آج سے کچھ سال پہلے کی بات ہے ۔ ایسے ہی ستمبر کی ایک روشن اور گرم دوپہر تھی لیکن تھوڑے سے فرق کے ساتھ یعنی دن 7 ستمبر کی بجائے 28ستمبر کا دن تھا۔اور سال 1974 کی بجائے 1991 کا تھا۔وزارت عظمیٰ کی کرسی پر جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی جگہ جناب نواز شریف صاحب متمکن تھے۔وزارت مذہبی امورکی ذمہ داری جناب کو ثر نیازی کی بجائےمولانا عبد الستار نیازی کے کندھوں پر تھی۔ احاطہ عدالت قومی اسمبلی اسلام آباد کی بجائے گورنر ہاوس لاہور پنجاب طے پایا ہوا تھا ۔
ملک سے قومی اسمبلی کے ممبران کی تعداد کے لگ بھگ کو ئی 400 کے قریب علمائےکرام و مشائخ عظام جمع تھے ۔ اورآج کٹہرے میں جناب مرزا ناصر احمد امام جماعت احمدیہ کی بجائے علامہ ریاض حسین نقوی صاحب موجود تھے جبکہ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار صاحب کی جگہ یہ اہم ذمہ داری سپاہ صحابہ کےمرکزی سربراہ جناب ضیاء الرحمٰن فاروقی صاحب کے ہاتھ میں تھی۔
سنہ1991 کے اوائل میں شیعہ سنی فسادات اپنے عروج پر پہنچ گئے تھے روز کی بنیادوں پر شیعہ سنی کے نام پر قتل وغارت ہو رہی تھی ایسے میں جناب نواز شریف صاحب کو مشورہ دیا گیا کہ سپاہ صحابہ اور تحریک نفا فقہ جعفریہ دونوں گروہوںپر پابندی لگا دی جائے۔ چنانچہ وزیر اعظم صاحب نے اس کے لئے جون کے مہینے میں چاوں وزرائے اعلیٰ ، چیف و ہوم سیکرٹریان اور آئی جی صاحبان کو اسلام آباد طلب کر لیا ۔ صلاح مشورے کے بعد طے پایا کہ زیادہ اچھا ہے کہ کوئی فیصلہ لینے سے پہلے دونوں گروہوں کو سُن لیا جائے۔
چنانچہ 28 ستمبر 1991 کا دن طے پا یا ۔ ملک کے طول عرض سے شیعہ ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث علماء سمیت جمیعت علماء پاکستان، جمیعت علمائے اسلام کے دونوں گروپ ، جماعت اسلامی ،جماعت اہل سنت ،جمیعت اہل حدیث اور تحریک نفا فقہ جعفریہ سمیت کوئی 400 کے قریب علماء ومشائخ موجود تھے۔
جناب وزیر اعظم صاحب کرسی صدارت پر متمکن ہوئے تو آپ کے داہنی جانب مولانا عبد الستار نیازی صاحب نے نشست سنبھا ل لی ۔ سب سے پہلے مولانا ضیاء القاسمی نے تقریر کی اس کے بعدعلامہ ریاض حسین نقوی صاحب نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا دفاع کرتے ہوئے سپاہ صحابہ پر وطن دشمنی تشدد اور یزید کی حمائیت کا الزام لگایا اور کہا کہ انڈیا کے ایجنٹوں کے ایماء پر خواہ مخواہ ہم پر صحابہ دشمنی کا الزام لگاتے ہیں۔جناب ضیاء الرحمٰن فاروقی صاحب اس تقریر کا حال درج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ ریاض حسین نقوی صاحب نے اپنی تقریر میں۔۔ایسے گفتگو کی کہ پوری مجلس میں بریلوی ،اہل حدیث، اور بعض دیوبندی علماء اور خود حکومت نے بھی اس مئوقف کی تائید کردی۔‘‘ریاض حسین نقوی صاحب کے خطاب کے بعد وزیر اعظم صاحب نے مجلس برخاست کردی ۔
