ہائی اسکول کے زمانے میں میرے ایک مربی ہیڈماسٹر ہوا کرتے تھے ۔ ہیڈماسٹر صاحب نے اسکول میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا اس اسکول کی بنجر زمین کو وسیع رقبے پر بنجر زمین جو کہ سرکنڈوں کا جنگل ہوا کرتا تھا کو سرسبز بنادیں گے۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوگی۔ کھیت ہی کھیت۔ گل و گلزار۔ سبزیاں اورپھل اگائیں گے۔ نیز یہ کہ انہوں نے بنجر زمین کا علاج ڈھونٖڈھ نکالا ہے۔ وہ یہاں ایک بڑے ہارس پاور کی موٹر والا “ٹوول” (ٹیوب ویل) لگوائیں گے۔ اس عالیشان منصوبے کو حقیقت میں بدلنے کو بس ایک خطیر رقم کی ضرورت ہے۔ بچو! اپنے بڑوں اور گھر والوں سے جاکر کہو کہ بڑھ چڑھ کر سرسبز اسکول منصوبے میں چندہ دیں۔ بچے اپنا جیب خرچہ جمع کروائیں۔
مجھے بھی ہیڈ ماسٹر ذاتی طورجانتے تھے “تقریر مقابلوں میں حصہ لینے اور دوسرا تحریکی بچہ ہونے کی وجہ سے۔ سو مجھے بھی حکم ہوا کہ “اپنے والد سے کہنا کہ وہ کبھی اسکول “رنج قدم” فرمائیں۔” میں یہ حکم سنکر بڑا پریشان ہوا۔ کہ کئی دنوں تک مجھے “قدم رنج” کا مطلب سمجھ میں نہیں ایا تھا۔ مبادا قدم رنج کا مطلب اسوقت میں یہ سمجھا تھا کہ میرے بابا یا ہیڈ ماسٹر صاحب کو مجھ سے کوئی ناراضگی ہے۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ میرے والد سے وہ میری شکایت سرعام انہیں اسکول انکو بلاکر کریں۔ یہ چندہ تو بس ایک بہانہ ہے مجھے خوار کروانے کا۔
پڑھائی میں پیچھے نہیں تھا لیکن تحریکی تھا اور آئے دن اس پر ایک گوشمالی سے بھی گذرتا رہتا تھا۔ اسکولی بچوں اور انکے والدین نے اس ٹیوب ویل منصوبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن میں اور میرے ابا نے نہیں۔ اسی لیے تو “قدم رنج” کا مطلب میں سمجھا نہیں نہ ہی میرے ابا کو کبھی ہیڈماسٹر کا یہ پیغام پہنچایابہرحال اس ٹیوب ویل منصوبے اور اسکے سبز باغ کے واسطے ہر بچے اور والدین امیر چاہے غریب (زیادہ تر غریب ہی تھے) نے ہزاروں روپے فنڈ میں جمع کروائے۔ لیکن ٹیوب ویل نہ لگنا تھا نہ لگا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب بھی تبدیل ہو گئے۔ ان جمع کیے گئے ہزاروں روپوں کا کیا ہوا جو آج کے لاکھوں ہونگے۔ سرکنڈوں کا جنگل اور وسیع بنجر غیر آباد رقبہ وہیں کا وہیں رہا۔
اب آج اور جب بھی پاکستان کے یکے بعد دیگرے حکمران اور اہل طاقت و ریاست اس طرح کے کالاباغ ڈیم بنانے کے اعلان کرتے ہیں مجھے میرے ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا “ٹو ویل منصوبہ” یاد آتا ہے۔ جو کبھی پورا نہیں۔ کالا باغ ڈیم بس سبز باغ کا دکھلانا رہا۔
اب کے بار بڑے ڈیم کا منصوبہ عزائم چندے کی اپیل کے ساتھ آیا۔ رہی قدم رنج والی بات تو یہ ڈیم کی چوکیداری کرنے والے بابے یا چودھری اس ڈیم کی بات سوچنے سے بھی پہلے کاش دریائے سندھ کی ڈیلٹا والے علاقے ٹھٹھہ ضلع میں ان ملاحوں مچھیروں چھوٹے چاہے بڑےآبادگاروں کے گاوں اور وہ رقبے اور پورا علاقے میں “قدم رنجہ” تو فرما آتے جہاں انکی لاکھوں ایکڑ زمین اور ڈیلٹا کو سمندر پا گیا۔ لوگ اپنے بچے اور سانپ بیچنے کو مجبور ہیں جنکی سو سو ایکڑ زمینیں تھی کشتیاں اور بتیلے تھے۔ سب سمندر پا گیا۔
