اوریئنٹل ازم : سامراج مخالفت یابنیاد پرستی :ایک تنقیدی جائزہ
تیسری دنیا کے ممالک اور اقوام کئی صدیوں سے لیکر آج تک خود ساختہ دائروں میں سفر کررہے ہیں ۔ جدید معاشی نظریات سے دوری ، سائنسی علوم کی ناپیدی اور جدت کاری کے فقدان کے باعث وہ فرسودہ روایات سے باہر نکلنے ، بدلتے ہوئے تقاضوں کاادراک کرنے اور خاص طور سے جدید سائنس وتحقیق کی روشنی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے قطعی بے بہرہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی رُجعت اور ترقی ، دوست اور دشمن اور علم اور جہل میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں ۔ خاص طور سے مسلمانوں کی پوری تاریخ میں جنگ وجدل آپس کے قتل وغارت اور مفتوعہ علاقوں میں لوٹ کھوسٹ کی مثالیں تو پیش کی جاسکتی ہیں لیکن فلسفہ ، نظریہ ، تحقیق اور سائنس وغیرہ میں کوئی قابل ذکر کارنامہ نظر نہیں آتا اور مختلف ادوار میں علم دشمنی ، کتب خانوں کو تباہ کرنے ، ترقی پسند قائدین اور فلاسفر ز کی بے توقیری کے واقعات مقبول عام ہیں ۔
آج بھی مسلم ممالک میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو خلقی طرز حکومت کے مطابق چلایا جاتا ہوں ۔ قبائلیت ، جاگیردارانہ ذہنیت ، قدامت پرستی سمیت تمام پسماندہ نشانیاں مسلم معاشرے میں بدرجہ اتم نظرآتی ہیں ۔ ا کثر اقوام کے قومی ومذہبی ہیروز تو ایسے افراد ہیں جن کا کسی ترقی یافتہ معاشرے میں ذکر بھی ہولناک ہوتا ہے ۔ عورتوں کی غلامانہ زندگی کو اس جدید دور میں دیکھ کر ہر ذی شعور کا سرشرم سے جُھک جاتا ہے ۔ اکثر خود ساختہ اہل علم وادب بھی روایت پرستی کاسہارا لیکر فرسودہ اور بوسیدہ رسم ورواج کوسہارا دیتے ہیں جو اپنی روح میں پرولتاریہ کی مخالفت اور بورژواکی حمایت کے مترادف ہے ۔
اوریئنٹل ازم یا شرق شناسی پر گفتگو کرنے سے قبل اس کے پس منظر کا ذکر کیا جانا ضروری ہے ۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار چند مخصوص شخصیات نے دنیا کے مختلف براعظموں میں موجود انسانی آبادی اور سمندری راستوں کی دریافت کی جو مختلف براعظموں میں موجود باشندوں کے درمیان رابطوں اور تعلقات کاباعث بننے ۔ مثال کے طور پر کریسٹو فر کولمبس نے امریکہ دریافت کیا ۔ واسکوڈے گا مانے ہندوستان سے دنیا کو متعارف کرایا ۔ مارکو پولو نے دنیا کی سب سے بڑی آباد ی چین تک رسائی حاصل کی۔جیمز کوک نے براعظم آسٹریلیا کی سرزمین پر قدم رکھا اور اس طرح پوری دنیا کاسفر پہلی دفعہ کشتی کے ذریعے ممکن بنانے کاسہرا جان ڈریک کے سر ہے ۔ گویا نئی دریافتوں اور دنیا کو مربوط کرنے کے ان کوششوں میں بھی مشرق سے تعلق رکھنے والا کو ئی خاص فرد نظرنہیں آتا ۔
