مغربی بنگال سے گاندھی پر سومو باسو کا اداریہ
مہاتما گاندھی نے کہا تھا ،’’میں جتنا پاکستان کے حق میں ہوں اتنا ہی ہندوستان کے حق میں ہوں‘‘۔مگر اس کے برعکس کانگریس کے دیگر راہ نماؤں سے اُن کا فاصلہ بہت بڑھ چکا تھا۔ان کا نام نہاد ’’ یس مین‘‘ بہت پہلے سے ان کا نو مین بن چکاتھا، 11 جون کا دن گزر گیا۔شکستہ دل مہاتما نے جون 14,15 کو آل انڈیا کانگریس سے کہہ دیا کہ وہ تقسیم کا غیر مجازی اور نامناسب فیصلہ کر لیں۔تاہم، اتنی بڑی سیاسی تنظیم کے سامنے انہوں نے اپنے اخلاقی جواز کا مظاہرہ نہ کیا۔چند دن قبل 6 جون کو انہوں نے مستقبل کے بھارت اور پاکستان کو ہر شعبے میں مکمل تعاون کی درخواست کی تھی۔اگر پاکستان بہتر چلتا ہے تو انڈیا بھی پاکستان بننا چاہے گا،کوئی اکثریت یا اقلیت نہیں ہوگی،سب برابر ہوں گے۔
12 جون۔ملک کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے کی جغرافیائی تقسیم کے متعلق انہوں نے کیا سوچا تھا؟وہ جانتے تھے کہ اگر تقسیم ہوتی ہے تو اتفاق ختم ہو جائے گا۔اس کے باوجود انہوں نے آزادی کی تمنا کی اور امید رکھی کہ مشکل حالات کے باوجود بھارت خود کو اخلاقی اقدار،برداشت ،جات پات اور مذہب سے ماورا برابری، کی بنا پرمسلمانوں کا پاکستان ثابت کر پائے گا۔اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر شہری خود اپنی تقدیر کا خالق ہو گا۔اسلام کے مقدس مقامات اور درس گاہوں کو کتنا احترام حاصل ہو گا اس کا انحصار بھارت کی حقیقی وحدت پر ہوگا۔
آج ہم جانتے ہیں کہ15 اگست کو وہ کلکتہ میں تھے۔مگر در اصل، وہ تو نواکھلی میں رہنا چاہتے تھے۔اگست کے آغاز میں چند دن قبل وہ کشمیر اور پنجاب سے پلٹے تھے۔کشمیر یوں کا مستقبل کشمیریوں کی رضامندی سے طے ہوگا۔6 اگست کو لاہور میں کانگریس ورکرز کے اجلاس میں فرمایا تھا کہ وہ باقی ماندہ زندگی مغربی پنجاب ، مشرقی بنگال یا صوبہ سرحد میں گزاریں گے۔اگرچہ وہ بنگال پہنچ گئے تھے لیکن نواکھلی جانے کا ارداہ ترک کرنا پڑا تاکہ وہ کلکتے جیسے بڑے شہر کی فضا کو پرامن رکھ سکیں۔
تیرہ13 اگست کو انہوں نے بلگتا میں ایک مسلمان گھر میں بنگال کے چیف منسٹر حسین شہید سہروردی کے ساتھ قیام کیا۔ بہت سے لوگ مسلم لیگ کے لیڈر کے ساتھ قربی تعلقات پر ناخوش تھے۔علاقے میں بہت کشیدگی تھی۔انہوں نے یقین دلایا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک سے سب جانتے ہیں۔آزادی کا جشن دہلی میں جاری تھا مگر دلوں کوجوڑنے والا وہاں سے بہت دور بیٹھا تھا ۔اجنبی غریب لوگوں کے ساتھ اس کے بھوک اور پرارتھنا کے دن بیت چکے تھے۔وزارت اطلاعات ہند کے دفتر سے اطلاع دی جاتی ہے کہ وہ مایوس ہو چکا ہے۔
