علی احمد جان
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں مخالفت اور موافقت دونوں نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ڈیم بنانے کے حق میں دلائل جتنے مضبوط ہیں اتنی ہی مضبوط اس کی مخالفت میں دی جانے والی تاویلیں بھی ہیں۔ ماہرین کے درمیان عمومی طور پر اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ کسی ڈیم کی تعمیر کے لئے صرف اس کے معاشی و اقتصادی فوائد و نقصانات کو ہی دیکھنا کافی نہیں بلکہ سماجی، ماحولیاتی اور سیاسی حقائق کو مدنظر رکھا جانا بھی لازمی ہے۔
پاکستان میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ڈیم بنانا اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں پانی کی قلت پیدا ہورہی ہے جو ہماری ضرورت کے لئے ناکافی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ۱۹۴۷ ء میں ایک آدمی کے لئے ۶۵۰۰ لٹر پانی دستیاب تھا جو اب صرف ۹۰۰ لٹر رہ گیا ہے اگر ڈیم نہ بنایا گیا تو اگلے کچھ عرصے میں پانی کی فی کس دستیابی مزید کم ہوجائیگی اور ہمیں شائد پانی بوتلوں کے حساب سے ملے گا۔
سنہ۱۹۴۷ء میں مغربی پاکستان جو موجودہ پاکستان ہے اس کی آبادی ۴ کروڑ نفوس پر مشتمل تھی جو اب بڑھ کر ۲۲کروڑ ہوچکی ہے ۔ اگر پانی کی دستیابی کو آبادی پر تقسیم کرکے دیکھا جائے یہ حقیقت بہ آسانی سمجھ میں آتی ہے کہ پانی کم نہیں ہوا بلکہ آبادی میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے فی کس پانی کی دستیابی کم ہوگئی ہے۔ کسی بھی ڈیم سے پانی کے مقدار میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو ذخیرہ کرنے کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے ۔ اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کی استعداد ۳۰ دن سے بڑھا کر ۹۰ دن بھی ہو جائے تو فی کس پانی کی دستیابی میں اضافہ ممکن نہیں۔
اگر آبادی ۲۲ سے بڑھ کر۳۰ کروڑ ہوجائے تو ڈیم بنانے کے بعد بھی فی کس پانی کی دستیابی مزید کم ہوجائیگی اور دستیابی کی مدت بھی۔ ڈیم بنانے کے بعد اس کی پانی زخیرہ کرنے کی استعداد اس میں جمع ہونے والی ریت اور مٹی بھر جانے سے روز بروز کم ہوجائے گی مگر آبادی میں کمی کا کوئی امکان مستقبل میں بھی نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے شائد یہ ڈیم بھی کچھ عرصے میں ہی ناکافی ہوجائے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کرنے کے لئے مزید زمین کو زیر کاشت لانے کی ضرورت ہے جس کے لئے اضافی پانی کی ضرورت ہوگی لہذا ڈیم بنا کر ہی اس ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے کل ۸۰ ملین ہیکٹر رقبے میں سے ۲۰ ملین ہیکٹر قابل کاشت ہے جس کا ۸۰ فیصد سیراب کرکے کاشتکاری کی جاتی ہے۔ مزید ۲۰ فیصد قابل کاشت رقبے کو بھی سیراب کرنے کے لئے اضافی پانی کی ضرورت ہے اس لئے ڈیم بنانا ضروری ہے۔
مگر کیا اس اضافی اراضی کو زیر کاشت لانےکے لئے فراہم کئے جانے والے اضافی پانی سے ڈیم کے ذخیرہ کرنے کی استعداد میں فرق نہیں پڑے گا؟ اگر ذخیرہ کرنے کی استعداد کو متاثر کئے بغیر پانی فراہم کیا جائے تو کیا موجودہ زیر کاشت رقبے کو دستیاب پانی کی فراہمی متاثر نہیں ہوگی؟ موجودہ اضافی زمین کو زیر کاشت لانے کے لئے پانی کی فراہمی کیا پانی کے تقسیم پر ایک نئے سیاسی تنازع کو جنم نہیں دے گی؟