نئی آبادیوں اور بحری راستوں کی دریافت(Age of Exploration) بنی نوع انسان کی اکائی اور ان کے درمیان مواصلاتی رابطوں ، انسانی تہذیب کے فروغ اور جدید معاشرہ کی بنیاد بنی۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان مواقع سے نئی اُبھرنے والی سامراجی قوتوں نے خوب فائدہ اُٹھایا ۔ خاص طور سے صنعتی انقلاب (1760-1820)کے بعد سامراجی ممالک برطانیہ ، فرانس ، اسپین اورپرتگال نے اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کیا ۔ا نہوں نے پہلے تجارت اور بعد میں اپنی اپنی سلطنت کے پھیلاؤ کیلئے دنیا کے مختلف براعظموں میں مختلف ممالک میں اپنی نوآبادیات قائم کیں اور ان کے قدرتی اورانسانی وسائل کے بے دریغ استحصال کیا ۔ ترقی یافتہ قوت ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اپنی کو لونیوں میں معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی بالا دستی (Cultural Hegemony) بھی حاصل کی۔
فرانسیسی پوسٹ مارڈرنسٹ میشل فوکو کا کہنا ہے کہ علم اور طاقت کو الگ الگ نہیں کیاجاسکتا ہے( Knowledg & Power are inseparable) کسی بھی دور میں جو برتر سیاسی ومعاشی قوت کاحامل ہوتا ہے ۔ اُسی دور کے علوم وفنون اور ٹیکنالوجی پر بھی اس کاغلبہ ہوتا ہے ۔ اس کولونائیزیشن کے عمل میں جو ممالک یا اقوام غلام بن گئیں وہ معاشی ،سیاسی ،فکری اورسماجی طورپر پسماندگی کاشکار تھیں اور استعماری قوتوں کے عمل کااخلاقی جواز چاہیے کچھ بھی نہ ہو لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ غلام اور محکوم بنائے جانے والی قوموں کی داخلی کمزوریوں اور پسماندگی نے اس پورے عمل میں بنیادی کردار ادا کیا ۔
جب میں نے اہل مشرق کے پسماندہ رہ جانے کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تومارکسی دانشورسبط حسن نے اشتراکی مفکر اعظم کارل مارکس کے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ ’’ مارکس یہ جاننا چاہتا تھا کہ مشرقی معاشرہ اگر صدیوں کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی محور پر گھوم رہا ہے تو اس کے اسباب وعوامل کیا ہیں اور کیاوجہ ہے کہ مشرق کے فیوڈل نظام نے یورپ کی مانند سرمایہ دارانہ نظام کی جانب ترقی نہیں کی ۔ نہ مشرق کی دستکاری صنعت (مینو فیکچرنگ) صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔ مارکس کی نظر میں اس جمود کا ذمہ دار ایشیا کا دیہی نظام ہے ۔‘‘(1)
اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ دنیا بھر میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف بغاوت اور مزاحمت بھی پیدا ہوئی ، تاہم اس سلسلے میں1917 کے سوشلسٹ انقلاب اور بالخصوص سوویت یونین کی پالیسیوں نے کلیدی اور فعال ترین کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں استعمار ی قوتوں لے نوآبادیاتی نظام (Colonial system of imperialism)کے خلاف عوامی رد عمل نے ایک انقلاب کی صورتحال اختیار کی ۔ براعظم ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں چالیس سے زائد ممالک نے آزادی حاصل کی ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد وہی ممالک اور اقوام جزیرہ عرب سے لیکر برصغیر تک سوویت یونین کے خلاف امریکی سامراج کے پھر اتحادی بن گئے ۔
