اصغر علی بھٹی مغربی افریقہ
مکرم خورشید ندیم صاحب ایک صاحب علم اور صاحب درد مذہبی دانشور ہیں ۔تاریخ مذہب،فلسفہ اور تصوف پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔وقتاً فوقتاً مذہبی دنیا میں دستیاب یا فی الوقت دستیاب علمائے دین اور ان کے تبلیغ دین کےطور طریقوں پر بطور اصلاح کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ یہ ان کی ہمت ہے کہ پاکستان کے اتنے حبس زدہ ماحول میں رہ کر بھی انہیں لکھنے کا یارا ہے جبکہ ان کے ہمدم تو کبھوکے ملک عدم روانہ کر دئیے گئےیا دیار غیر سدھار چکے ۔
ابھی حال ہی میں 27 ستمبر کو روزنامہ دنیا میں زیر عنوان ’’ خطیب اور مذہب ‘‘ آپ نےایک بہت ہی سلگھتے ہوئے موضوع کو چھوا ہے ۔ آپ لکھتے ہیں’’ ان دنوں سوشل میڈیا پر کچھ مذہبی خطباء اور واعظین کا چرچا ہے زیادہ تر استہزاء کا موضوع ہے۔سبب ان کے بیان کردہ کچھ قصے ہیں جنہیں جدید ذہن قبول نہیں کرتا۔۔خطابت ایک فن ہے ۔اسے اداکاری کی ایک قسم سمجھیے۔۔یہ تفریح کا ایک ذریعہ ہیں ۔میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔نوجوانی تک تفریح کے کسی مروجہ طریقے سے لطف اُٹھانے کا موقعہ نہیں ملا۔اُن دنوں ہمارے پاس تفریح کا ایک ہی ذریعہ تھا مذہبی خطیبوں کی تقریریں۔اُس کے لئے دور دور تک کاسفر کیا۔۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اسی وجہ سے اپنے سامعین کو’’ کانوں کا عیاش ‘‘ قرار دیا تھا ۔۔مذہبی خطیب اپنے سامعین کے مزاج شناس ہوتے ہیں اور ان کی خواہش کے مطابق کلام کرتے ہیں۔وہی کچھ کہتے ہیں جو لوگ سننا پسند کرتے ہیں۔
سید عطاءاللہ شاہ بخاری ہی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ہم لوگوں کے چہرے دیکھ کر اپنے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں۔۔مسلکی خطیبوں کو ان تقریروں کا معاوضہ لاکھوں میں ملتاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وہ ہر مسلک کے ماننے والوں کو ایسے دلائل مہیا کرتے ہیں جس سے وہ اپنی مذہبی وابستگی میں مزید پختہ ہوتے ہیں ۔ایک خطیب کے پیش نظر جب یہی کچھ ہوتا ہے تو پھر صحت واقعہ اس کے لئے اہمیت نہیں رکھتے۔پھر وہ رطب و یابس جمع کرتا ہے اور لوگوں کے کانوں میں انڈیل دیتا ہےجس سے وہ خوش ہو جائیں ۔لوگ گھنٹے دو گھنٹے کے لئے محظوظ ہو لیتے ہیں ۔
خطیب کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس کا بیان کردہ واقعہ مصدقہ تھا یا نہیں۔راوی ثقہ تھا یا غیر ثقہ۔لوگوں کو نیک اعمال کی طرف مائل کرنے کے لئے ایسی روایات اور قصے سنائے جاتے ہیں جن کےبارے میں خطیب کو معلوم ہوتا ہے کہ مستند نہیں ہیں ۔میں نے ایک دفعہ ایک معروف داعی کا اپنے کالم میں ذکر کیا ۔۔کہ وہ دین کے نام پر غیر مصدقہ روایات پیش کرتے ہیں ان کا فون آیا کہ فضائل اور نیک مقصد کے لئے علماء نے اسے جائز کہا ہے ‘‘۔
مکرم خورشید ندیم صاحب کی بات سے مجھے بھی اپنی جوانی کا سنا ہوا ایک وعظ یاد آگیا۔جمعہ کے خطبہ میں مولوی صاحب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان فرمارہے تھے کہ قیامت کا دن تھا ۔اللہ میاںجزاء سزا کے فیصلے کر رہے تھے کہ ایسے میں دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی اُمت کی شفاعت کر نے کی بجائے پیچھے چھپ کر کھڑے ہیں۔ اللہ نے یاد فرمایا موسیٰ میرے کلیم اللہ پیچھے کیوں کھڑے ہو آگے کیوں نہیں آتے ؟ موسیٰ علیہ السلام نے ڈرتے ڈرتے فرمایا کہ میرے مالک میرے پروردگار مجھ پر ایک قتل کا الزام ہے ڈر رہا ہوں کہ کہیں سزا کا پروانہ نہ مل جائے ۔اللہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اے موسیٰ تو میرا فرستادہ ہے میرا پیغمبر ہے تو چنیدہ ہے مگر وہ جو بندہ تو نے قتل کیا تھا اُس کے قتل پر پشیمان مت ہو اور پریشان مت ہوکیونکہ وہ انسان نہیں تھا بلکہ ایک مرزائی تھا ۔اور پھر ساری مسجد نعروں اور خوشی سے جھومنے لگی تاج و تخت ختم نبوت زندہ باد۔
