بیگم کلثوم نوازصاحبہ کی بے وقت موت بہت سوں کو افسردہ کرگئی ۔کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوئیں جس کا درماں دنیا کے چوٹی کے معالجین کے پاس بھی نہ تھا۔
آپ ایک بیٹی،بہو،بیوی،ماں ،دادی ،نانی ،بلکہ پڑنانی ہونے کے علاوہ قومی سطح کی ایک معروف سیاسی رہنمابھی تھیں۔آپ کے سوگواران میں صرف آپ کاخاندان ہی نہیں ،ہزارہاسیاسی کارکن اور لاکھوں پاکستانی عوام بھی شامل ہیں۔
ظاہری طورپر تو بیگم کلثوم نوازصاحبہ اب ہم میں موجود نہیں رہیں لیکن وہ خود سے جڑی یادوں،اپنی چھوڑی ہوئی روایت(لیگیسی) اور اپنی تصنیف کردہ ایک عدد کتاب’’جبر اور جمہوریت‘‘ کی صورت بہرحال ہمارے درمیان ابھی بھی موجود ہیں۔کتاب کا بیشتر حصہ ان کی تقاریرپرمشتمل ہے۔ یہ تحریر اسی کتاب اور اسکے مندرجات کے پس منظر کے حوالے سے ہے،نہ کہ محترمہ بیگم صاحبہ موصوفہ کی اپنی ذات کے بارہ میں۔
بیگم کلثوم نوازصاحبہ کی قائدانہ سیاسی، جمہوری اور عوامی صلاحیتوں کاا نکشاف سابق ملٹری ڈکٹیٹر جنرل پرویزمشرف کے اقتدارپرقابض ہونے اوراس وقت کے وزیراعظم جناب میاں نوازشریف کے داخل در زنداں کردیئے جانے کے بعدہواتھا۔
پاکستان چونکہ مبینہ طورپر اسلام یامسلمانوں کے نام پر معرض وجودمیں آیا تھا،یہاں سیاست میں مذہب کا کارڈ کھیلناایک معمول کی بات ،بلکہ لازم ہو چکا ہے۔ کسی کے پاس کوئی دلیل موجود نہ ہویا پہلے سے موجوددلیلیں ہلکی یا کمزور ہوں ،بلکہ یہاں تک کہ مضبوط اور بھاری قسم کی دلیلیں بھی کسی کے پاس ہوں تو انہیں مزیدمضبوط بنانے کی غرض سے انہیں مذہبی رنگ بھی دے دیاجاتاہے جس سے کیس نہ صرف مضبوط بلکہ اچھاخاصامحفوظ بھی بن جاتا ہے۔
بالکل اسی طرح ،جس طرح آج کل کی جے ٹی آئی کو’’آئی ایس آئی کا تڑکا‘‘لگانے کی نئی ترکیب ایجادہو چکی ہے۔اس سے ہر قسم کی جے آئی ٹی نہ صرف ہرلحاظ سے مضبوط بلکہ اچھی خاصی محفوظ بھی ہوجاتی ہے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ کہا تو یہ جاتاہے کہ دین کوسیاست سے جداکردیا جائے تورہ جاتی ہے چنگیزی۔لیکن پاکستانی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں تو یہاں دین کو سیاست سے چمٹانے کے پیچھے چنگیزی ہی کارفرمانظرآرہی ہوتی ہے۔
قصہ مختصریہ کہ مذہب کایہ کارڈپاکستانی سیاستدانوں کی تین نسلوں سے ایک دوسرے کو وراثتاًملتا چلا آیااور بیگم کلثوم نوازصاحبہ تک پہنچ گیا۔انہوں نے اپنے مظلوم خاوندکا اقتداربحال کروانے کی غرض سے اس مذہبی کارڈ کا بھرپورطریق پر اور بروقت استعمال کیاجو یقیناً ان کے لئے جائزہی ہوگا۔یاپھریہ کہ انہیں غیرمتوقع طورپر پلٹے ہوئے حالات کو اسی زاویئے سے دکھایاگیاہوگا ۔اس لحاظ سے ان کے خلوص نیت پہ شک نہیں کیاجاسکتا۔
بیگم کلثوم نوازصاحبہ نے اس بحرانی دورمیں مذہب کا کارڈ کیسے استعمال کیا،اس کی تفصیلات بتانے سے پہلے یہ واضح کردیا جائے کہ پاکستان میں مذہبی کارڈ کھیلنے کے تین یاچارمراحل یا مدارج ہوتے ہیں۔پہلے مرحلے میں اسلام ،اور پھر دوسرے مرحلے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو خطرہ میں ظاہرکیا جاتا ہے جسے ہنودویہود کی سازش بتایاجاتاہے ۔ تیسرے مرحلے میں اپنے سیاسی حریفوں پرقادیانیوں کا ایجنٹ ،قادیانی نواز یاقادیانی ہونے کاالزام لگایا جاتا ہے۔اس کے بعدچوتھے مرحلے میں ناموس رسالت اور ختم نبوت کے تحفظ کے نام پرعوام کو گھروں سے نکال کرسڑکوں پہ لایاجاتا ہے ۔
