سلمان رشید
سفیدہ اور کونو کارپس درختوں کی دو ایسی انواع ہیں جنھیں ’پانی کا پیا سا‘ کہا جاتا ہے۔سفیدہ آسٹریلیا سے کئی دہائیاں قبل درآمد کیا گیا تھا۔ سفیدے کا ایک بڑا درخت ہرروز کم از کم سو لیٹر پانی زمین سے چوستا ہے۔ یہ تحقیق ڈاکٹر اشرف بودلہ کی ہے جو 1989-90 میں فیصل آباد کے نیوکلئیر انسٹی ٹیوٹ آف ایگرو باٹنی سے منسلک تھے ۔ سفیدہ ایک ایسا ٹیوب ویل ہے جو بلا تعطل زمین سے پانی چوسنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔
کونو کارپس کا وطن متحدہ عرب امارات ہے اور اسے پاکستان میں میئر کراچی مصطفے کمال نے 2005 میں درآمد کیا تھا۔ یہ درخت پانی کے ذخائیر کر برباد کرنے اور الرجی پھیلانے کا باعث بنتا ہے لیکن اس کے باوجود اس درخت کو پاکستان کے طول و عرض میں لگایا جارہا ہے۔ آخر کیوں؟
درختوں کی ان دونوں انواع کو پاکستان کے طول و عرض میں پھیلانے میں محکمہ جنگلات کی بیورو کریسی ملوث ہے ۔ ان دونوں درختوں کے پتے ہوں یا ٹہنیاں جانوروں کی خوراک نہیں ہیں اور یہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر محکمہ جنگلات ان درختوں کا گرویدہ ہے ۔ جانور کیونکہ ان پودوں کو نہیں کھاتے اس لئے اس کی نگہداشت اور افزائش و حفاظت سے محکمہ جنگلات کے عہدیداروں کو فراغت مل جاتی ہے۔ ان درختوں کی نشوو نما نسبتا تیزی سے ہوتی ہے اس لئے فوری نتائج اور کچھ کر دکھانے کی خواہش مند سیاست دان ہوں یا محکمہ جنگلات کے افسر ان سفیدے اور کونو کارپس کے شیدائی ہیں۔
ان درختوں کو لگانے کے خلاف جب یہ کہہ کر آواز اٹھائی جاتی ہے کہ ہمارے قدرتی ماحول سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ ماحول کو بہتر بنانے کی بجائے اس کی بربادی کا باعث بنتے ہیں تو ان درختوں کے حمایتی یہ کہہ کر جواب دیتے ہیں کہ کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہر حال بہتر ہے۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ جو پودے وہ لگا رہے ہیں یا لگانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ان کے ماحول پر کس قدر منفی نتائج مرتب ہوں گے۔
سنہ1960 کی دہائی میں ہم نے بغیر سوچے سمجھے اسلام آباد کو سرسبز بنانے کے لئے چین سے پیپر میلبری درآمد کیا تھا جو اب پولن الرجی کے پھیلاو کا باعث بن رہا ہے۔ مستقبل قریب میں کونو کارپس ناک کی سوزش جیسی بیماری کے پھیلانے کا موجب بن سکتا ہے۔
عمران خان نے آئندہ پانچ سال میں دس بلین درخت لگانے کا پروگرام بنایا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ درختوں کی کون سی اقسام ہوں گی جو وہ لگانے جارہے ہیں اور یہ دس بلین درخت آئیں گے کہاں سے؟
عمران خان حکومت کو پہلے خیبر پختون خواہ میں محکمہ جنگلات نے گمراہ کیا تھا اور اب یہی کچھ وہ وفاقی حکومت سے ساتھ بھی کام کررہا ہے۔ محکمہ جنگلات کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ سفیدہ اور کونو کارپس جیسے درخت چرواہوں کے کسی کام کا نہیں ہے لہذا اس مرتبہ بھی امید ہے محکمہ جنگلات کی بیورو کریسی ان درختوں کو لگانے کا مشورہ دے گی۔
پانچ سال میں دس بلین درختوں کا مطلب ہے ایک سال میں دو بلین درخت اور ہر روز پانچ لاکھ پچاس ہزار سے کچھ ہی کم روزانہ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساڑھے پانچ لاکھ درخت روزانہ مہیا کہاں سے ہوں گے؟ اور پھر اگلے پانچ سال متواتر اور باقاعدگی سے۔
سنہ 1980 کی دہائی میں محکمہ جنگلات نے سوات، بونیر اور باجوڑ کی پہاڑیوں پر سفیدے کے درخت لگا دیئے تھے۔ یہ دور سے چیٹر کے درختوں جیسے لگتے تھے ۔ ان درختوں نے ان علاقوں کے قدرتی ماحول کی جو بربادی کی وہ بیان سے باہر ہے۔ یہاں موجود تازہ اور صاف پانی کے چشمے ان درختوں کی بدولت سوکھ گئے ہیں۔2000 میں سفیدے کے درختوں کی کٹائی شروع ہوئی لیکن جو نقصان وہ ماحول کو پہنچا چکے تھے اس کی بحالی اب تک ممکن نہیں ہوسکی۔
لاہور میں محکمہ جنگلات کی دو نرسریاں ہیں جو زیادہ سے زیادہ تین ہزار پودوں کی افزائش کر سکتی ہیں۔ اس تعدا د میں اضافے کے لئے ان نرسریوں کو قلمیں لگانی پڑیں گی جن کی افزائش مارچ اور اکتوبر کے درمیان ہی ممکن ہے اور اس میں چھ ہفتے کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کی تمام نرسریوں میں پودوں کی افزائش کو اکٹھا بھی کر لیا جائے پھر بھی ساڑھے پانچ لاکھ پودے روزانہ سپلائی کرنا ممکن نہیں ہے۔
ہمارے قدرتی ماحول سے ہم آہنگ پودے چرواہوں اور جانوروں کی دست برد سے صرف پندرہ فی صد بچ پاتے ہیں ۔لہذا یہ درخت کروڑوں میں نہ لگ سکتے ہیں اور نہ محفوظ رہ سکتے ہیں جس کا مطلب ہے صرف سفیدہ اور کونوکارپس ہی ایسے پودے ایسے ہیں جو تیزی سے بڑھتے اور چرواہوں اور جانوروں سے محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن ان کے ماحول پر اثرات تباہ کن ہیں۔
سلمان رشید کے روزنامہ ڈان میں شایع شدہ مضمون سے ماخوذ۔ترجمہ و تلخیص : لیاقت علی
♦