حبیب شیخ
میں کراچی کی ایک مصروف شاہراہ کے کنارے کھڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بس آ کر رکی۔ اس چھوٹی سی بس میں ہر طرف مسافر تھے۔ جو لوگ کھڑے تھے وہ ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ سیڑھیوں پر لٹک رہے تھے ۔ بس کی چھت پر بھی کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ بس کو پولیس اہلکاروں نے روکا ہوا تھا کیونکہ ایک وزیر نے وہاں سے گزرنا تھا ۔
میں نے چھت پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو غور سے دیکھنا شروع کر دیا ۔ میری نظر ایک جوان شخص کے چہرے پر اٹک گئی ، مٹی اور دھوئیں سے اٹا ہوا چہرہ قبل از وقت جھریوں سے بھرا ہوا تھا ۔ کپڑوں کا رنگ ماحول کی آلودگی سے سلیٹی ہو چکا تھا ۔ شاید کئی دنوں سے اس نے کپڑے نہیں بدلے تھے۔ اس کی وجہ پانی کی غیر دستیابی یا غربت ہو سکتی تھی ۔ میں اس شخص کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہا ۔ وہ ارد گرد کے ماحول سے بے خبر غم روزگار کے بوجھ تلے خلا میں گھور رہا تھا ۔
اس کو شاید پتا نہیں کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں جس میں ہمارے ہمسائے چین اور ایران بھی شامل ہیں مسافر بس کی چھت پر بیٹھ کر یا سیڑھیوں پہ لٹک کر سفر نہیں کرتے۔
اب ہر کوئی حاکم طبقے کو اس جوان کے اس طرح بیٹھنے کو ذمہ دار قرار دے سکتا ہے ۔ لیکن جب میں نے زیادہ غور وفکر کیا تو مجھے یہی سمجھ میں آیا کہ یہ اپنی مصیبتوں کا خود ذمہ دار ہے ۔ اس نے اپنی مالی حالات بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ خود قصور وار ہے۔
اول یہ کسی امیر گھرانے میں پیدا کیوں نہیں ہوا ؟ اگر وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوا یا حالات نے اسے غربت میں دھکیل دیا تو اس نے یہ سب کچھ کیوں نہیں کیا جو معاشرے کے زیادہ تر با عزت لوگ کرتے ہیں
کسی بھتہ خور گروہ میں شامل کیوں نہیں ہو جاتا!۔
چور یا ڈاکو کیوں نہیں بن جاتا !۔
کسی سرکاری ادارے میں شامل ہو کر رشوت کیوں نہیں لیتا!۔
دوبئی ، کویت ، سعودی عرب کے ویزے کیوں نہیں بیچتا !۔
مسجد یا مدرسے کے نام پر چندہ کیوں نہیں جمع کرتا !۔
نلکے سے پانی بھر کر اسپرنگ واٹر کی بوتل کیوں نہیں بیچتا!۔
برادہ ملا کر مرچ کیوں نہیں بیچتا !۔
بجلی کی تار پر کنڈا لگانے کا کام کیوں نہیں کرتا !۔
مین لائن سے پانی کھینچ کر کیوں نہیں بیچتا !۔
لوگوں کے پانی اور بجلی کے بلوں کا مک مکا کیوں نہیں کرواتا!۔
یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کے لئے کئی صفحات درکار ہیں۔
ابھی میں یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ بس چل پڑی اور میرے دل سے اس کے لئے یہ دعا نکلی ۔
خدا اس” بیوقوف” کو کچھ عقل دے تا کہ وہ کوئی “ڈھنگ “کا کام کرے!
♦
5 Comments