نوبل انعام برائے امن2018 کاحقدار ایسے دوافرادکو قراردیا گیا ہے جو بساط عالم پہ سیاسی چالیں چلنے والے مشکوک کردار کے حامل نام نہاد عالمی لیڈرنہیں بلکہ دنیا کے دو مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے ایسے دوافراد ہیں جنہوں نے ریپ کو بطورجنگی ہتھیاراستعمال کرنے کے خلاف آوازاٹھائی ۔
ان میں سے ایک توعراق سے تعلق رکھنے والی خاتون نادیہ مراد ہیں جو خود اس بھیانک ہتھیارکا شکار بنیں۔ان کا تعلق عراق کے قدیم یزیدی قبیلے سے ہے۔مبینہ طورپرآپ کوداعش نے اغواکرکے جنگی ہی نہیں جنسی غلام بھی بنالیاتھا ۔نام نہاد خلافت اسلامیہ کے سائے تلے آپ کوکئی باربیچا اور خریداگیا۔
بازیابی کے بعد آپ نے اپنی باقی ماندہ زندگی کسی گوشہ تاریکی یا گمنامی میں گزارنے کی بجائے ریپ کو بطورجنگی ہتھیاراستعمال کرنے والوں کو ساری دنیامیں ننگاکرنے کی ٹھانی اور آپ بیتی کو ایک کتاب کی شکل دینے کے علاوہ ہر پلیٹ فارم پہ اس قبیح فعل کے خلاف آگاہی پھیلاناشروع کی۔آپ نے ریپ کا شکار ہونے والی بچیوں اور خواتین کی نمائندہ بن کر ان کے زخموں اور ان سے وابستہ خاموش دکھ، کرب، شرم، درد اور خاموشی کو آوازفراہم کی اور انہیں زندہ رہنے کی ہمت دلائی ہے۔
نوبل انعام کی شریک حقداردوسری شخصیت ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو سے تعلق رکھنے والے گائناکالوجسٹ ڈاکٹرڈینس مکویگے ہیں جو طویل عرصہ سے افریقہ میں جاری خانہ جنگیوں کے دوران ریپ کا شکاربننے والے افراد کی پیچیدہ چوٹوں اور زخموں کے آپریشن کرکے ان کی جان بچانے کے لئے مشہور ہیں۔آپ نے جنگوں کے دوران ریپ کا شکار ہونے والی تیس ہزار سے زائدخواتین اور بچیوں کا بروقت علاج کرکے ان کی جانیں بچائی ہیں۔
آپ کا نام عرصہ دس برس سے نوبل انعام کے لئے تجویزہوتاچلا آیا تھا۔بالآخر ان کی بے لوث خدمات کونوبل کمیٹی نے اعزازدینے کافیصلہ کر ہی لیا۔
نادیہ مراداگرریپ کے شکارافراد کے جسموں اورروحوں کے پوشیدہ زخموں کی نشاندہی کررہی ہیں تو ڈاکٹرڈینس ان زخموں کی مرہم پٹی کرتے چلے آرہے ہیں۔
ریپ دنیا بھر میں ایک جنگی ہتھیارکے طورپر استعمال ہوتاچلاآیا ہے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں دنیا کی تقریباً ہر قوم ہی اس مکروہ ہتھیار کے استعمال میں ملوث رہی ہے۔
افسوس کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا پہ پیش ہونے والے علماء دین جنگ میں پکڑی جانے والی لڑکیوں کے ساتھ بغیرنکاح جنسی تعلق قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔’’کھراسچ ‘‘ پروگرام کے میزبان مبشرلقمان کو ایک ’’ علامہ صاحب ‘‘نے اس ضمن میں ان کے ایک سوال کا جوب دیتے ہوئے فرمایاتھاکہ کینٹونمنٹ کا کمانڈراگر لڑکیاں پکڑپکڑکر انہیں مومنین کے حوالے کرتاہے تو ان کے ساتھ نکاح کئے بغیر سیکس کرناجائزہے۔اس پر مبشرلقمان نے وضاحت مانگی کہ اگر ہماراکمانڈر،جنرل باجوہ، جنگ میں ایک لڑکی کوپکڑلیتا ہے اور میرے حوالے کردیتا ہے تو میں اس کے ساتھ بغیرنکاح سیکس کرناشروع کردوں گا؟۔تو انہوں نے کہا کہ ہاں کیونکہ ’’پراپرٹی‘‘ جو ہوتی ہے۔۔۔‘‘۔اس پر مبشر لقمان نے سرپکڑلیا اور موصوف کے ساتھ گفتگوہی ختم کردی۔
دنیا بھر کے فوجی اور غیرفوجی درندہ صفت مردوں کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں جو اپنی غلیظ پلکوں پہ یہ خواب سجائے پھرتے ہیں کہ کب کوئی جنگ ہو اور اس میں بہت ساری لڑکیاں جنگی قیدی بنیں تاکہ وہ انہیں جنسی غلام بناکردادعیش دیناشروع کردیں۔ان کے ساتھ تو نکاح کی بھی ضرورت نہیں،باجوہ صاحب کی خیرہواس کام میں سستی نہ کریں بھارت پہ حملہ کرہی دیں۔
رہے وہ لوگ جنہیں اپنی زندگیوں میں اس خواب کے پوراہونے کی کوئی امید نہیں وہ خود کش حملے کرکے جنت میں پہنچنے اور وہاں پہنچنے کے معاًبعد سترحوروں کے ساتھ مجامعت اور مباشرت شروع کرنے کے پلان بناتے رہتے ہیں۔آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار۔
نوبل انعام برائے امن 2018 کا مستحسن اعلان ہمیں یہ باورکروارہا ہے کہ پاکستان سمیت ساری دنیامیں ریپ اورریپ کی نیت رکھنے والوں کے خلاف ایک بہت بڑے جہادکاآغازکرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔
♦