منیر سامی
آج کل پاکستان میں ایک غلغلہ زیادہ زور سے اٹھ رہا ہے کہ ’تبدیلی آگئی ہے‘‘، پاکستان کو الہ دین کے چراغ والے جِن نے چمکا کر نیا کر دیا ہے۔ یہ سب دیکھ سُن کر ہمیں ایک مصرع یاد آرہا ہے ، ’نئے مداری، نیا تماشا، پُتلوں کے کردار نئے ‘‘۔
جب غور سے دیکھیں تو نیا کُچھ بھی نہیں ہے بلکہ جو کچھ پرانا تھا اب اور بھی راسخ ہو گیا ہے۔ اس کااہم ترین ثبوت پاکستان میں ماہرِ معیشت ’ڈاکٹرعاطف میاں‘ کو اہم عہدے پر فائز کیے جانے کے بعد اس وجہ سے فوراً برطرف کیا جانا تھا کہ وہ احمدی عقیدے سے تعلق رکھتے تھے۔ نئے وزیرِ اعظم یا یوں کہیے کہ مداری عمران خان نے، انہیں خود بڑی ستائش اور تعریف کے بعد معیشت کے ایک مشیر کے طور پر باہر سے بُلا کر ان سے پاکستان کی خدمت کی درخواست کی تھی۔ ڈاکٹر عاطف میاں دنیا کے گنے چنے نوجوان ماہرینِ معیشت میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پذیر ممالک کے معاملات پر خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔
جب عمران خان کی حکومت نے عاطف میاں کومعاشی مشاورت کمیٹی کے اراکین میں نامزد کیا تھا تو امید ہوئی تھی کہ اب ہم واقعی ایک نئے پاکستان کی جانب چل پڑے ہیں۔ جس میں اب مذہبی تعصبات کو پسِ پُشت ڈال کر پاکستان میں ترقی پر زور دیا جائے گا۔ جب عاطف میاں کی نامزدگی کی مخالفت شروع ہوئی تو عمران خان کے وزیرِ اطلاعات نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم مذہبی شدت پسندی سے نہیں ڈرتے اور یہ کہ ہم اب پاکستان کو محمد علی جناح کے نظریہ کا وہ پاکستان بنائیں گے جہاں ہر شہری اپنی قابلیت کے مطابق خدمات انجام دے گا۔ لیکن پھر یہی وزیرِ اعلیٰ اپنے بیان سے پھر گئے۔ اس سارے معاملہ میں اہم بات یہ ہے کہ خود عمران خان نے اس مسئلے پر کوئی بیان نہیں دیا ۔ شاید شرمندہ ہوں۔یا شاید انہیں کوئی پشیمانی ہو بھی نہیں۔
عاطف میاں کے ساتھ ، علومِ معیشت کے عالمی شہرت یافتہ دو اور ماہرین بھی مشاورتی کونسل میں تعینات کیے گئے تھے، جن کے نام پروفیسر عمران رسول اور ڈاکٹر عاصم اعجاز خواجہ ہیں۔عاطف میاں کی برطرفی کے بعد ان دونوں نے بھی اپنے عہدوں سے استعفے دے دیئے اور حکومت سے معذرت کر لی۔ ان تین اہم دانشوروں اور بین الاقوامی ماہرینِ معاشیات کا حکومت کی ابتدا ہی میں اس طرح اپنے عہدے چھوڑ دیناپاکستان کے حق میں اچھا نہیں ہے۔ دنیا بھر کے ماہرینِ مالیات او ر معیشت اب پاکستان کے معاملہ میں اور بھی چوکنا ہو جائیں گے اور معیشت کی ترقی کے بارے میں کسی بھی معاملہ پر فوراً یقین نہیں کریں گے۔
