاظ سے موزوں بلکہ’’جائز‘‘ٹھہرتاتھا،اور اب بھی ہے۔دیکھنایہ ہے کہ کیاڈونلڈ ٹرمپ یاا ن کے اگلے جانشین امریکہ کو دنیا بھر میں پھر سے عظیم بناپائیں گے بھی یا نہیں۔
مختلف شعبہ جات کے دنیا کے چوٹی کے ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ تین چاردہائیوں میں عالمی سطح پر امریکہ کو جس تیزی سے سیاسی،معاشرتی اور معاشی بحرانوں نے کہیں سے اٹھاکر کہیں لاگرایا ہے،اسے دیکھتے ہوئے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ اب امریکہ کے لئے دوبارہ عظیم یا عظیم تر بننابیحدمشکل ہی نہیں ناممکن ہوتانظر آرہا ہے۔
امریکہ کو لاحق ان بحرانوں میں سے سب سے بڑا بحران مالی اور معاشی نوعیت کاہے۔ چین نے گزشتہ چار یا پانچ دہائیوں سے جس طرح عالمی سطح پرتجارتی،مالی اور معاشی میدان میں پیش قدمی دکھائی ہے(اور یہ پیش قدمی ابھی جاری ہے) اس نے امریکہ جیسی سپرپاورکو ا پنا مقروض بناڈالاہے اور اب ڈونلڈٹرمپ کو ورثے میں ملنے والامقروض امریکہ چاروں شانے چت گراہواسوچ رہا ہے کہ کیاچینی درآمدات پر محصول( ٹیرف) کی شرح پانچ سوگنازیادہ بڑھاکر اپنے ہاتھ پاؤں آزادکروائے ،یا عالمی تجارتی تنظیم، ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن (WTO)کو خیرباد کہہ کرکم ازکم دوزانوہوکر بیٹھنے یاگھٹنوں کے بل رینگنے کے قابل تو ہوسکے۔
یہ وہی ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن ہے جس کے خیمے میں چینی اونٹ کب سے اپنی گردن اندرداخل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھالیکن مغربی بلاک نے اس کاراستہ اس کے انسانی حقوق کے مبینہ ریکارڈ،کمیونسٹ بلاک سے سرد جنگ ،اور کچھ دیگر خدشات کی وجہ سے روکے رکھا تھا۔
سنہ 2001ء وہ تاریخی سال ہے جب چین بالآخر ورلڈ ٹریڈ آرگنائیزیش کا رکن بننے میں کامیاب ہوگیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ امریکی صدربل کلنٹن ہی تھے جنہوں نے اس کی رکنیت کی پرزور اور مؤثرسفارش کی تھی۔ا س وقت ان کو اندازہ نہیں تھاکہ جس عطار کے لونڈے کے سبب وہ بیمارہوا چاہتے ہیں ،کل کو ا نہیں اسی لونڈے سے دوالینے پر مجبورہوناپڑجائے گا۔اصل میں نائن الیون کے واقعہ کے معاً بعد جس طرح سے چین نے امریکہ سے ہمدردی ظاہرکی،اور عالمی دہشتگردی کے خلاف اس کے شانہ بشانہ جنگ لڑنے اور بھرپورتعاون کی یقین دہانی کروائی اس نے امریکہ کا دل موہ لیا۔
نتیجتاًچینی اونٹ ورلڈ ٹریڈ آرگنائیزیشن کے خیمے میں نہ صرف اپنی گردن گھسانے میں کامیاب ہوا بلکہ پورے کا پورااندرآکر ایک ایسی کروٹ بیٹھ چکا ہے جس کی وجہ سے خیمے میں موجوددیگر انفاس کے لئے سانس لینابھی دو بھر ہوچکاہے۔
اس صورتحال کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے والے ایک سنگاپوری دانشور جناب کشورمحبوبانی صاحب نے کہاتھا کہ سنہ2001 کا اہم ترین واقعہ 9/11اور اس سے جڑاعالمی منظرنامہ نہیں تھا بلکہ چین کاعالمی مالیاتی تنظیم کا ممبر بننا اور اس سے جڑاموجودہ عالمی منظرنامہ ہے!۔
انہتر سالہ کشو رمحبو بانی( Kishore Mahbubani) امریکہ میں سنگاپورکے سفارتکار رہ چکے ہیں۔آج کل نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپورمیں پریکٹس آف پبلک پالیسی کے پروفیسرنیز سینئر ایڈوائزر (یونیورسٹی اینڈ گلوبل ریلیشنز) ہیں۔آپ متعددکتابوں کے مصنف ہیں۔امریکہ کی ہاورڈ یونیورسٹی میں وزیٹنگ ریسرچ سکالر بھی ہیں۔