گھریلو استعمال اور پینے کے لئے پانی کی دستیابی کو بھی اشتہارات اور ابلاغ میں بطور ڈیم کے فوائد کے بتایا جاتا ہے۔ لیکن جس ڈیم کی بات کیجاتی ہے اس کا پانی گھریلو استعمال میں نہیں آتا۔ پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر کو ڈیم کا پانی فراہم نہیں کیا جاتا۔ گھریلو استعمال کا پانی چھوٹے ڈیموں اور ندی نالوں سے فراہم ہوتا ہے کسی بھی بڑے ڈیم سے نہیں۔ زیادہ گھریلو استعمال کے لئے زیادہ تر زیر زمین پانی کا استعمال ہوتا ہے جس کا دارومدار بارش پر ہے کسی بھی ڈیم کے پانی پر نہیں۔ پینے کے لئے پانی کی فراہمی کا جواز بھی ڈیم کی تعمیر کے لئے کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتا۔
بجلی کے لئے ڈیم کی ضرورت پر بھی زور دیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ ملک میں بجلی کی کمی دور کرنے کے لئے ڈیم بنانا ضروری ہے۔ جس ڈیم کی بات کی جاتی ہے وہاں سے بجلی کو صارفین تک ترسیل کی لاگت بھی بجلی کے پیداوار جتنی یا اس سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف ڈیم بنائے بغیر بہتے دریا پر بجلی پیدا کرنا ڈیم سے کہیں زیادہ فائدہ مند اس لئے بھی ہے کہ اس کی قیمت کم ہونے کے علاوہ ترسیل میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ حالیہ تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرکے ایک بڑے ڈیم سے بجلی پیدا کرنے کے بجائے بہتے دریا پر بغیر کسی نقصان کے بجلی کے چھوٹے منصوبے لگانا زیادہ سود مند ہوتے ہیں۔
ایک اور دلیل جو ڈیم کو بنانے کے حق میں دی جاتی ہے وہ بارشوں اور سیلاب کے ضائع ہونے والے پانی کو بچانے کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب مون سون کی بارش ہوتی ہے اور ملک میں سیلاب آجاتا ہے تو پانی بجرہ عرب میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے جس کو ذخیرہ کرنا قومی سلامتی کا تقاضا ہے۔
ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ سمندر کے پانی کے خشکی میں گھسنے سے روکنے کے لئے ایک قدرتی نظام موجود ہوتاہے جس کے برقرار رکھنےکے لئے میٹھے پانی کا سمندر تک پہنچنا لازمی ہے ۔ دریائے سندھ پر بیراجوں ، بندھوں اور ڈیموں کی تعمیر کی وجہ سے سمند تک پہنچنے والے پیٹھے پانی کی مقدار اور اس کا دورانیہ کم ہوگیا ہے۔ سمندر تک پہنچنے والے میٹھے پانی میں کمی کی وجہ سے ساحل سمندر پر تیمر کے جنگلات کو سخت نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف سمندر کا پانی روزانہ کی بنیاد پر خشکی میں گھس رہا ہے بلکہ کسی سونامی یا طوفان کو روکنے کا قدرتی نظام بھی انتہا ئی کمزور ہوچکا ہے۔ اگر میٹھے پانی کو سمندر تک نہیں پہنچنے دیا گیا تو نہ صرف ساحلی علاقے سمندر سے آنے والے طوفان اور سونامی کی براہ راست زد میں ہونگے بلکہ خشکی کا بہت بڑا علاقہ سمند کا حصہ بن جائیگا ۔
سیلابی پانی سمندر تک پہنچنے والے میٹھے پانی کا واحد ذریعہ ہونے کے ساتھ انڈس بیسن میں زرخیزی کا سبب بھی ہے۔ احتمال یہ کہ اگر سیلابی پانی کو روک دیا گیا تو ایک طرف سمندر خشکی میں در آئے گا تو دوسری طرف سندھ میں زرعی پیداوار بھی متاثر ہوگی جس کی شکایات منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد یہاں کے کسان کرتے آرہے ہیں۔
ڈیم بنانا کیوں ضروری ہے اس بارے میں ڈیم کی تعمیر سے قبل صرف اس کے معاشی اور اقتصادی فوائد کا پرچار کرنے کے بجائے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا بہت لازمی ہے تاکہ اس بڑے منصوبے کا قومی یکجہتی اور اتحاد پر منفی اثرات نہ پڑیں۔
♦