بیرسٹر حمید باشانی
جہاں ظلم ہو، نا انصافی ہو۔ اہل حکم ظلم کے عادی ہوں۔ کمزور کا کوئی پر سان حال نہ ہو۔ سماجی و معاشی پسماندگی ہو، اور قانون کی حکمرانی نہ ہو۔ وہاں سو یوموٹو نہ ہو تو داد رسی کون کرے؟
سویو موٹو کیا ہے ؟ ۔ اس پر کئی بار لکھا چا چکا ہے۔ مگر اس باب میں نئی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے گزشتہ ہفتے اس معاملے کو دوبارہ بنیادی نوعیت کی بحث کے لیے کھولا ہے۔ عدالت عالیہ کو ملک کے آئین کے آرٹیکل184 کے ذیلی دفعہ تین کے تحت انسانی حقوق سے متعلقہ معاملات میں براہ راست مداخلت کا حق ہے۔ اس حق کو قانونی زبان میں سویو موٹو کہا جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کو دیگر کئی لاطینی قانونی اصطلاحوں کی طرح انگریزی زبان میں اپنایا گیا ہے۔ اس اصطلاح کوآسان اردو میں از خود نوٹس کہا جاتا ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثارنے گزشتہ ہفتے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران سویو موٹو یعنی از خود نوٹس کے دائرہ اختیاراور وسعت و گنجائش کا مکمل عدالتی جائزہ لینے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ حالاں کہ عزت ماب چیف جسٹس کے خیالات اس امر پر واضح ہیں۔ وہ ماضی قریب میں کئی معاملات میں از خود نوٹس لے چکے ہیں۔ بلکہ وہ میڈیا اور قانونی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کے جواب میں از خود نوٹس کے عدالتی عمل کے قانونیا ور اصولی طور درست ہونے کے قائل ہیں۔
اس واضح موقف کے باوجود اس معاملے کو از سر نو غور و فکر اور مباحثے کے لیے کھولنا، اور اس پر لچک دکھانا ایک احسن اور جرات مندانہ قدم ہے۔ چیف جسٹس نے نے فرمایا کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا عدالت اس باب میں حدود پھلانگ رہی ہے یا نہیں ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، جو نا صرف بنج و بار میں بلکہ پارلیمنٹ اور یہاں تک کہ عوامی سطح پربھی زیر بحث رہا ہے۔ چنانچہ اس سوال کا ایک حتمی جواب لازم تھا۔
بنظر غائر اس سوال کا جواب طے ہے۔ آئین کے آرٹیکل184 کی ذیلی دفعہ تین کے مطابق اگر سپریم کورٹ یہ سمجھے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے عوامی اہمیت کا کوئی معاملہ درپیش ہے ، تو عدالت اس معاملے میں از خود نوٹس لینے اور اس پرحکم جاری کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
از خود نوٹس کی روایت پاکستان کی عدالتی تاریخ میں شروع دن سے موجود رہی ہے۔ عدالتیں کئی معاملات میں از خود نوٹس کے اختیار کا ستعمال کر چکی ہیں۔ ان میں کئی امور کی عوام اور قانونی برادری نے تعریف کی۔ اور کئی معاملات ایسے بھی تھے ، جو بہت متنازع تھے، جن پر اس عدالتی اختیار کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ سابق چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کے دور میں بہت زیادہ ابھرا، اور قانونی برادری کے دائرہ سے نکل کر عام عوام کے درمیان بھی موضوع بحث بن گیا۔ یہ وہ موقع تھا، جب قانونی حلقوں نے از خود نوٹس کے عمل کی واضح حدود و قیود مقرر کرنے کا زور و شور سے مطالبہ شروع کیا۔
قانونی حلقوں میں اس موضوع پر بحث اور دلائل واضح رہے ہیں۔ بیشتر قانونی دانشوروں کا خیال رہا ہے کہ اگراز خود نوٹس کے اختیار کو واضح قواعد و ضوابط کاپابند کیا جائے، اور یہ اختیار صرف ناگزیر ضرورت کے تحت ہی استعمال کیا جائے تو یہ اعلی عدالتوں کے ہاتھ میں ایک انتہائی مفید ہتھیار ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین واقعات کو اس ہتھیار کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے ماضی میں چند انتہائی اہم معاملات پر از خود نوٹس لیے گئے ہیں، اور ان پر شاندار فیصلے صادرہوئے ہیں۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ اس کا ستعمال کبھی کھبی ہی ہو اور معاملے کا انتخاب احتیاط سے کیا جائے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ماضی میں جب بھی از خود نوٹس کا ستعمال عام کیاگیا۔ اور عام قسم کے یا معمولی مقدمات پر یہ اختیار استعمال ہوا، تو اس سے نظام انصاف کی عزت اور احترام میں فرق آیا۔ ایسا عموما تب ہوا، جب اعلی عدالتیں، انسانی حقوق کے نام پر سیاسی طور پر متنازعہ معاملات میں ملوث کی گئی۔ اس سے عدالتی عمل میں موجود استحکام اور شفافیت پر سولات کھڑے ہوئے۔
