امتیاز عالم
امن کی فاختہ برصغیر کی جنگی فضاؤں میں کب اُڑان بھر سکی ہے، جو اَب اُڑ سکتی۔ بات چیت شروع کرنے کا محبت بھرا مراسلہ کیا بھیجا کہ ہاں نہ صرف یہ کہ ناں میں بدل گئی بلکہ بات اب سبق سکھانے کے جواب میں ٹھیٹھ ایٹمی ہتھیار لہرانے تک پہنچ گئی۔ یوں لگتا ہے کہ مودی حکومت بات چیت کے بارے میں کسی گہرے اندرونی مخمصے کا شکار تھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے عقاب اس پر بہت مشتعل تھے۔ پھر میڈیا نے فوجیوں کی مسخ شدہ لاشوں پہ ایسی خوفناک نوحہ گری کی کہ معاملہ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ہاتھوں سے نکل گیا اور مذاکرات کو منسوخ کرنے کے لیے کسی نے ایک بہت ہی برا ڈرافٹ وزارت خارجہ کے بابوؤں کے حوالے کر دیا، جس میں پاکستان کے وزیراعظم کے بارے میں تضحیک آمیز فقرے بھی شامل تھے۔
ہماری وزارتِ خارجہ نے ایک مناسب جواب دے بھی دیا اور بات یہیں ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن پھر وزیراعظم عمران خان کا چھوٹا آدمی بڑا کام کا ٹویٹ آیا اور اس کے فوراً بعد بھارتی آرمی چیف پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیوں کے ساتھ میدان میں کود پڑے۔ مجھے وزرائے خارجہ کی ملاقات کی منسوخی اور بھارتی فوج کے سربراہ کی دھمکی کے مابین ایک تعلق دکھائی پڑتا ہے۔
عین اسی وقت ایک عرصے سے فرانسیسی طیاروں کی خریداری سے متعلق ایک بڑے سکینڈل نے ڈرامائی صورت لے لی۔ فرانس کے سابق صدر اولاندے نے تصدیق کی کہ خود وزیراعظم مودی نے ریلائنس گروپ کے انیل انبانی کی کمپنی کو فرانسیسی کمپنی کے شراکت دار بننے کی تجویز دی تھی۔ اس معاملے پہ اپوزیشن اور خاص طور پر راہول گاندھی ایک عرصے سے وزیراعظم مودی کے خلاف سخت الزامات لگا رہے تھے۔ فرانسیسی صدر کی شہادت آنے پر بھارت میں ایک سیاسی کہرام مچ گیا۔ اور ایسے وقت میں جب کہ بھارت کی تین ریاستوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اندرونی سیاسی دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی حکومت پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے جتن کر رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان میں کوئی باولا ہی ہوگا جو مودی کی اشتعال انگیزی میں اس کا ہاتھ بٹانے کا جتن کرے گا۔
وزیراعظم مودی کے نام وزیراعظم عمران خان کے 14 ستمبر کے خط کے جواب میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین نیویارک میں 26 ستمبر کو ملاقات طے پائی تھی۔ لیکن، جانے کونسا گولا چلا کہ 20 ستمبر کو ملاقات پہ اتفاق کرنے کے بعد 24 گھنٹوں میں یعنی 21 ستمبر کو بھارتی وزارتِ خارجہ نے نہایت بھونڈے انداز میں وزرائے خارجہ کی ملاقات کو منسوخ کر دیا۔ منسوخی کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ 18 ستمبر کو بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے ایک جوان نریندر کمار کی ہلاکت اور اس کی لاش کی مبینہ بے حرمتی پہ بھارتی میڈیا نے خوب طوفان مچا رکھا تھا کہ جونہی بھارتی دفتر خارجہ نے 20 ستمبر کو ملاقات کی تصدیق کی ہی تھی تو بس پھر کیا تھا مودی حکومت کی ایسی درگت بنائی گئی کہ حکومت کو کان پکڑنے پڑے اور وہ ملاقات کے فیصلے سے مُکر گئی۔