کشورمحبوبانی کے نزدیک امریکہ ہی نہیں ساری مغربی دنیا میں ایک زوال کا آغازہوچکا ہے۔مغربی ممالک اس دنیا پر عرصہ اڑھائی تین سو،یا حد پانچ سوسال ہی چھائے رہے۔لیکن تاریخ کامطالعہ کریں توپتہ چلتا ہے کہ پہلی صدی عیسوی سے سنہ1820تک دنیا پہ چین اور ہندوستان ہی تہذیبی ،تجارتی اور مالی لحاظ سے چھائے ہوئے تھے۔بیچ میں کچھ خلاآیا اور مغربی دنیانے انڈسٹریل انقلاب اور نوآبادیاتی نظام کی بدولت دنیا کو زیرنگیں کرلیا،لیکن سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد مغربی اقوام پھر سے ڈھیلی پڑ ناشروع ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں ان میں فکری اور ذہنی جمود طاری ہونے لگ گیاہے،ان کا ذہن پہلے کی طرح اختراعی،شاطر اور نوخیزنہیں رہا۔مغرب کے اس زوال کے برعکس اب چین اور ہندوستان دوبارہ انگڑائی لے کر بیدارہوچکے ہیں اور جس طرح سے ان کے ہاں بیداری کے آثارنظرآئے ہیں جلد ہی ساری دنیا ان دوطاقتوں کے پیچھے پیچھے چلتی نظرآئے گی۔
آپ نے بڑی تفصیل سے مشرق اور مغرب کے ایک دوسرے کے باری باری زیردست یامحتاج ہونے کے اس چکر کو اپنی ایک کتاب کا موضوع بنایاہے جس کا عنوان ہی یہی سوال ہے کہ کیامغرب (اپنی باری) کھوچکا ہے؟۔
کتاب کے پہلے باب میں ریل کے انجن اور ڈبوں کی مثال دیتے ہوئے عام فہم الفاظ میں کشورمحبوبانی اپنے قاری کو کچھ یوں سمجھاتے ہیں کہ پچھلے دوسوسال تک دنیا کی مالی اور معاشی خوشحالی کی ٹرین کاانجن مغرب بنارہاجس کے پیچھے باقی دنیا کے ڈبے بندھے ہوتے تھے۔اب اس ٹرین کا نیا انجن ایشیائی ممالک نے فراہم کردیا ہے جس کے پیچھے اب مغربی ممالک کے ڈبے بندھے نظرآرہے ہیں۔
( Has the West Lost It?.Aprovocation باب اول)
قارئین کرام ایک اندازہ کے مطابق امریکہ چین کاایک اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر کا مقروض ہوچکا ہے۔
یہی نہیں ،بلکہ مجموعی طورپر امریکہ اکیس ٹریلین ڈالر سے زائد کا مقروض ہے اور سنہ 2007 کے بعد سے ہرسال اس قرضہ میں ایک ٹریلن ڈالرکا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
https://www.thebalance.com/will-the-u-s-debt-ever-be-paid-off-3970473
مبصرین کا کہنا ہے کہ صدرڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ بھی صدرمنتخب ہو جائیں تب بھی ان کے لئے امریکہ کو دوبارہ عظیم بناناناممکنات میں سے ہے۔ لیکن ڈونلڈٹرمپ اس تلخ حقیقت کااقراربھلا کیسے کرسکتے ہیں۔کشورمحبوبانی،جنہیں ان کے مذکورہ نظریات کی بناپر امریکی اوریورپین میڈیاکی شدیدتنقیدکاسامناکرناپڑتا ہے،امریکہ کومزید چڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ خود کودنیا کی نمبرایک نہیں بلکہ نمبردوطاقت کے طورپر تسلیم کرلے،اور پھر اس نمبردومقام کوسنبھالے رکھنے کی تیاریاں بھی پکڑلے،ایسانہ ہو کہ نمبر دومقام بھی اس سے جاتارہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ ایساہوناناگزیر ہے لیکن یہ امریکی مزاج اور نفسیات کاخاصہ ہے کہ وہ حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے صدمے میں چلی جاتی ہے۔اگرآئی ایم ایف چین کودنیا کی اکانومی نمبرون قراردے دیتی ہے توامریکہ چین سے دوطرفہ مراسم قائم رکھنے کی بجائے مخاصمت اور ٹکراؤ کی راہ بھی اختیارکرسکتاہے۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع شدہ ایک تحقیقاتی مضمون میں سی این این کے معروف عالمی تجزیہ نگارفرید ذکریا نے موجودہ دنیا کو’’پوسٹ امیریکن ورلڈ‘‘ یعنی امریکہ سے آزاددنیاقراردیتے ہوئے ایک یورپی سروے کے نتائج کا ذکرکیا ہے جس کے مطابق دنیاکے 37 ممالک کے عوام موجودہ دنیا میں امریکہ کی موجودگی کوناکارہ نہیں تو غیر اہم ضرور سمجھتے ہیں۔اسی طرح یورپ کے دس میں سے سات ممالک چین کو دنیا کی نمبرایک طاقت تسلیم بھی کر چکے ہیں۔ (Say hello to a post-America world۔واشنگٹن پوسٹ اشاعت 27جولائی2017 )