بہر حال آزاد ہونے والی ممالک میں علوم وفنون ،تہذیب وتمدن، لٹریچر اور صحافت کی ترقی وترویج پرسامراجی اثرات اور عوام کے ذہنوں میں ثبت ہونیو الے نقوش کے مطالعہ اور تجزیہ کوبعض عناصر اوریئنٹل ازم کانام دیتے ہیں جن میں فلسطینی نژاد امریکی شہری ڈاکٹر ایڈورڈ سعید کانام نمایاں ہے ۔ اوریئنٹل ازم کے علمبردار شخصیات ایڈورڈ سعید سے لیکر ہندوستان کے مکتبہ فکر سبالٹرن اسٹیڈیز گروپ The Subaltren Studies Group(SSG) کے نمائندوں پر اٹلی کے مارکسی رہنما انٹینو گرامچی ،الجزائری نژاد فرانسیسی دانشور فرانز فینن اور پوسٹ ماڈرنسٹ دانشور میشل فوکو کے اثرات بھی ملتے ہیں ۔
اوریئنٹل ازم کے علمبردار دانشوروں نے مقامی محرومی اور جدوجہد آزادی کے مختلف نظرانداز گوشوں کواُجاگر کرنے میں اہم خدمات انجام دیں لیکن ساتھ ہی ساتھ مشرقیت(Orientalism) کے بات کرتے ہوئے اس قدر محدود ہوگئے کہ انہوں نے یورپ کی ترقی ، سائنسی ایجادات، نظریات اور بطور مجموعی انسانی ترقی میں یورپ کے شاندار کردار کو بھی نظرانداز کردیا حالانکہ ایڈورڈ سعید کی اپنی اعلیٰ ذہانت، منفرد تنقیدی شعور اور تجزیاتی قوت کاحصول بھی مغربی دنیا کی مرہون منت ہے ۔ فلسطین کی آزادی کیلئے اپنی جان ہتھیلی پررکھنے کے باوجودیاسر عرفات وغیرہ ان کو اپنی تنظیم میں برداشت نہیں کرسکتے تھے ۔ یہ دانشور حضرات سامراج کی مخالفت کے نام پرمغرب کے پورے معاشرے کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور ان ملکوں اور عوام کو بھی نشانہ بناتے ہیں جن کاتاریخ میں کوئی سامراجی کردار نہیں رہا ہے ۔
حقیقت یہ ہے یورپ کے صرف چند ممالک برطانیہ ، فرانس ،اسپین ، پرتگال اوردوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نوآبادیاتی نظام کے قیام اور توسیع پسندی کے ذمہ دار ہیں لیکن ان چار پانچ ملکوں کی آڑ میں تمام مغربی ممالک اور اقوام کو بُرا بھلا کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔پسماندہ قومیتوں ،نااہل حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں کی عصبیت کے شکار شاعروں اور ادیبوں نے مشرق کی رُجعت اور قدامت پرستی دونوں پر آنکھیں بند کرلیں بلکہ بلاواسطہ ان پر تنقید کرنے کی بجائے ان کی حمایت کرتے رہتے ہیں ۔ فرسودہ روایات اور ا قدار کادفاع کرتے ہوئے انہوں نے مشرقی ممالک میں جاری استحصال، صنفی امتیاز ،ظلم اور جبرکے خلاف آواز اٹھانا بھی مناسبت تصور نہیں کیا ۔اس طرح Confirmation bias کاشکار ہوکر انہوں نے مغرب اور مشرق کے عوام کو ایک دوسرے سے الگ اور متصادم The Dichotomy emerged between east & west بنادیا ۔
پشتو کے معروف شاعر رحمت شاہ سائل نے مشرق ا ور مغرب میں تفریق کی بجائے اتفاقات اور مشترکات کوزیادہ متعلق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’ ماشو مان (بچے) چاہے مشرق کے ہوں یامغرب کے ایک ہی طرح روتے اور ہنستے ہیں ۔ وہ آگے جاکر کہتے ہیں کہ مظلوم (پرولتاریہ) چاہے مشرق میں ہوں یا مغرب میں ایک قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں ۔‘‘
ڈاکٹر ایڈورڈ سعید فلسطینی نژاد امریکی شہری تھے اور اس میں شُبہ نہیں کہ انہوں کا ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام اور صہونیت کی پُشت پنائی کرنے والے سامراجی اور استحصالی قوتوں کو بے نقاب کرنے میں عرب شیوخ اور مورثی بادشاہوں سے بھی موثر کردار رہا ہے ۔ انہوں نے فلسطین کے مسئلے کے علاوہ مغرب اور مشرق کے تضاد ات ،مشرق کے بارے میں مستشرقین (Orientalists) کے تحریر کردہ مواد سے متعلق وضاحت کے حوالے سے متعدد کتابیں تحریر کیں اور یقیناً پوسٹ کولونیل اسٹیڈیز کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک ہیں تاہم ان کی تصنیفات میں سے ’’اوریئنٹل ازم ‘‘ کے موضوع پر لکھی گئی کتاب جہاں اہم مقام رکھتی ہے وہیں انتہائی متنازعہ بھی ثابت ہوئی ۔
