اگر پانی زندگی کی اساسی ضرورت ہے تو یہ کہنا بجا ہو گا کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پاکستان کے عوام اور انکی نسلوں کے حق حیات سے کھلواڑ کی گئی ہے۔ پاکستانی ریاست نے اپنے وسائل عوام پر لگانے کی بجائے ہتھیاروں کے حصول اور اس کی تیاری پرصرف کر دیئے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاست ایک طرف قرضے کے حصول کے لیے دربدر ہو رہی ہے اور دوسری جانب اس پر دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے۔
دیامیر باشا ڈیم کی تعمیر کے لیے شروع کی گئی چندہ مہم بظاہر ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے نہ سنجیدہ مباحث کی فضا دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی وہ جذباتی ہیجان اور جذبہ ایثار جو 2006ء کے زلزلہ اور 2013ء کے سیلابوں میں دیکھنے میں آیا تھا۔ افواج پاکستان کے سوا، کسی سرکاری ادارے نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
اس دوران، مرکزی سیاسی دھارے کی جماعتیں اور میڈیا اپنی بقا کی جدوجہد میں ہیں۔ سنگین معاشی بحران کے تناظر میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا حکومتی فیصلہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ حکومت عوام کش اقدامات کے سیاسی اثرات پر قابو پانے کی تگ و دو میں رہے گی اور چور سپاہی کے اس غیر دلچسپ کھیل میں قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا۔
امید واثق یہی ہے کہ گزشتہ سات برسوں کی طرح آئندہ سات برس بھی ’چشم ذدن‘ میں گزر جائیں گے۔ پاکستان میں پانی کے بحران کے حوالہ سے 2025ء ایک علامتی سنگ میل ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو اینڈ ی پی)، آئی ایم ایف، پاکستان کی کونسل فار ریسرچ ان واٹر اور ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ) سبھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ 2025ء تک پاکستان میں ’پانی ختم ہو جائے گا‘۔ پاکستانی تحقیقی ادارے نے 1990ء میں تنبیہ کی تھی کہ ’پاکستان پانی کی کمی کے سنگین خطرے سے دوچار ہے‘۔ اس کے بعد 2005ء میں اس ادارے نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان ’پانی کی قلت‘ کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔
یہ صورت حال وقت، مواقع اور وسائل کے مسلسل ضیاع کا نتیجہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں فی کس سالانہ 5200 کیوبک میٹر پانی دست یاب تھا جبکہ آج 2018ء میں یہ شرح 1000 کیوبک میٹر سے کم ہے اور خدشہ ہے کہ 2025ء تک یہ مزید کم ہو کر 500 کیوبک میٹر تک رہ جائے گی۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب ہے خشک سالی اور قحط۔
پانی کی قلت اور متعلقہ مسائل پر کام کرنے والے تحقیقی ادارے حصار فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والے ماہر، توفیق پاشا کے مطابق چند دہائی قبل تک پاکستان میں تیس فٹ گہرائی تک پانی مل جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں پانی کے لیے سات سے آٹھ سو فٹ تک کھدائی کرنی پڑتی ہے۔
اسی ادارے کی سربراہ سیمی کمال کا کہنا ہے کہ پانی کے زیر زمین ذخیرہ کی تشکیل میں قدرت کو بعض اوقات ایک ہزار برس درکار ہوتے ہیں۔ اگر اس پانی کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے بے دریغ نکالا جائے گا تو یقینا چند برسوں میں ختم ہو جائے گا۔ پنجاب میں زیر زمین پانی کی شرح 20 ملین مکعب فٹ تھی لیکن ہم نے اس کی گویا کان کنی کی ہے۔