لیکن اس صورتحال میں چین کاردعمل کیاہے؟۔اس کے بارہ میں کشورمحبوبانی کی رائے ہے کہ کہ چین کا اصل مقصداپنا الوسیدھا کرنا ہے۔اس کے لئے اپنے 1.8 بلین عوام کی خوشحالی اور پرامن زندگی کاحصول ہی باعث اطمینان ہے۔ امریکہ یاکوئی اور ملک خود کو نمبر ون سمجھنے یااس سلسلے میں اپنی مرضی کی رینکنگ کروانے میں خوشی محسوس کرتا ہے توچینی صدرکے مطابق وہ اس کااحترام کریں گے۔
https://nationalinterest.org/feature/america-and-china-destined-conflict-or-cooperation
کشورمحبوبابی نے اپنی مذکورہ کتاب میں نائن الیون کے بعد عراق پر امریکی حملے کو بھی ایک بہت بڑی حماقت قراردیا۔اس حماقت کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کو مذہبی شدت پسندی کو مزیدمقبول بنانے کا موقع ملاجبکہ دنیا صدام حسین جیسے ایک سیکولر حکمران سے محروم ہو گئی۔
جہاں تک پاکستان اور پاکستانیوں کا تعلق ہے توراقم کی رائے میں دنیاکی نمبر ایک اکنامک پاورچاہے امریکہ ہو یاچین،ہم نے کم ازکم اگلے سو،دوسوسال تک ان میں سے کسی ایک کاغلام اور مقروض ہی بنے رہنا ہے۔ہم و ہ یوسف ؔ ہیں جو کنعاں میں رہے یامصر میں،اس کی کوئی وقعت نہیں ۔بکاؤ مال ہونے کے باوجود بازار میں آج ہماراکوئی طالب یا خریدارنہیں۔
رہ گیا نائن الیون، تو ہمارے لئے نائن الیون ہی سنہ دوہزارایک کااہم ترین واقعہ تھاجس کاآسیب ہماری قوم کے معاشی،سیاسی،سماجی اور معاشرتی ڈھانچے کو چونالگاتمباکووالاپان بنا کر مسلسل چباتاچلاجارہا ہے۔ اور اس کی تھوکی ہوئی پیکوں سے ہماراچہرہ ہی نہیں، سارا وجود اتنا لتھڑ چکا ہے کہ شناخت کے قابل ہی نہیں رہا،(خاص کر اسامہ بن لادن کی ایبٹ آبادمیں موجودگی کے انکشاف کے بعدسے)۔
وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب درست فرماتے ہیں کہ اب پاکستان نے کسی اورکی جنگ نہیں لڑنی۔
سوال صرف یہ ہے اگروہ واقعی یہی نیت اور ارادہ رکھتے ہیں تو امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مسٹرمائیک پومپیو کو انہوں نے کیوں دوٹوک الفاظ میں یہ نہیں کہا کہ آج سے میں افغانستان میں موجودنیٹو فورسز کواپنے ملک سے جانے والی سپلائی لائن بند کررہا ہوں۔اسی طرح سے پاکستان کوامریکہ کی طرف سے جو کولیشن اتحادی کاسٹیٹس ملاہواہے ،اسے بھی منسوخ کرنے کا اعلان کرتاہوں۔پھر ہم سمجھتے کہ ہاں یہ ہے نیاپاکستان جس نے اب دوسروں کی جنگ لڑنے کو واقعی خیرباد کہہ دیا ہے۔اس بات کاذکرکشورمحبوبانی اور ذکریافرید بھی اپنی تقریروں میں کرتے کہ دیکھوپاکستان جیسے ملک نے بھی امریکہ کو غیراہم قراردے دیا ہے۔ہم سچ مچ ایک ’’پوسٹ امریکن ورلڈ‘‘میں داخل ہوچکے ہیں۔
لیکن محترم عمران خان صاحب کے قول وفعل کے اس تضاد کودیکھ کر پومپیوصاحب بھونپوبجاتے پاکستان سے رخصت ہوئے۔انہیں عمران خان کی یہ بات بیحدپسندآئی کہ وہ سپورٹس مین شپ کی سپرٹ رکھتے ہیں۔
سوال ہے کہ اگرہمارے وزیراعظم صاحب ایک طرف افغانستان میں نیٹوکو سامان رسدکی سپلائی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف افغان طالبان کی چھاپہ مارکارروائیوں کو ان کی جدوجہدِ آزادی بھی قراردیتے ہیں تواس قسم کے سپورٹس مین اور اس کی سپرٹ کو کیا نام دینامناسب ہوگا؟۔
اسلام کو خطرے میں بتاکریکے بعد دیگرے پاکستانی حکمرانوں کی سربراہی میں پاکستان جب تک دوسروں کی جنگ لڑنا اسی طرح سے جاری رکھے گا،اس کی سول ، سیکولراور روشن خیال سوسائٹی کو بھی اپنی بقاکی جنگ جاری رکھناپڑے گی۔ان کا ’’نائن الیون‘‘ تو روز ہی ہوتا ہے۔
♦