علمی وادبی محاذ پر 368صفات پر مشتمل کتاب کے سامنے آنے کے بعد مغرب اور مشرق کے حوالے سے تندوتیز بحث ومباحثیں چھڑ گئیں جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں بے شمار کتابیں اور تحقیقی مقالات منظر عام پر آئے لیکن اوریئنٹل ازم کے لغوی معنوں سے اوریئنٹ اور اوکسیڈنٹ دونوں بہت دور چلے گئے ۔ ڈاکٹر ا یڈورڈ سعید نے اوریئنٹل ازم کوسامراج مخالفت سے منسوب کرتے ہوئے کہاکہ
“Taking the late 18th centurey as a very roughly defined starting point, Orientalism can be discussed & analized as the corporate institution for dealing with the orient-dealing with it by making statements about it, rulling over it, authorizing views of it, describing it, by teaching it, settling it, rulling over it, in short, orientalism as awestern style for dominating, restructuring and having authority over the orient.”(2)
جبکہ مغربی د انشوروں بالخصوص ان کے ناقدوں نے اوریئنٹل ازم کو پسماندگی اوربنیاد پرستی سے جوڑدیا ۔ علاوہ ازیں غیر طبقاتی ٹکراؤ کے دیگر دوسرے نعروں کی طرح اوریئنٹل ازم نے سب سے زیادہ نقصان طبقاتی جدوجہد کو پہنچایا ۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں جاری طبقاتی اور قومی آزادی کی تحریکوں کو غیر اہم سوالات کے نیچے یا برابر لاکر کُند کیاگیا جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ حکمران سرمایہ دارانہ نظام کی ایماء پر دنیا بھر کے عوام کو تقسیم کرنے اورپرولتاریہ کو ورغلانے کی ایک کوشش ہے جبکہ ایک حقیقی انقلابی کیلئے ظلم ، جبر اور استحصال کی علامت مغربی اور مشرقی معاشروں کے خلاف یکساں درجہ لازم ہے ۔قارئین کے لئے مغربی مورخین اور مفکرین سے متعلق ایڈورڈ سعید کی رائے سامنے لانا بھی ضروری ہے۔ یورپ کا مشرق سے متعلق استحصالی عزائم کو ایڈورڈ سعید نے تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا کہ
“It is therefore correct that every European, in what he could say about the orient, was consequently a racist, an imperialist & almost totally ethnocentric.”(3)
گویا اہل مشرق اورینٹئل ازم کوسامراجی ایجنڈے کا تسلسل سمجھتے ہیں ۔مغربی مورخین ومفکرین پر اسلام کے بارے میں بد گمانی پیدا کرنے کاالزام لگاتے ہیں ۔ نسلی برتری ، انفرادیت ، بنیا پن (Mercantilism) اور فحاشی وعریانی جیسے الفاظ کابوچھاڑ کرتے ہیں ۔ تعمیر و تخلیق میںیورپ سے سبقت لے جانے کی بجائے مذہبی تہواروں ،خطبوں اور اجتماعات میں لمبی لمبی بدعائیں دیتے ہیں ۔ یورپ اور امریکہ کے جنگلات میں آگ لگنے اور حادثات میں انسانی ہلاکتوں پر بھی خوشی کااظہار کرتے ہیں ۔حتیٰ کہ وہ مغرب میں پیدا ہونے والے عظیم دانشوروں ، فلاسفروں اور نظریہ دانوں کو بھی آفاقی مقام ومرتبہ دینے کی بجائے اپنے جغرافیہ تک محدود کرنے ( Eurocentric)کانام دیتے ہیں ۔ جبکہ اس کے رد عمل میں اہل مشر ق پر اجنبی ، پسماندہ اور جذباتی ہونے کا الزام لگاتے ہیں ۔
