علی احمد جان
گلگت بلتستان کا قانونی اور آئینی مقدمہ دوسری بار پاکستان کے سپریم کورٹ میں سنا جائیگا۔ پہلی بار 1999 ء میں آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی صورت میں سنا گیا تھا اور اب گلگت بلتستان کے اپیلیٹ کورٹ کے چیف جج کے اس فیصلے کی نظر ثانی کے لئے سننے کےلئے مقرر ہوا ہے جس میں گلگت بلتستان کے لئے صدر پاکستان کے 2018ء کے حکم نامہ کو معطل کردیا گیاہے۔
پہلی بار گلگت بلتستان کا مقدمہ آزاد کشمیر کی ہائی کورٹ میں پیش ہوا تو جسٹس ریٹائرڈ عبدالمجید ملک اس کے چیف جسٹس تھے اور جب اس کے فیصلے کے خلاف آزاد کشمیر کے سپریم کورٹ میں اپیل ہوئی تو ملک صاحب ترقی پاکر اسی عدالت کے بھی جج بن گئےتھے۔ جسٹس عبدالمجید ملک صاحب نے اپنے فیصلے کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ کتابی شکل میں شائع بھی کروادیا ہے ۔
یہ کتاب اس فیصلے سے اتفاق اور اختلاف سے قطع نظر ایک تاریخی دستاویز بھی ہے جس میں اس مقدمہ کے قانونی اور آئینی پہلوؤں سے زیادہ تاریخی اور سیاسی مواد پر اکتفا کیا گیا ہے۔ مجھے ذاتی طور جسٹس ملک صاحب سے ان کی شفقت اور بے تکلفی کا بے جا فائدہ اٹھاکراس تاریخی فیصلے پر ان سےبات چیت کا موقع بھی بارہاملا ہے۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ گلگت بلتستان کے مقدمہ میں دلچسپی رکھنے والوں کو ملک صاحب کے فیصلے کو ضرور پڑھنا چاہیئے۔
جب سپریم کورٹ آف پاکستان میں آزاد کشمیر کے ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا گیا تو عدالت نے جسٹس عبدالمجید ملک کے فیصلے کو مسترد نہیں کیا بلکہ حکومت پاکستان سے کہا گیا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان کے شہریوں کے مساوی حقوق دینے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس دوران پاکستان خود ایک سیاسی بحران کا شکار ہوا اور حکومت پاکستان کی طرف سے تساہل برتنے پر سپریم کورٹ میں حکم عدولی اور توہین عدالت کی رٹ پٹیشن بھی دائر کی گئی ۔1999ء میں پاکستان میں ایک فوجی بغاوت کے بعد وجود میں آنے والی حکومت نے گلگت بلتستان کے لئے ایک لیگل فریم ورک آرڈر1997 ء میں کچھ ترامیم کرتے ہوئے کچھ انتظامی اور عدالتی تبدیلیاں کردیں مگر وکلأ ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ۔
پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی طرز پر ایک صدارتی حکم نامہ مجریہ 2009 ء جاری کیا جس کے تحت بنیادی تبدیلیاں متعارف کروائی گئیں ۔ 2018ء میں مسلم لیگ کی حکومت نے ایک اور حکم نامہ سے2009 ءکے صدراتی فرمان کو منسوخ کردیا ۔ اس نئے فرمان کے نوٹی فیکیشن کے ساتھ ہی عدلیہ ( گلگت بلتستان اپیلیٹ کورٹ) کے چیف جج نے صدارتی حکم نامہ 2018ء کو معطل کر کے گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کیفیت میں ڈال دیا ۔
عدالت کی طرف سے اس صدارتی آرڈر کی معطلی سے ایک طرف قانونی بحران پیدا ہوا تو دوسری طرف ریاست پاکستان کے حکم عدولی کی ایک مثال قائم ہوئی جس کو بعض حلقے نرم (سوفٹ) بغاوت قرار دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے وکلا ء نے پاکستان کے سپریم کورٹ میں یہ سوال اٹھایا کیا کہ کیا صدر پاکستان کے حکم کے تحت وجود میں آنے والی عدلیہ اسی حکم نامہ کو معطل کرسکتی ہے؟