عین اس موقعہ پر جناب ضیاء الرحمٰن فاروقی صاحب قائد سپاہ صحابہ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ریاض حسین نقوی صاحب نے جھوٹ بولا ہے مجھے اس کے جواب کے لئے وقت دیا جائے۔میاں نوا زشریف نے کہا کہ میں علماء کا خطاب سن چکا ہوں مجھے سب لوگوں کی بات سمجھ آگئی ہے۔اب کسی اور تقریر کی ضرورت نہیں اس لئے محفل برخاست کی جاتی ہے۔ ضیاء الر حمٰن فاروقی صاحب نے زور دے کر کہا کہ شیعہ لیڈر غلط بیانی کر رہا ہے اس کے جواب کے بغیر یہاں سے کوئی نہیں جا سکتا۔ آپ کو اس کا جواب سننا پڑے گا۔تقریباً 7 منٹ تک مجمع پر سناٹا طاری رہا۔ بالاخر وزیر اعظم صاحب نے کہا اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر بتائیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟
ضیاء الرحمٰن فاروقی صاحب خود لکھتے ہیں کہ جب میرا خطاب شروع ہوا تو مجمع غیض و غضب کا شکار ہو گیا اور تمام حکمران کانوں کو ہاتھ لگانے لگ گئے۔وفاقی وزیر جناب عبد الستار نیای صاحب نے فوری اعلان کیا کہ اس کافر کو سخت سزا دی جائے گی اس تقریر کے بعد وزیر اعظم صاحب کو ایک بھاری بھر کم دستاویز پیش کی گئی جس میں 111 کتب کے قابل اعتراض صفحات کے اصل فوٹو سٹیٹ والی 240 صفحات اٹیچ تھے۔ بعد میں 22 جولائی 1992 کے اجلاس میں اس میں اضافہ کرکے 232 کتابوں کے 600 سے زائد حوالہ جات پر مبنی 740 صفحات کی دستاویز بنا کی پیش کر دی گئی۔
اس دستاویز میں پاکستان،ہندوستان، بنگلہ دیش اور انگلستان کے ہزاروںعلمائے دین کے فتاویٰ اصلی حالت میں ساتھ لگا دئیے گئے۔ اس دستاویز کے دیباچہ میں پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا کہ ’’ آج ہم آپ کے سامنے ایک دستاویز اور ایسا تاریخی آئینہ پیش کر رہے ہیں جس کو سیاسی چادر کے نیچے نہائیت ہوشیاری سے چھپادیا گیا تھا ۔ جس کی سڑانڈ ایک طرف تاریخ اسلام کو مسخ کر رہی تھی تو دوسری طرف محمدی شریعت کی بنیادوں کو منہدم کر رہی تھی‘‘ ص14 دستاویز گورنمنٹ ریکارڈ میں بھی موجود ہے اور انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے۔
مجھے آج اس کی یاد جناب ہارون الرشید صاحب اور دوسرے بہت سےمعتبر دانشور حضرات کے عاطف میاں کے حوالے سے بیان پڑکر اس لئے آئی کیونکہ ان سب قابل احترام دانشوران وطن کے جذبات ہیں کہ دیکھیں غیر مسلم ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہمیں بھگوان داس منظور تھا لیکن چونکہ یہ احمدی حضرات ختم نبوت کے منکر ہیں لہذا جو ختم نبوت کا منکر ہے ہم اُسے ہر گز کوئی عہدہ نہیں سونپ سکتے کیونکہ 7 ستمبر 1974 کو قومی اسملی نے متفقہ فیصلہ کر دیا ہے کہ احمدی ختم نبوت کے منکر ہیں ۔اب یہ اس بات کو تسلیم کر لیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔
اٹھائیس28 ستمبر 1991 کو گورنر ہائوس لاہور میں جو 400 علماء کی موجودگی میںپاکستان،ہندوستان، بنگلہ دیش اور انگلستان کے ہزاروں علمائے کرام کے تحریری فتاوی ٰ کی جودستاویز وزیر اعظم صاحب کو ایک آفیشل میٹنگ میں پیش کی گئی وہ یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے ختم نبوت کے منکر شیعہ حضرات ہیں۔ اور ان کا کفر قادیانی حضرات سے بھی بڑا ہے ۔ بلکہ کئی گنا بڑا ہے۔ اس دستاویز کے ص 119 پر زیر عنوان’’ چند شبہات اور ان کے جوابات ‘‘ لکھا ہے ’’ چوتھا شبہ کہا جاتا ہے کہ شیعہ ، قادیانیوں سے بھی بد تر کافر ہیں حال آنکہ قادیانی اسلامی عقائد میں سے ایک بنیادی عقیدے ختم نبوت کے منکر ہیں اور شیعہ تو ختم نبوت کے قائل ہیں۔