تقدیر پرستی ،توہمات ، خرافات اور جاہلانہ ر سموں (Mumbo jumbo) کے وارث کہہ کر طنز کرتے ہیں ۔طبقاتی محاذ جنگ سے دوری اور لاتعلقی کی وجہ سے مشرق اور مغرب کے درمیان نسل ، مذہب اور جغرافیہ کی بنیاد پر بہت سے نئی تلخیاں اور شکوک وشبہات سراُٹھانے لگیں۔ غیر ضروری نئے تضادات کو ہوا دی ۔ اس جلتی ہوئی آگ پر فوری طور پر پانی ڈالنے کیلئے متبادل بیانیہ اور متبادل ڈسکورس کی اشد ضرورت ہے تاکہ گھڑے ہوئے مفروضے اور عقیدت پرمبنی خام خیالی کاخاتمہ ممکن ہوسکے ۔استحصال پرمبنی سرمایہ دارانہ نظام کے اس پر آشوب دور کے دوسرے مرحلے یعنی سوشلزم میں جانے کی راہ ہموار کرسکیں ۔ واضح رہے کہ دونوں کے درمیان اصل حقانیت کو واضح کرنا مارکسی نظریات سے ممکن ہے ۔
اس حقیقت کو مد نظررکھنا ضروری ہے کہ کولونیل دور میں سامراجی ممالک نے اپنی نوآبادیات میں اپنے مفادات کی خاطر ہی ایسے ترقیاتی اقدامات بھی کئے جن کے عوام کی زندگی پرمثبت اثرات پڑے ۔ مثلاً بنیادی ڈھانچے کی فراہمی ، ریلوے ، نہری نظام ، مواصلاتی نظام ، مراکز صحت ، تعلیمی ادارے وغیر ہ آج بھی ان ملکوں میں موجود اور موثر ہیں ۔ ان کے مقابلے میں مشرقی ممالک خاص طور سے مسلمانوں نے بھی فتوحات کیں لیکن وہ جن جن ملکوں میں گئے وہاں انہوں نے کوئی نئی بنیادیں نہیں رکھیں اور نہ ہی کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو مقامی آبادی کے فائدے میں ہوتا اور یاد رکھا جاتا ۔
حتیٰ کہ مقامی آبادی کے تاریخی مقامات کوتاراج کرنے ، علمی مراکز کو مسمار کرنے، عیش وعشرت ، عالیشان باغات اور لوٹ مار کی روایت ان کے ساتھ منسلک ہیں ۔ نئے آزاد ہونے والے ممالک میں مشرق کی اقداراور روایات کو خاص طور پر ثقافتی مظاہر کو عقیدت وجذباتیت سے بھرپور اورتفاخر کے احساس کے ساتھ ساتھ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جبکہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کا سب سے نمایاں سبق یہ ہے کہ بنی نوع انسان یک جان ہوکر فطرت سے مقابلہ اور تسخیر کی راہ میں نہ صرف آگے بڑھ رہا ہے بلکہ یہی انسانی نجات کاذریعہ بھی ہے ۔
تبدیلی کو قبول کرنے ، تحقیق وتجسس کے جذبے کو برقرار رکھنے اور نئے حالات میں خود کو ڈھالنے کی صلاحیت کی وجہ سے یورپ آج بھی دنیا بھر کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ڈاکٹر مبارک علی نے یو رپ کی یہ حیثیت اس طرح بیان کی ہے کہ’’ عام آدمی کی شمولیت نے یورپ کے معاشرہ کو ایک نئی توانائی دی ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اس نے تعلیم ، سائنس ، ٹیکنالوجی، فلسفہ اور دوسرے سماجی علوم میں ترقی کی اور یہی وجہ ہے کہ آج پس ماندہ ممالک کیلئے یورپ ایک ماڈل بن گیا کہ جس کو سامنے رکھ کر وہ ترقی کرنا چاہتے ہیں‘‘(4)