واپڈا کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تمام بڑے شہر پانی کی شدید قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد کو 176 ملین گیلن سالانہ درکار ہے مگر اسے 84 ملین گیلن میسر ہے، کراچی کو 1100 ملین گیلن درکار ہے اور اسے سالانہ صرف 600 ملین میسر ہے، پشاور کی سالانہ ضرورت 250 ملین گیلن ہے جبکہ اسے صرف 162 ملین گیلن حاصل ہوتا ہے، لاہور کی سالانہ ضرورت 692 ملین گیلن ہے جبکہ اس کے پاس 484 ملین گیلن ہوتا ہے، کوئٹہ کی ضرورت 45 ملین گیلن ہے جبکہ اسے 28 ملین گیلن حاصل ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ شرح آبادی میں اضافہ سے بھی پانی کی ضرورت اور ترسیل کے حوالے سے دباؤ بڑھا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جو موجودہ بحران کا سبب بنیں۔ کسی با ضابطہ منصوبہ بندی کے بغیر شہروں کے پھیلاؤ کی اجازت دی گئی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے چشم پوشی کی گئی۔ صنعتوں میں اضافہ ضروری تھا مگر ماحولیاتی آلودگی اور نکاسی آب کے ضابطے مقرر نہ گئے لہذا ہمارے دریا آلودہ ہو گئے اور زہریلے مواد زیر زمین پانی میں بھی رس گئے۔ سیمنٹ اور چمڑہ فیکٹر یوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ نہروں کی دیکھ بھال نہ کی گئی اور نہری سلسلے میں آبپاشی کے دوران تقریبا 50 فیصد پانی ضائع ہوتا رہا۔ سیم اور تھور کی روک تھام نہ کی جا سکی۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں پانی کے بحران اور اس کے ممکنہ تباہ کن اثرات کے موضوع پر فرانس کے معروف ٹی وی چینل، فرانس 24 پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے، انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ سٹریٹیجک انٹرسٹ کے ماہر برائے جنوبی ایشیا، اولیور گئیر نے بتایا، ’یہ نئی یا ناگہانی صورت حال نہیں۔ میں 25 برس قبل پاکستان میں قیام پذیر تھا اور اس وقت بھی سب کو علم تھا کہ پاکستان اس تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘ انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں انہیں اس حوالے سے کوئی سنجیدگی یا پریشانی دکھائی نہیں دی اور نہ ہی اس قدر بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوئی سیاسی عزم دکھائی دیا۔
پاکستان میں پندرہ میٹر (49 فٹ) سے بلند ڈیموں یا آبی ذخائر کی کل تعداد 153 ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین سے گزرنے والے سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی کا صرف10 فیصد ذخیرہ کر سکتا ہے۔ اسکے برعکس بھارت میں ڈیموں کی تعداد 3200 اور چین میں 8400 ہے۔ پاکستان کے پاس دو بڑے ڈیم ہیں جن کی استعداد 50 فیصد کم ہو چکی ہے۔ پاکستان ایک ماہ کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد کا حامل ہے جبکہ بھارت 220 دن، مصر 1000 دن، امریکہ 900 دن، آسٹریلیا 600 دن اور جنوبی افریقہ 500 دن کے لیے پانی کا ذخیرہ کر سکتے ہیں۔
دریائے جہلم پر منگلہ ڈیم (1965) اور دریائے سندھ پر تربیلہ ڈیم (1968-1976) ورلڈ بینک کی مالی معاونت سے تعمیر کیے گئے، جس نے بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ میں مصالحت کنندہ کا کردار ادا کیا تھا۔ تربیلہ ڈیم اپنے رقبہ اور ڈھانچے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے جبکہ پاکستان کا میرانی ڈیم سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی استعداد کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے اور اسی اعتبار سے سبزئی ڈیم دنیا کا ساتواں بڑا ڈیم ہے۔