آٹھارہ18 اگست کو ملک میں ہولناک قتل وغارت کی لپیٹ میں ہے۔کلکتے کے اس حصے میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو عید مبارک کہہ رہے تھے۔21 اگست کو وہ اپنی پوجا کے استھان پر ہندوستانی اور پاکستانی پرچم دیکھ کے خوش تھے۔سول نافرمانی کی تحریک کے دوران مولانا شوکت علی کے ہمرکاب ان کے تین نعرے تھے: اﷲ اکبر، بندے ماترم اور ہندومسلم کی جے۔ایک بار پھر وہ ہم آواز ہوئے تھے۔29 اگست کو غدر کے شہیدوں کی یاد میں بندے ماترم گایا جاتا ہے۔اس مجمع کے سامنے سٹیج پرسہروردی اور دوسرے مسلمان لیڈر موجود تھے۔ انہیں یہ سمجھ نہ آئی کہ انڈین ثقافت میں مغربی کلچر کی طرح کھڑے ہو کر خراج تحسین پیش کرنا موزوں نہ تھا۔
اگست کے آخر میں کلکتہ میں پھر فسادات پھوٹ پڑے۔اور مہاتما نے پھر بھوک ہڑتال کر دی۔کلکتہ سے فسادات کی رو خاموشی سے پنجاب کی طرف بڑھ گئی اور راستے میں دلّی بھی لپیٹ میں آ گئی۔دلّی کی حالت زار دیکھ کر انہیں لگا کہ یہ مُردوں اور ہزاروں بے گھر لوگوں ،اور بدلے کی آگ میں جلنے والوں کا شہر ہے ۔مہاتما نے کہا کہ اگر بھارت ناکام ہوتا ہے تو ایشیا بھی مر جائے گا۔
تھوڑے ہی دنوں میں بھارت اور پاکستان کشمیر میں لڑ پڑے۔گاندھی جی نے پیغام بھیجا کہ کشمیریوں پر زبردستی نہ کی جائے،وہ اپنا فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔یہ افواہ بھی سنی گئی کہ بھارت کی طرح کشمیر بھی مذہب کی بنیاد پر دو حصوں میں بٹ جائے گا۔تب انہوں نے سوچا تو پھر یہ ملک کتنا رہ جائے گا؟ اس آفت میں پہلی دفعہ آزاد ہند میں آل انڈیا کانگریس کا اجلاس 15 سے17 نومبر طلب کیا گیا۔بھارتی یونین میں ہر مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا تھا۔تب کانگریس نے مسلمانوں کو سرد مہری سے قبول کیا۔انہوں نے سوچا کہ مسلمانوں کی بجائے کانگریس کی مدد کرنا بہتر ہے۔اور وہ خود بھی یہی کر رہے تھے۔
بارہ12 جنوری کو گاندھی جی نے پھر مرن بھرت رکھ لیا تا کہ ہر دھرم کے لوگوں کے دل میں ہم آہنگی اور اتفاق پیدا ہو۔بھارت کی کچلی ہوئی عزت اور وقار ایشیا میں پھر سے بحال ہو۔مرن بھرت کے دوران ان کے پہلو میں قرآن کی تلاوت،گرو گرنتھ سے شبد کیرتن اور ہندو بھجن گائے جا رہے تھے۔ یہ کوئی معمولی بھوک ہڑتال نہیں تھی۔یہ بڑی تباہی سے بچنے کے لئے ایک بڑی پوجا تھی۔کوئی انسان بھارت میں خود کو اکثریت نہ سمجھے اور اقلیت کو اقلیت نہ سمجھے ۔یہ مرن بھرت بھارت کے ہندؤں ،سکھوں اور پاکستان کے مسلمانوں کو ایک وارننگ تھی اور بھارتی مسلمانوں کے لئے ایک دعا تھی۔
پاکستان کی نئی مملکت کو اس کا حصہ دیا جائے۔
ترجمہ: خالد محمود