عموماً تیسرے یا پھر چوتھے مرحلے میں حکومت وقت (یا غاصب وقت)یا توہتھیارڈال دیتے ہیں اور یاخود پر سے قادیانی نوازہونے کالیبل اتارنے کے لئے قادیانیوں کے لئے مزید نت نئے اذیت ناک اور شرمناک قوانین یاتحاریک کااجراٗ کرتے ہیں،فوری نوعیت کاعمرہ ادا کرتے ہیں،داتا دربارپہ حاضری دیتے اورکسی حاضر یا سابق مذہبی انتہاپسندپارٹی کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کرکے ان کے کتب خانہ کے لئے کم از کم سواکروڑ روپے کی امداد کااعلان کرتے ہیں اور یوں دونوں طرف سے مذہبی کارڈزپھینکے جانے کی گیم کا آغازہوجاتا ہے۔دکی پہ دکی اور چھکے پہ چھکا پڑتادیکھ کر مخلصینَ لھمُ الدّین عوام سڑکیں خالی کرکے خوشی خوشی اللہ اکبرکے نعرے لگاتے گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔
بیگم کلثوم نوازصاحبہ نے اپنے شوہر کی حکومت بحال کروانے کے لئے جنرل پرویزمشرف کے خلاف مذہبی کارڈزکی گیم کے یہ چاروں مراحل باری باری کھیلے۔ آیئے دیکھیئے ان کی کتاب’’جبر اورجمہوریت‘‘ اس کی کیاتفصیل بتاتی ہے:
پرویزمشرف سے مخاطب ہوکر فرمایا:’’تمہارااصل ایجنڈادوقومی نظریہ کی تذلیل کرنی تھی،تحفظ ختم نبوت کے قانون کو بدلنا تھا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کو ختم کرنا تھا۔اور اب تمہاری حکومت اسلام کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔‘‘تقریربعنوان :اسلام کے لئے نیاخطرہ،فرمودہ ۲۵؍جون ۲۰۰۰ء۔ صفحہ ۶۳)۔
پرویزمشرف کے انقلاب کو قادیانی انقلاب قراردیتے ہوئے فرمایا:’’انگریز نے ۔۔۔آخری حربے کے طورپر ہندوستان کے ایک گاؤں قادیان میں اس نے اپنے وظیفہ خوار ایک شخص مرزاغلام احمد سے جھوٹی نبوت کا دعویٰ بھی کروادیا۔۔۔۔دکھ اورافسوس یہ ہے کہ آج اسی خارجی دین کی وظیفہ خوراین جی او کے لوگ ۱۲؍اکتوبر۱۹۹۹ء کے قادیانی انقلاب کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کے وزیربنے ہوئے ہیں۔آج قادیانی ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔آج میں سرفروشان اسلام کی دھرتی صوبہ سرحد میں کھڑی ہوکریہ اعلان کرتی ہوں کہ اب گھرگھر غازی علم دین رحمۃ علیہ شہید پیداکرنے ہونگے۔علماء کو اپنے فروعی اختلاف بھلا کر ناموس رسالت کے لئے متحد ہونا ہوگا۔۔۔میں یہاں اعلان کرتی ہوں کہ قادیانی نوازوداقی وزیربرائے مذہبی امور نے اگر استعفیٰ نہ دیا تو میں اسی صوبے سے اس حکومت کے خلاف تحریک چلاؤں گی‘‘۔(خطاب ۲۵ ستمبر ۲۰۰۰ء۔صفحہ ۱۴۳)۔
’’نیب کا کالاقانون صرف اور صرف محب وطن سیاستدانوں اور سول بیروکریٹس کے لئے ہے۔ملک کے ساتھ غداری کرنے والا اور پاک فوج سے سزایافتہ سابق میجر فاروق آدم آج نیب کے آدم خود قانون کی آڑ میں قادیانی انقلاب کے خلاف آوازبلندکرنے والوں کو ناحق سزائیں دلوارہا ہے۔ان سزاؤں کی مدت کاتعین ربوہ میں کیا جاتا ہے اور ڈرافٹ چیف ایگزیکٹو کے دفتر میں تیارہوتا ہے۔۔۔
ہم نیب کے ربوہ میڈقانون کو نہیں مانتے۔علماء اور تحفظ ختم نبوت کی تنظیمیں آج کیوں خاموش ہیں۔۱۲ ؍اکتوبر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف سازش کی گئی۔یہ وہی غیرمسلم اقلیت ہے جو ۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۹ء تک مختلف حیلے بہانوں سے حکومت پر قبضہ کی کوشش کرتی رہی ہے مگر اس دفعہ وہ پرویز مشرف کے ناپاک خاکی کندھوں کو سیڑھی بناتے ہوئے اپنے ناپاک جسم کو ۱۴ کروڑ عوام پرمسلط کرنے کی پچھلے ایک سال سے کوشش میں کامیاب ہوتی نظرآرہی ہے۔ہم ان ناپاک لوگوں سے پاک فوج کو پاک کریں گے۔جن لوگوں کے مذہب میں جہادمنسوخ اور حرام قرار دیا گیا ہے وہ پاک فوج میں کیونکربھرتی ہوں جس کا نعرہ ہی جہادفی سبیل اللہ ہے۔مسلمانویادرکھوجہاد ہی مسلمانوں کی منزل ہے۔۔‘‘وغیرہ(خطاب ۸؍اکتوبر۲۰۰۰ء۔صفحہ ۱۵۲،۱۵۳)۔