اوریئنٹ اور آکسیڈنٹ کی سیاسی ومعاشی جنگ میں مذکورہ دانشوروں نے اپنی تمام تحریروں میں ’’کلچر‘‘ کی اصطلاح کو بہت زیادہ اور غیر ضروری طور پر استعمال کیا ہے ۔ پوسٹ کالونیل اسٹیڈیز کے طریقہ کار کو پوسٹ کالونیل تھیوری کانام دینا بھی غلط ہے۔ سیاسی تجزیوں اور پولیٹیکل اسڈیز کو لٹریچر اور کلچرل اسٹڈیز کانام دینا بھی غیر مناسب بلکہ تحقیق طلب مسئلہ ہے ۔ اس کے علاوہ جس طرح ایک بچہ اپنے بچپن اور لڑکپن کے مرحلہ سے گزر کرجوان ہوجاتا ہے تو پھر اس جوان کو دوبارہ بچہ کہنا مناسب نہیں ہے ۔ بالکل اس طرح پل پل بدلتی دنیا کلچر سے آگے بڑھ کر شہری زندگی اور تہذیب وتمدن کے مرحلے میں داخل ہوئی اور آب تیزی سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (A.I) اور روبو ٹیک ٹیکنالوجی کی جانب گامزن ہے جس میں کلچر کالفظ قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔ بعض اہل فکر وقلم کلچر کو مافیا کلچر، کلاشنکوف کلچر ، تھانہ کلچر اور تھڑا کلچر وغیرہ جیسے منفی الفاظ کے ساتھ جوڑ کر کلچر کے پرانے معنی کی بھی توہین کرتے ہیں ۔
مغربی دنیا کے زیر اثر پیدا ہونے والے تمام رجحانات ، نظریات اور عقلی رویوں کو بیک جنبش قلم منفی قرار دیتے ہیں جبکہ دو مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والے تمام رجحانات اور رویے منفی نہیں ہوسکتے بلکہ نئے معاشرے اور معاشرتی میکنزم کے بنیادی اجزاء بھی ہوسکتے ہیں جن کو Hybridization کامرحلہ بھی کہتے ہیں ۔ مغرب اور مشرق کے ملاپ سے تو پورے مشرق میں تبدیلی قبول کرنے اور کُھلا پن کے احساس کو تقویت ملی اورہرنئی ٹیکنالوجی کے استعمال پر اہل رجعتان مشرق کے فتووں اورفتنوں کی سوداگری بھی ماند پڑ گئی ۔
اکیسویں صدی انسانی ترقی کے ایک نئے عہد کانقطہ آغاز ہے جس میں نئے اور پرانے کولونیل نظام اور ان کی باقیات مکمل طورپر خاتمے کے قریب ہیں ۔ ہمیں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سائنس اینڈ ڈیجیٹل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ اور تیز رفتار دور میں اہل مشرق کے توہمات ، خرافات ، اندھی تقلید اور بے جاء عقیدت کیلئے بھی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ا رتقاذ کے خلاف محکوموں اور غلاموں کی آزادی کی پاسداری یقینی بننے کے لئے نئی راہیں متعین ہورہی ہیں جہاں اختیارات کی مرکزیت کسی ملک کی بالا دستی اور ہر قسم کی تنگ نظری سے انسان نجات پاننے کیلئے کوشاں ہے ۔ مشینی ذہانت ا ور روبوٹ صنعت کاری کے اس عہد ساز مرحلے میں بین الاقومیت ہی نسل انسانی کااصل جوہر ہے ۔ تمام استعماری اور استحصالی عناصر چاہیے وہ مغر ب کے استعمارہو یامشرق کے استثمار ، دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔ بلا امتیاز ہر قسم کے استحصالی اور استعماری غنڈوں کے خاتمے کا راز ہی مارکسزم میں ہی پوشیدہ ہے ۔
حوالہ جات:
1۔ سبط حسن ، مارکس اور مشرق ، ناشر مکتبہ دانیال کراچی، اشاعت2016 ص61
2. Dr. Edward W. Saeed, Orientalism, 1978, NewYork Page # 3
3. Dr. Edward W. Saeed, Orientalism, 1978, NewYork Page # 204
4۔ڈاکٹر مبارک علی ، یورپ کاعروج ، ناشر تاریخ پبلی کیشنز لاہور، اشاعت 2012 ، ص187
One Comment