ان سات دہائیوں کے درمیان چھوٹے اور درمیانے درجے کے کئی ڈیم تعمیر کیے گئے۔ آزاد کشمیر میں نیلم جہلم ڈیم (2018 )، سندھ میں دراوت ڈیم (2014 )، چوٹیاری ڈیم (2002)، بلوچستان میں ولی تنگی ڈیم (1961)، اکرہ کار ڈیم (1995)، حب ڈیم (1986)، منگی ڈیم (1982)، میرانی ڈیم (2006)، نولونگ ڈیم (2015)، سبکزئی ڈیم (2007) تعمیر کئے گئے۔
اسی طرح خیبر پختونخواہ میں ورسک ڈیم (1960) منگ ڈیم (1970)، خان پور ڈیم (1985)، ڈنڈی دم ڈیم (2011)، درگئی پل ڈیم (2010)، گومل زم ڈیم (2012 )، الائی خوار ڈیم (2016)، دوبر خوار ڈیم (2013)، چنغوذ ڈیم (2007) اور نریاب ڈیم (2006) تعمیر ہوئے۔ پنجاب میں راول ڈیم (1962)، سملی ڈیم (1983)، جاوا ڈیم (1994) اور غازی بروتھا ڈیم (2003) میں تعمیر کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر چھوٹے اور درمیانے درجے کے ذخائر ہیں۔
پانی کے بحران کے حوالے سے حکومتی اور ریاستی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی پہلی واٹر پالیسی کا اعلان اپریل 2018ء میں ہوا۔ 2005ء میں ورلڈ بینک کی تحقیقی رپورٹ کے بعد اس کا پہلا مسودہ تیار ہوا، 2010ء تک اس کی نوک پلک درست ہوتی رہی، 2012ء میں اس پالیسی کا حتمی مسودہ تیار ہوا جو 2015ء تک بحث و مباحثہ اور نظرثانی کے مراحل سے گزرتا رہا۔ اس رپورٹ کے مطابق، ’انڈس سسٹم کا 50 فیصد پانی کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ضائع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ ڈیم اپنی عمر پوری کر چکے ہیں اور پاکستان میں خوراک، پانی اور توانائی کے بحران باہم مربوط ہیں۔ اس رپورٹ میں دیامیر باشا ڈیم بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
دیامیر باشا ڈیم گلگت بلتستان اور خٰیبر پختونخواہ کے درمیان تعمیر ہو گا۔ اس پر مشترکہ مفادات کونسل میں 2009ء پر اتفاق رائے قائم کیا گیا۔ پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران اس پر محض ابتدائی کام ہی ہو سکا البتہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے اس پراجیکٹ پر سنجیدگی سے کام شروع کیا۔ یہ ایک میگا پراجیکٹ ہے جس میں 2500 ایکڑ زرعی زمین زیر آب آئے گی اور 30000 مقامی لوگوں کو نقل مکانی کرنا ہو گی۔ بیشتر ماہرین کے خیال میں اس ڈیم کی تعمیر پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر، فیصل جاوید کا کہنا تھا، ’یہ ڈیم بنانا پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان میں سالانی 22 ملین ڈالر کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ ہم ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کریں تو پانچ برسوں میں اسے تعمیر کر سکتے ہیں۔ ہم بانڈ، کمرشل فنانسنگ اور چندہ مہم کے ذریعے مطلوبہ 12 ارب ڈالر اکٹھے کر لیں گے اور اس مد میں اب تک پانچ ارب روپے کا سرمایہ جمع ہو چکا ہے۔‘
پاکستان میں پانی کا بحران قومی اتفاق رائے اور سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی منافرت سے بالاتر ہو کر ہنگامی بنیادوں پر موجودہ ڈیموں کی تعمیر نو اور نہروں کی مرمت کا کام شروع کیا جائے۔ پانی کا ضیاع روکنے کے لیے عوامی آگاہی مہم شروع کی جائے۔ پاکستان کی روز افزوں عالمی اور علاقائی تنہائی سے اجتناب کیا جائے اور عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ حکومتوں سے ایسے تعلقات قائم کیے جائیں کہ وہ، منگلہ، تربیلہ اور دیگر ڈیموں کی طرح نئے آبی ذخائر کی تعمیر میں بھی ہماری مالی اور تکنیکی مدد کریں۔
DW/News Desk