بیس 20 ستمبر کو ملاقات کے فیصلے سے دو روز قبل بھارتی سپاہی کی ہلاکت اور لاش کی بے حرمتی کا واقعہ ہو چکا تھا اور اس کے باوجود ملاقات کا فیصلہ کیا گیا۔ رہی بات یادگاری ڈاک ٹکٹوں کی جس میں برہان وانی اور کشمیر میں جاری بربریت کی یادگاری ٹکٹیں شامل ہیں، وہ انتخابات سے ایک روز پہلے 24 جولائی کو جاری کی گئی تھیں، لیکن اس کی خبر اب جاری کی گئی اور اب کیوں جاری کی گئی، خبر نہیں کیوں؟
گذشتہ دس برس سے لائن آف کنٹرول پہ فائربندی کے معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی میں ہزارہا خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ اور ہر دو اطراف کی سویلین آبادی اس کا نشانہ ہے اور ان سرحدی جھگڑوں میں دونوں اطراف کے جوان بھی ہلاک ہوتے ہیں اور معاملہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ کشمیر کے لوگوں کے لیے وادئ کشمیر اگر جہنم بن چکی ہے تو پورا برصغیر بھی اس کے شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔ اور اس کشیدگی پہ دلّی کی راجدھانی میں بیٹھے میڈیا اور نام نہاد سلامتی کے ماہرین خوب ہنگامہ کھڑا کیے رکھتے ہیں۔ اب خیال آتا ہے کہ 15 برس تک ہم امن دوست صحافیوں نے سافما کے پلیٹ فارم سے میڈیا کو امن دوست بنانے کی جو کوشش کی تھی وہ کس بُری طرح سے رائیگاں گئی۔
وزیراعظم عمران خان کے انتخاب پر جو تہنیتی پیغامات موصول ہوئے اور اپنے پہلے خطاب میں نو منتخب وزیراعظم نے پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جس عزم کا اظہار کیا، اس سے کچھ کچھ اُمید بندھی تھی کہ شاید نامہ و پیام چل نکلے۔ لیکن دل میں کھٹکا تھا کہ اتنی خراب فضا میں، بات چیت کے لیے سازگار ماحول بنائے بنا کیسے بات چلے گی۔ بدقسمتی سے یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور بات شروع ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ گئی۔
اور یہ کوئی نئی بات نہیں، پاکستان اور بھارت میں بات چیت اَن گنت بار ہوئی اور بے شمار دفعہ ٹوٹتی رہی ہے۔ یہ بات بھی درجنوں بار ہوئی کہ بات کیسے کی جائے اور اس کا روڈ میپ کیا ہو۔ پھر بھی بات نہ چلی۔ اُس پر طُرہ یہ ہے کہ جو کبھی کچھ طے بھی کیا گیا وہ بھی سفارتی یا حربی خجالت کی نذر ہو گیا۔ (سوائے سندھ طاس کے معاہدے، ہاٹ لائن یا پھر خاص فوجی تنصیبات کی فہرستوں کا سالانہ تبادلہ وغیرہ)۔
اگر کبھی کوئی بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھا بھی تو وہ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اور وہ بھی اسلام آباد میں سارک سمٹ کے موقع پر جب وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور جنرل مشرف میں اس بات پر بات بنی کہ لائن آف کنٹرول سے دراندازی اور دہشت گردی بند ہوگی۔ پھر یہ بات چلی اور کانگرس کے وزیراعظم من موہن سنگھ کشمیر کے مسئلے پر جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے پہ تقریباً متفق ہو چکے تھے۔ من موہن سنگھ کا دورہ بھارت کے ریاستی انتخابات کے باعث التوا کا شکار ہوا اور پھر جنرل مشرف کے خلاف چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ’’عدلیہ کی بحالی‘‘ کی جنگ ایسی شروع ہوئی کہ جنرل مشرف اس بریک تھرو پہ آگے تو کیا بڑھتے اُنہیں اپنے اقتدار کے لالے پڑ گئے۔
اب کشمیر کی فضا پہلے سے کہیں زیادہ مُکدر اور تشویشناک ہو چلی ہے۔ بھارتی لاٹھی گولی کی سرکار ہو یا بھارت نواز جماعتیں یا پھر حریت کانفرنس والے ہوں یا مجاہدین، سب کے ہاتھوں سے وادئ کشمیر نکل چکی ہے اور جانے کب تک دو ملکوں کے علاقائی جھگڑے میں منقسم کشمیر کے عوام یونہی خون میں نہاتے رہیں گے اور آزادی کے نعروں کو کب اور کیسے تسکین ملے گی۔ اب ایک نئی لہر آئی ہے جو مقامی پنچائیتوں یا لوکل باڈیز کے انتخابات رکوانے پہ مرکوز ہے۔ دو روز قبل سپیشل پولیس فورس کے تین جوانوں کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا جس سے دلّی کی راجدھانی والے اور میڈیا بہت سیخ پا ہوئے۔ اب تو کشمیر پہ جھگڑا بلوچستان اور افغانستان اور جانے کہاں کہاں پہنچ گیا ہے۔