یہ ڈیموں کے بابے، انگریز استعماری گماشتے الیگزینڈر برنس اور اسکے بھائی جیمس برنس جتنا ہی سفر کرتے جس نے دریائے سندھ کا سروے اور جاسوسی کا سفر کیا تھا۔ سندھ کے امیروں کے دربار میں اس معالج کے روپ میں آنیوالے جیمس برنس نے جب کتاب لکھی اسکی یہ کتاب لندن میں انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں چھپی تو اس پر نام ہی انڈس برنس پڑ گیا تھا۔ لیکن انہی ہی کو دیکھ کر ٹھٹھہ کے کسی فقیر نے کہا تھا دریائے سندہ کو گوروں نے دیکھ لیا ہے اب خدا خیر کرے۔
برسہا برسوں بعد پھر اس ایماندار غیر جانبدار صحافی اور لکھاری نوجوان برطانوی خاتون ایلس البینیا نے ٹھٹھہ کے ڈیلٹا سمیت وہاں سے سفر کیا جہاں دریائے سندہ کھاروچھان کے پاس سمندر میں گرتا ہے سے لیکر تبت لداخ تک سفر کیا اور پنے اس پر خطرات مہماتی سفر پر ایک لاجواب کتاب “دریائے سندہ کی سلطنتیں: ایک دریا کی کہانی” لکھی ہے”۔
دریا کی اسی کہانی کو ایلس البینیا نے گویا ڈیلٹا کے مچھیروں، شیدیوں و دیگر سندھی عوام کے آنسووں کو تحریر کیا ہے۔ کاش اہل حشم ان مردود حرم کے دکھ اس خاتون کی آنکھوں سے پڑہ لیتے۔ اگر ایلس البینیا پر اعتبار نہیں تو پھر شہریات کی تباہی و تعمیر کے محقق عارف حسن کی سندھو ڈیلٹا کی تباہی پر تحقیق پڑہ کر اعتبار کرلیتے۔ چلو ہمارے عابدی صاحب کی” شیردریا” دیکھ لیتے۔
تو پس عزیزو سندھو ڈیلٹا اور اسکے مینگروو یا تمر کے جنگلات کی تباہی اس لیے ہوئی کہ کوٹری بیراج سے نیچے جو ہر سال پانی چھوڑا جانا تھا وہ پانی سندھ کو اپنے حصے کا نہیں دیا گیا۔ پوچھڑی کے سرے یا زیریں دریا رہنے والوں یعنی لوئر ریپیریئن آبادیوں کے حقوق ہوتے ہیں اور وہ عالمی قوانین میں بھی مانے ہوئے ہیں۔ لیکن جب لب دریا یا شیر دریا کے منہ میں بڑے ڈیم بن جائیں گے تو سندھ اور اس کا ڈیلٹا ویران ہوگا۔
اگر فرض کرو نہیں بھی ہوتا لیکن جو عدم اعتماد یا ٹرسٹ ڈییفیشنسی سندھ اور پختونخواہ کے لوگوں کو ہیں ماضی کے تجربات اور چڑھائیوں کی بنیاد پر کبھی انکو مطمئن یا ایڈریس کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے؟کہ حل یہ نکالا گیا کہ ان پر غداری کے مقدمے قائم کیے جائیں گے۔ یہ تو وہی ایوب خان والی بات ہوئی کہ آگے سمندر ہے۔ اب ڈھائی کروڑ سندھیوں کو ڈیلٹا سمندر برد اور ان پر غداری کے مقدمے۔
سب سے اچھا جواب کالاباغ ڈیم پروجیکٹ پر سینئر انجینئر اور منگلا تربیلا سمیت تینتالیس سال آبپاشی انجنئیرنگ کو دینے والے میرے بزرگ دوست سید علی نقوی اپنی کتاب انڈس واٹرز اینڈ سوشل چینج میں دیتے ہیں کہ “ وہ زمانہ گیا جب حکومتیں کالاباغ ڈیم جیسے منصوبوں کے فیصلے افراد کی سطح پر کیا کرتی تھیں۔ پاکستانی سماج کی ڈیموکریٹائزیشن کے نتیجے میں یہ فیصلے اب عوام کی صوابدید بن گئے ہیں۔ وہ بھی تب جب تمام صوبوں کے عوام کو کم از کم ان منصوبوں کے فوائد و مضمرات کےبارے میں تیکنکی معلومات مساویانہ طور ایک جیسی حاصل ہو۔” یعنی کہ تم نو من تیل بھی لے آو پر رادھا بالکل نہیں ناچے گی اور رادھا کو ہنٹروں سے نچانے کا زمانہ چلا گیا حضور والا۔
دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو دیکھ کر قتیل شفائی کا شعر یاد آتا ہے :۔
میں ریت کے دریا پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
شہر میں پانی تو یزیدوں نے پیا ہے۔
میں اہل حشم کو بتاتا چلوں کہ سندھو پر بڑے بند باندھنے پر سندھیوں کے جذبات وہی ہیں جو بھٹو کی پھانسی سے پہلے کے دنوں میں تھے۔ جاکر خود دیکھو اور محسوس کرو۔ مانا کہ زورآر وہ سانحہ کر گذرے لیکن پھر جو ہوا سو ہوا! ۔
♥