گزشتہ موسم سرما میں اس صورت حال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کے ایک موقر انگریزی اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ از خود نوٹس لینے کے عمل میں اضافہ عوام کے ایک حصے یا اس سے استفادہ کرنے والے لوگوں میں ہو سکتا ہے کہ مقبول ہو ، مگر طے شدہ قانون اور روایات کی روشنی میں اس عمل کا ہمیشہ جواز مشکل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ فوری انصاف، اکثر انصاف نہیں ہوتا۔
اخبار لکھتا ہے کہ نظام کی اصلاح میں عدم دلچسبی بہت مایوس کن بات ہے۔ پاکستان کے عدالتی نظام کے انتطامی سربراہ کی حیثیت سے چیف جسٹس ایک اصلاحی ایجنڈا طے کر سکتے ہیں، جس پر پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے، اور جہاں ضروری ہو وہاں وسائل بھی مہیا کر سکتی ہے۔ اس سے ملتے جلتے اداریے گزشتہ چھ ماہ کے داران ملک کاتقریبا ہر اہم انگریزی اخبار اور انگریزی ہفت روزہ لکھ چکا ہے۔
از خود نوٹس کا اختیار ایک ایسے نظام کے ساتھ جڑا ہے ، جس میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ نچلی سطح پر یا حکومتی سطح پر اختیارات کاغلط استعمال ہو سکتا ہے ، اس خدشے کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ اعلی عدالتی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے از خود نوٹس کا اختیار موجود ہو۔ لہذا نظام انصاف میں نچلی سطح پر پائی جانے والی خرابیاں دور کر کہ از خود نوٹس کی ضرورت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ مغرب کے تمام ترقی یافتہ ملکوں میں ہوا۔ یہاں پر ایک شفاف نظام انصاف قائم ہوا۔ قانون کی حکمرانی قائم ہوئی۔ میڈیا آزاد ہوا۔ اور نظام نے ایسے خوبصورت انداز میں کام کرنا شروع کیا کہ ہر شہری سے بلا امتیاز انصاف ہونے لگا، اور قانون سب کے لیے برابر ٹھہرا۔ چنانچہ ان کو از خود نوٹس کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن پھر بھی ان ملکوں میں اس کے متبادل ہیومن رائٹس کمیشن اور محتسب وغیرہ کے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔
از خود نوٹس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے عملی طورسپریم کورٹ انسانی حقوق کی صرف ان خلاف ورزیوں کے خلاف ازخود نوٹس لے سکتا ہے، جو بہت ہائی پروفائل ہوتی ہیں، اور عموما میڈیا کے زریعے عدالت کے نوٹس میں آتی ہیں۔ یہ ایک سنگین مسئلے کا وقتی اور عارضی حل ہے۔ دو سو ملین سے زائد لوگوں کے ملک میں جہاں نظام انصاف پہلے ہی بھاری بوجھ تلے دبا ہوا ہے، کسی بھی عدالت کے لیے اس طرز پر عارضی طور پر معاملات کو خود نمٹانا ممکن نہیں ہے۔ یعنی ہر اہم مقدمے کا از خود نوٹس لینا عملی طور پر ممکن نہیں۔ چنانچہ از خود نوٹس کے ضرورت سے زیادہ استعمال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
حاصل کلام یہ ہے تاریخی طور پر از خود نوٹس کا تصور ایسے سماج سے جڑا ہوا ہے، جہاں ظلم و نا انصافی عام ہے۔ جہاں ماتحت عدالتی اور حکومتی اہل کار اپنے روز مرہ کے فرائض کی ادئیگی کے دوران نا انصافی سے کام لیتے ہیں، یا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے سماج میں از خود نوٹس ایک اضافی تحفظ ہے، جو کمزور لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔
چنانچہ اس نایاب قسم کے نسخے کا استعمال بھی بڑی احتیاط اور صرف ناگزیر ضرورت میں ہی کیاجا سکتا ہے۔ ورنہ عدالت اپنے روز مرہ کے فرائض کی انجام دہی کو ایک طرف رکھ کر از خود نوٹس کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں چلی جاتی ہے، اور ایسے معاملات پر زیادہ تر توجہ صرف کرنے پر مجبور ہوتی ہے ، جس کی عدالت میں کوئی باقاعدہ درخواست بھی نہیں کی گئی ہوتی۔
اس کے بر عکس ایک با قاعدہ درخواست گزاراپنی درخواست کی سماعت اور داد رسی کے لیے طویل اور صبر آزما انتظار کے عذاب سے گزرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ چنانچہ جہاں ظلم ہو، وہاں داد رسی لازم ہے، مگراگر داد رسی نظام انصاف کا حصہ اور معمول بن پائے توبہتر ہے۔
♦