اب اگر آئندہ بات جب بھی شروع ہوئی تو وہ شاید وہیں سے شروع ہو جہاں جنرل مشرف اور وزیر اعظم واجپائی کے مابین شروع ہو کر مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان پہنچی تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ اسلام آباد میں جنرل مشرف کی واجپائی کو دہشت گردی کے معاملے پر یقین دہانی کرائے جانے کے بعد ہی بات چیت کا سلسلہ چلا تھا اور معاملہ ابھی بھی وہیں اٹکا ہوا ہے۔ اگر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے مابین ملاقات ہوتی بھی تو اس میں بات چیت دہشت گردی کے مسئلے سے شروع ہو کر ’’دہشت گردی پہلے ختم کرو پھر مذاکرات ہوں گے‘‘ پہ ختم ہو جاتی۔
بھارت سے بات چیت آصف علی زرداری بھی کرنا چاہتے تھے اور نواز شریف اُن سے بھی زیادہ آگے قدم بڑھانے پہ تیار تھے۔ اُن دونوں کی دوستی کی بیل چڑھنے والی نہیں تھی اور بھارت بھی جانتا ہے اور ہم بھی جانتے ہیں کہ کیوں؟ اب تو بھارت کو بھی علم ہے اور دُنیا کو بھی کہ خاکی و مفتی ایک جان دو قالب ہو چکے ہیں اور بات چیت ایک شوشہ نہیں پاکستانی مقتدرہ کا بڑا سوچا سمجھا فیصلہ ہے جس کے کہ وزیراعظم عمران خان خود بڑے داعی ہیں۔ اب بات چیت کی پہل کسی ’’مودی کے یار‘‘ نے نہیں کی اور نہ ہی اس کارِخیر میں بدنام فاختاؤں کی دُعائیں شامل ہیں کہ وہ کب کی تائب ہو چکیں یا دبک کر بیٹھ رہیں۔
بات چیت کا ڈول اب کی بار پاک فوج کے سپہ سالار جنرل باجوہ نے ڈالا ہے اور اُن سے بڑا سچا قوم پرست کون ہو سکتا ہے۔ لیکن بھارتی میڈیا کی اس ریاکاری کا کچھ مطلب نہیں کہ عمران خان فوج کے پٹھو ہیں، جبکہ پہلے یہ شور مچایا جاتا تھا کہ کس سے بات کی جائے کہ وزیراعظم کو اختیار نہیں۔ اب اگر اختیار ہے تو اس پہ بھی تکلیف کا کوئی کیا علاج کر سکتا ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے، خطہ بدل گیا ہے اور کشمیر بھی بدل گیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ دلّی والے اور اسلام آباد والے کتنے بدلنے کو تیار ہیں؟ بات چیت کے شروع ہونے سے پہلے ہی تنسیخ پر بھارتی اور پاکستانی میڈیا کی جو بھی توجیہات ہوں، میرے خیال میں یہ بھارت الیکشن سے پہلے بھی ہو سکتی ہے۔ جو سلسلہ وزیراعظم نواز شریف کے سلامتی کے مشیر جنرل جنجوعہ اور واجپائی کے سلامتی کے مشیر ڈوول میں شروع ہوا تھا، اُس طرح کا کوئی بیک چینل دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔
کھلی بات چیت کے لیے ماحول سازگار نہیں اور بیک چینل شروع کرنے کے لیے بھی اعتماد سازی کے اقدامات کرنے ہوں گے، بھارت کو بھی اور پاکستان کو بھی۔ کیوں نہ اس کا آغاز لائن آف کنٹرول پہ فائربندی اور ہر طرح کی مداخلت یا شرانگیزی کو یکسر بند کر دیا جائے اور عوامی رابطوں پہ لگی ویزے کی بندشیں نرم کر دی جائیں۔ اور کیوں نہ اس بار حکومتی نمائندوں کے ساتھ ساتھ سلامتی کے اداروں کے نمائندے بھی درپردہ بات چیت کا حصہ بن جائیں۔ وگرنہ بی فاختہ یونہی دُکھ جھیلتی رہیں گی اور کوے انڈے کھاتے رہیں گے۔ اور بیچاری امن کی فاختہ کے نصیب میں امن کہاں؟
♦