پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی۔ شیریں مزاری

ڈاکٹر شیریں مزاری تحریک انصاف کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ لندن سکول آف سکول اکنامکس اور کولمبیا یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ مہان بیورو کریٹ سردار عاشق مزاری کی بیٹی ہیں۔ انھوں نے اپنے کئیرئیرکا آغاز قائد اعظم یونیورسٹی سے بطورلیکچرر کیا اوربعد ازاں وہ ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ بن گئی تھیں۔

ڈاکٹر صاحبہ اپنے پرو اسٹیبلشمنٹ خیالات کی بدولت جلد ہی فوجی اشرافیہ کی نظروں میں آگئیں اور2002میں انھیں جنرل پرویز مشرف کے عہد حکومت میں سرکاری فنڈز سے چلنےوالے ایک تھنک ٹینک کا سربراہ بناگیا تھا۔ 2008 میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو انھیں اس ادارے کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر شیریں مزاری ایک مختصر وقت کےلئے انگریزی روزنامہ نیشن کی ایڈیٹر بھی رہی تھیں۔یہ وہی دور تھا جب موصوفہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئی تھیں۔ اپنے نظریا ت کی بنا پرانھیں لیڈی طالبان کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ نے چند دن قبل یورپی یونین کے وفد نےملاقات کی جس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال زیر بحث آئی۔ڈاکٹر شیریں مزاری نے پاکستان میں انسانی حقوق کی پایمالی پر بات کرنے کی بجائے وفد سے کہا یورپی ممالک میں مسلمانوں کے حقوق کو روندا جارہا ہے۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے یورپی پارلیمنٹ کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کا سوال اٹھایا اور کہا کہ خاکوں کی آڑ میں مسلمانوں کے مذہب کا مذاق اڑایا جارہا ہے جس پر پاکستان کو تشویش ہے۔

محترمہ وزیر صاحبہ کو یاد دلانا تھا کہ ہمارے عظیم ہمسایہ ملک چین ،جس کی ہماری دوستی پہاڑوں سے بلند تر اور سمندروں سے بھی گہری ہے، میں یغور مسلمانوں کے مذہبی حقوق کوچین کے ریاستی حکام مسلسل اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں لیکن پاکستان کی ریاست ہو یا مذہبی سیاسی جماعتیں کسی نے ان یغور مسلمانوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی۔

چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں دس لاکھ یغور مسلمانوں کو’ تعلیم و تربیت‘ کے نام پر لیبر کیمپوں میں رکھا ہوا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنکیانگ کی آبادی چین کی کل آبادی کو ڈیڑھ فی صد ہے لیکن گذشتہ سال قومی سطح پر ہونے والی گرفتاریوں کا بیس فی صد سنکیانگ میں ہوئی تھیں۔

ان گرفتاریوں میں یغور مسلمانوں کی آبادی کا دس فی صد شامل نہیں ہے جنھیں تعلیم نو کی نام پر جیل نما لیبر کیمپس میں رکھا گیا ہے۔ اگرکوئی یغور مسلمان ایک حد سے لمبی ڈاڑھی نہیں رکھ سکتا ہے اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی گرفتاری یقینی ہے۔کوئی مسلمان عورت حجاب نہیں لے سکتی۔ مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر نماز ادا کرنے کی ممانعت ہے۔ حلال فوڈ کا مطالبہ بھی خطرے کی گھنٹی خیال کی جاتی ہے اور اگر کوئی یغور مسلمان شراب،سور کا گوشت اور تمباکو نوشی ترک کردے تو سمجھ لیں کہ اس کی گرفتاری یقینی ہے

کہنے کو تو چین ایک کمیونسٹ ملک ہے جہاں کمیونسٹ پارٹی مزدوروں اور کسانوں کے نام پر بدترین آمریت قائم کر رکھی ہے۔وہاں ایسی کوئی ٹریڈ یونین جو حکومتی اثر سے آزاد ہوتشکیل نہیں پاسکتی۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ ماہ  ایک اپارٹمنٹ پر چھاپہ مارکر پولیس نے پچاس افراد کو اس الزام میں غائب کردیا کہ وہ یونین بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ کیا ہماری وزیرانسانی حقوق یا مذہبی سیاسی جماعتیں یغور مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی پایمالی کے خلاف آواز اٹھائیں گی؟

میرے خیال میں کبھی نہیں کیونکہ یہ کچھ ہماری فوجی اشرافیہ کی مرضی اور منشا اور مفادات کے خلاف ہے۔ بھارت میں ایک مسلمان ٹریفک حادثے میں مرجائے تو جمعہ کے دن احتجاجی ریلیوں کا اعلان کردیا جاتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے راولپنڈی کی اشرافیہ خوش ہوتی ہے لیکن چین میں مسلمانوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا مطلب ہے تھپڑوں کی بارش۔ ہماری مذہبی و سیاسی قیادت چالاک وہوشیار ہے اس کو پتہ ہے کیا کرنا کتنا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا اس بارے تو اسے بہت ہی پتہ ہے

ڈاکٹر شیریں مزاری کی یورپین یونین کے وفد سے گفتگو کا دلچسپ حصہ وہ تھا جس میں انھوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں اور وہ برابر کے شہری کے طور پر پاکستان کی ریاست میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔

ایسی بات نہیں کہ محترمہ کو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں سے ہونے والے غیر انسانی سلوک بارے پتہ نہیں ہے وہ سب کچھ جانتی ہیں اور باخبر سیاست دان ہیں۔ دراصل جھوٹ ہمارے سیاست دانوں کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ منافقت اور جھوٹ کو اپنا روزمرہ کا معمول بنائے ہوئے ہیں۔اقلیتوں سے بدترین سلوک کے حوالے سےہماری مین سٹریم سیاسی جماعتیں کم و بیش ایک پی پیچ پر ہیں۔ وہ مسلسل انکار کی راہ پر گامزن ہیں ۔

by Liaqat Ali

2 Comments