وضاحت ۔۔ شیعہ یقیناً قادیانیوں سے بڑھ کر کافر ہیں کیوکہ قادیانی رسول اللہ کے لئے خاتم النبیین کے الفاظ مانتے ہیں مگر اس کی حقیقت بدل دیتے ہیں یعنی اس کے مفہوم میں تبدیلی کر دیتے ہیں مگر شیعہ ختم نبوت کے صرف الفاظ کے قائل ہیں اور ان کا عقیدہ امامت ختم نبوت کی حقیقت کا صاف انکار ہے ۔ دوسرے یہ کہ قادیانی قرآن مجید کو اصل حالت میں مانتے ہیں مگر اس کے معانی میں تحریف کرتے ہیں جبکہ شیعہ قرآن مجید کی محفوظیت کے ہی منکر ہیں ۔نیز صرف معنوی ہی نہیں بلکہ لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریفوں کے مرتکب ہیں ۔ تیسرے یہ کہ قادیانی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کی اس طرح مخالفت نہیں کرتے جبکہ شیعہ صحابہ اکرام کی مخالفت تو درکنار ان کے ایمان ہی کے منکر ہیں حتیٰ کہ ان کے ایمان و صداقت کی جو خبر قرآن مجید اور احادیث متواترہ میں موجود ہے اس کے قطعی انکاری ہیں ۔ چوتھے یہ کہ قادیانیوں کی آذان، نماز اور دیگر فقہی مسائل تقریباً وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں جبکہ کلمہ سے لے کر تدفین تک کے ہر مسئلہ میں شیعہ مسلمانوں سے الگ ہیں۔
پانچواں شبہ ۔۔ اگر شیعہ کفر میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں تو پھر قادیانیوں سے پہلے ان کے کفر کا اعلان و اظہار اس شدومد سے کیوں نہیں کیا گیا
وضاحت۔۔۔ مسلمانوں کو اپنے بارے میں غلط فہمی اور دھوکہ میں رکھنے کے لئے اپنے کفریہ عقائد کو چھپانا شیعوں کے دین کا حصہ ہے جسے وہ تقیہ کہتے ہیں۔ ۔۔یہی وجہ ہے کہ شیعہ گروہ جتنا پرانا ہے اس کے کفر کے فیصلہ کا سلسلہ بھی اتنا ہی پرانا ہے‘‘ ( تاریخی دستاویز مئولف ابو ریحان ضیاء رحمٰن فاروقی ناشر شعبہ نشر و اشاعت سپاہ صحابہ پاکستان)۔
جناب ہارون الرشید صاحب وہ بھی ایک ستمبر تھا اوریہ بھی ایک ستمبر ہے ۔ وہاں بھی علمائے کرام ہی پیش ہو رہے تھے اور یہاں بھی علماء ہی منبر افروز ہیں ۔ وہ محفل بھی سرکار کی ہی سجائی ہوئی تھی اور یہ بھی۔ وہ بیا نیہ بھی علماء سے سرکار ہی سن رہی تھی اوریہ بیانیہ بھی سرکار ہی کے ہی سامنے پیش کیا گیا۔وہ بیانیہ تو خود حکومت نے 40سال تک تہہ خانوں کے پردوںمیں چھپا دیا تھا مگر یہ تو بر سر عام ہے اور سپاہ صحابہ پہلے دن سے اسے دھڑلے سے شائع کر رہی ہے ۔
اگر اُس بیانیہ کی رو سےعاطف میاں مجرم اول تھا تو اس بیانیہ کی رو سے وہ تو کہیں پیچھے رہ گیا ہے کیونکہ وہ ’’ قادیانی رسول اللہ کے لئے خاتم النبیین کے الفاظ مانتے ہیں‘‘ اور ’’ قادیانی قرآن مجید کو اصل حالت میں مانتے ہیں‘‘ اور ’’ قادیانی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کی اس طرح مخالفت نہیں کرتے ‘‘ اور ’’ قادیانیوں کی آذان، نماز اور دیگر فقہی مسائل تقریباً وہی ہیں جو مسلمانوں کے ہیں‘‘ سرکا ر شدید تلخ الفاظ استعمال کرتے ہوئے کبھی 28 ستمبر کے اس بیانئے کو بھی پڑھ لینا۔
♦