آزاد کشمیر کی حکومت کے ساتھ طے ہونے والے 28 اپریل1949 ء کے معاہدہ کراچی کے تناظر میں گلگت بلتستان کا انتظام و انصرام حکومت پاکستان انتظامی احکامات کے زریعے چلاتی آئی ہے جس پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی چہ می گوئیاں ہوتی رہی ہیں اور انگلیاں اٹھتی رہی ہیں ۔اس مقدمہ کی قانونی اور آئینی موشگافیوں پر بات شنوائی کے دوران ہوتی رہے گی لیکن مجھ سا ایک عام آدمی کو امید یہ بھی ہے کہ اب کی بار اس مسئلےسے وابستہ بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق کے سوالات کا جواب بھی ڈھونڈا جائے گا ۔
گلگت بلتستان کو بھارت اور پاکستان کی تقسیم کے وقت متنازعہ رہ جانے والے جموں و کشمیر کے مسئلے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی بھارت اور پاکستان کے لئے بننے والے کمیشن (یو این سی آئی پی) کی قرار داد کے مطابق کشمیر کے مسئلے کے حتمی حل تک اس خطے کے تین حصے تسلیم کرکے ان میں مقامی حکومتیں (لوکل اتھارٹی) قائم کرنے کا حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ سے اس بات کی امید ہے کہ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر، اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کی طرح اور اس سطح کی مقامی حکومت کا گلگت بلتستان کے حق کو بھی تسلیم کرواکر ایک مقامی حکومت کی تشکیل کو ممکن بنادے گی۔
دو ملکوں کے درمیان کشمیر کے سیاسی تنازعہ کی وجہ سے گلگت بلتستان کے لاکھوں لوگ اپنے سیاسی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ اگر جموں و کشمیر کے لوگ اپنے لئے قانون سازی کرسکتے ہیں اور قوانین میں ترمیم کرسکتے ہیں ، اگر آزاد کشمیر کے لوگ اپنے آئین میں ترامیم کرسکتے ہیں تو گلگت بلتستان کے لوگوں کو صدراتی فرامین اور انتظامی احکامات کا پابند کیوں کیا گیا ہے۔ کیا یہ حق گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی یکسان طور پر حاصل نہیں کہ وہ اپنے لئے قانون سازی کرسکیں اور قوانین میں ترامیم کر سکیں؟
چونکہ گلگت بلتستان انتظامی احکامات کے تحت چلایا جاتا ہے جو کسی آئین اور قانون کا متبادل نہیں ہوتے۔ ان احکامات پر عمل درآمد یہاں کی انتظامی مشنری اور عدلیہ پر ایسے لازم نہیں ہوتی جس طرح آئین اور قانون پر عمل پیرا ہونے کے لئے ہوا کرتی ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ کسی قانون اورآئین کی غیر موجودگی میں انتظامی احکامات کی تشریح بھی من پسند طریقوں سے کی جاتی رہی ہے جس کی سب سے بڑی مثال صدارتی آرڈر 2018ء کی عدالت کی طرف سے معطلی خود ہے۔
قوانین اور ضوبط کی من پسند تشریحات کا نشانہ یہاں کے عوام بنتے آئے ہیں ۔ گلگت بلتستان میں ریاست سے بغاوت اور دہشت گردی سمیت توہین مذہب کے قوانین کے تحت لوگوں کو نشانہ بنا یاجاتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر حالیہ رپورٹ میں بھی گلگت بلتستان میں ان قوانین کے تحت ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر نمایاں ہے۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو پاکستان کے وزیر خارجہ نے یواین کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران سراہاتے ہوئے مزید تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ حکومت پاکستان کے مطالبے کے عین مطابق اقوام متحدہ کی مزید تحقیقات سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ حکومت سے ماضی میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ازالہ کروائے اور ایک غیر جانب دار کمیشن کے ذریعے ایسے تمام مقدمات کا از سر نو جائزہ لے تاکہ مستقبل میں پھر ایسی غلطیاں نہیں دھرائی جا سکیں۔
♦