پاکستان کے شہریوں کو جان رکھنا چاہیئے کہ کوئی بھی قوم صرف عوامی مقبولیت کے نعروں سے یا کسی ہیرو کی پرستش سے ترقی نہیں کرتی۔ ترقی کے لیئے ضروری ہے کہ یہ بالکل واضح ہو کہ کن امور میں واضح تبدیلی لازم ہے اور وہ کیا راسخ ترین عنصر ہے جسے تبدیل ہونا ضروری ہے۔ اس سمجھنے کے لیے وہ باتیں دہرانا ضروری ہے جنہیں درد مند شہری، تمام تر جبر کے باوجود بارہا سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاست اور معیشت کی اصل یہ ہے کہ اس پر ایک طاقتور طبقہ کا جبریہ غلبہ ہے۔ یہ طبقہ جاگیر داروں ، بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں، افسر شاہی کے چنید ہ اراکین، عدلیہ کے اہم عہدے داروں، مذہب کے نعرے بازوں، اور عسکری طبقات کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔یہ طبقہ آپس میں متحد ہے ، یہاں تک کہ ان میں رشتہ داریاں بھی ہیں اور مضبوط باہمی تعلقات بھی۔ اگر ہمارے قابل صحافی اس پر توجہ دیں تو اس طبقہ میں شامل افراد کی ایک مکمل فہرست بھی شائع کر سکتے ہیں۔ یہ طبقہ خفیہ یا اعلانیہ طور پر ہر حکومت میں شامل ہوتا ہے یا پسِ پشت سرگرمِ عمل ہوتا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کے مفادات پر کبھی کوئی ضر ب نہ لگے۔ اس کامفاد صرف اور صرف پاکستان کے وسائل کو اپنے قبضہ میں رکھنا ہے کوئی بھی ایسی پالیسی سازی نہ ہونے دینا ہے جس کے ذریعہ پاکستان کے معاملات پر اس کی گرفت کمزور ہو سکے۔
اگر آپ غور کریں گے تو واضح ہوگا کہ عمران خان کی نئی کابینہ میں اکثریت ان کی ہے جو اب سے پہلے جنرل مشرف کے وزیر مشیر وغیرہ تھے۔ ان کے مشیروں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ان چند خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں جالب ؔنے بیس گھرانے ہیں آباد والی نظم بھی لکھی تھی۔ یہ گھرانے انیس بیس تو ہوتے رہیں لیکن پاکستان کے معاملات پر ان کا عمل دخل کبھی کم نہیں ہوا۔ یہ نئے نئے بھیس بدل کر اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
اگر آپ پاکستان میں اصل تبدیلی چاہتے ہیں تو ان کے قبضہ اور ان کے مفادات کو کمزور کرنا ہو گا۔ اس کے لیئے ضروری ہوگا کہ پاکستان میں زرعی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے ٹیکس میں اضافہ کیا جائے ، افسر شاہی کے بے لگام اختیارات پر قابو کیا جائے، عدلیہ کو انصاف فراہم کرنے کا پابند کیا جائے اور انتظامی امور میں اس کی مداخلت کو روکا جائے، عسکری طبقہ کی پر تعیش اور غیر ضروری مراعات میں کمی کی جائے، اورسیاست پر مذہبی طبقہ کے اثر و رسوخ کو رد کیا جائے۔ یہی اصل تبدیلی ہوگی۔ کیا عمران خان اور ان کی حکومت نے اس سمت کوئی قدم اٹھایا ہے؟
عوامی نعرے بازی کے ذریعہ ،سرکاری عمارتوں کے استعما ل میں ردو بدل یا سرکاری جائداد کی نیلامی اور فروخت کے اعلانات کے ذریعہ عوام کو چند روز دھوکا تو دیا جا سکتا ہے لیکن پھر حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے اور عوام کو دھچکے لگتے ہیں۔عمران خان کے حامیوں اور پاکستان کے شہریوں پر لاز م ہے کہ وہ اس اصل تبدیلی کا مطالبہ کریں جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔ ورنہ ہم وہیں رہیں گے جہاں تھے یا اور پیچھے جاتے رہیں گے۔
♦