تحفظ ناموس رسالت کے لئے عوام کو سڑکوں پہ نکل آنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتی ہیں:۔’’اب لوگ قادیانی انقلاب کے خلاف اپنے سروں پر کفن باندھ کر باہر نکل آئیں گے۔۔اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والو ۱۹۵۳ء میں بھی تحفظ ناموس رسالت ﷺکے لئے ہم نے اپنے خون سے اس دھرتی کو سرخ کردیا تھااور تمہارے عزائم خاک میں ملادئے تھے اور ان ۱۹۵۳ء والی مارشل لاء کی گھناؤنی سازش دہرانے نہیں دیں گے۔۔یہ فوجی انقلاب نہیں بلکہ قادیانی انقلاب ہے۔۔۔‘‘۔(خطاب ۱۵؍ اکتوبر۲۰۰۰ء۔صفحہ ۱۶۰)۔
’’میں حکومت کو یہ باورکرارہی ہوں کہ اب لندن میں بیٹھاہوامرزاطاہر قادیانی اپنے امیج کے بل بوتے پر کسی کوحکومت میں شامل نہیں کرواسکے گا‘‘۔صفحہ ۱۷۹ بعنوان’’ قادیانی انقلاب اور آنے والااحتساب‘‘۔(خطاب ۱۹ ؍نومبر۲۰۰۰ء)۔
کتاب میں محترمہ صاحبہ موصوفہ نے اسلام کے علاوہ پاکستان کو بھی خطرہ میں ظاہر کیا۔ان کے نزدیک اگرمیاں محمدنوازشریف برسراقتدارنہیں تو جمہوریت بھی خطرہ میں ہے،پاکستان بھی خطرہ میں ہے اور نتیجتاًاسلام بھی ۔
آپ نے یہ انکشاف بھی فرمایا کہ دراصل سنہ ۲۰۰۰ء میں میاں محمد نوازشریف نے ملک میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کرنا تھا،ان کے اس پروگرام کو ناکام بنانے کے لئے یہود،ہنوداور قادیانیوں نے مل کر ایک سازش کے ذریعہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
قارئین کرام،محترمہ کلثوم نواز کی کتاب کے مندرجات کے حوالے سے میرے کچھ جاننے والوں نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔مثلاً اگر بقول آپ کے مسلمان اور اسلام دشمن انگریزوں نے قادیانی (احمدیہ)جماعت بناکر مسلمانوں کے خلاف ایک نہایت گہری سازش کی تھی تو آج آپ کے دونوں صاحبزادگان کیوں خود کو مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کاشہری تسلیم کرنے سے انکاری ہو چکے ہیں اور اس کے بالمقابل ’’ اسلام دشمن انگریزوں‘‘ کے دیس کی شہریت لینے کواپنے لئے بہتر اور محفوظ سمجھتے ہیں۔
راقم کے ذہن میں البتہ یہ سوال ضروراٹھا ہے کہ کیا محترمہ کے پیرومرشد جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ نہیں کیاتھاجسے سنہ دوہزار میں میاں محمدنوازشریف نے پھرسے نافذکرنا تھا؟۔اور پھر یہ کہ اگر سنہ دوہزار میں میاں نوازشریف صاحب ایک گھناؤنی سازش کے ذریعہ ملک میں شریعت نافذکرنے سے محروم کردیئے گئے تھے تو آپ نے اسے سنہ ۲۰۱۳ء کا الیکشن جیتنے کے بعداگلے چارپانچ سال تک کیوں نہیں نافذکیا؟۔۔
شاید اس لئے نافذ نہیں کیاکہ پاکستانی سیاست میں مذہب کاکارڈ مستقبل میں بھی تو استعمال ہونا ہے۔
آج انہی نوازشریف صاحب کوسپریم کورٹ میں غیرصادق (یعنی کاذب)اورغیرامین(یعنی خائن) ثابت کرواکر انہیں تاحیات نااہل کروانے والے ہی ملک میں ریاستِ مدینہ قائم کرنے کا اعلان کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔
پاکستانی سیاست اور جمہوریت پر مذہبی کارڈ کا جبرنجانے کب تک جاری رہے گا؟۔
♦
One Comment