مضمون کے آخر پر جناب خورشید ندیم صاحب نے جو خلاصہ کلا م درج کیا ہے معذرت کے ساتھ خاکسار اُسی کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہے ۔ کیونکہ تمام تر تشخیص کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ ’’ اس لئے میری درخواست ہے کہ خطباء اور واعظین کی تقاریر کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ان سے حظ اُٹھائیے کہ یہ خطابت تفریح کا محل ہے غوروفکر کا مقام نہیں‘‘۔
میرے خیال میں تویہی ہے ہماری بد قسمتی کی بنیاد اوریہی ہے ہمارے قعر مذلت میں گرنے کاخفیہ راز کہ آج ہم منبر رسول کے وارثین اور تعلیم و تربیت کے امین حضرات کواداکار اور غیر سنجیدہ قرار دے رہے ہیں تو وہ ہمیں کانوں کا عیاش گردان رہے ہیں۔حاصل وصول نتیجے میں آج ہم دنیا میں حج کا فریضہ ادا کرنے والے ملکوں میں تعداد کے لحاظ سےدوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود بھی انسانی حقوق کی ادائیگی میں دنیا میں 160 ویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہونے کے دعویدار ہیں مگر پورنو سرچ کرنے والوں میں دنیا میں نمبر ون ہیں۔ ہم حرمت رسول پر جانیں نچھاور کرنے کے لئے بے تاب ہیں مگر بنت آدم کو زینب بناکر مسجد میں ہی نوچ کھاتے ہیں۔
مدرسوں کے خلاف بات کرنے والے یہود و ہنود کے ایجنڈے پر ہیں مگر مدرسے کی حدود میں بد فعلیاں مہتممین ہی کر جاتے ہیں۔ ہمارے تھانے رشوت کا گڑھ ہیں مگر وہاں لکھا ہوتا کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ ہماری کچہری میں 200 روپے میں گواہ مل جاتا ہے مگر وہاں لکھا ہوتا ہے کہ جھوٹی گواہی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ ہماری عدالتوں میں انصاف نیلام ہوتا ہے مگر وہاں لکھا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کرو۔ ہماری درسگاہیں جہالت بیچتی ہیں مگر وہاں لکھا ہوتا ہے کہ علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر قبر کی گود تک ۔
ہمارے اسپتال موت بانٹتے ہیں مگر وہاں لکھا ہوتا ہے کہ اور جس نے ایک زندگی بچائی ا س نے گویا سارے انسانوں کو بچایا۔ اور ہمارے بازار جھوٹ ،خیانت، ملاوٹ ، کے اڈے ہیں مگر وہاں لکھا ہوتا ہے کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ گویا شاہراہ زوال پریک رخی نہیں دوسری طرفہ ٹریفک جاری ہے یعنی نہ ہی ہم مبتدیوں نےمذہب کو سنجیدہ لیا ہے اور نہ ہی مذہب کے داعیان نے۔یعنی اگر ایک مبتدی جمعہ کا خطبہ اور وعظ و دروس کومحافل کو ’’تفریح کا محل ‘‘ قرار دے رہے ہیں اور واعظین کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ ’’ ان کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ‘‘ تو علمائے کرام کو نسااس کے سوا اعلانیہ جاری کر رہے ہیں وہ بھی تو فرما رہے کہ سو خنزیر اکٹھے ہو ں تو فلاں فرقے کا ایک آدمی بنتا ہے۔
راولپنڈی کے بزرگ عالم دین اور مدیر صاحب رسالہ تعلیمؔ القرآن نےہمارے زوال کی داستان کےآغاز کے دنوں میں ہی نشاندہی کرتے ہوئے فرمادیا تھا کہ ’’رہنمایانِ قوم اور واعظانِ ملّت جب جلسوں ‘ مجلسوں اور پارٹیوں میں قوم کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں تو ان کی تقریروں کا ایک ایک لفظ اور ان کے لیکچروں کا ایک ایک جملہ درد وکرب اور رنج و الم میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔یوں لگتا ہے گویا انکی زبانوں سے حسن بصری‘ بایزید بسطامی اور شیخ احمد سر ہندی بول رہے ہیں مگر ان کی راتوں اور تنہائیوں کی مصروفیاتِ رندانہ کے سامنے بے حیائی بھی پانی پانی– اور شرم سے سرافگندہ ہے– ان کی زبانوں پر اخلاقیات کا درس ہوتا ہے مگر ان کے دل سرے سے اس موضوع ہی سے بیزار ہیں-‘‘(رسالہ تعلیم القرآنؔ راولپنڈی جون ۶۵ء ص ۳–۴ )۔
جناب محمد حنیف رامےصاحب جن دنوں پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے اس موضوع کی حساسیت کا اندازہ لگاتے ہوئے آنے والے خدشات کی نشاندہی ان الفاظ میں کی تھی:-’’ہم ایک بے روح معاشرے میں جی رہے ہیں۔یہاں خدا کا نام تو بہت لیا جاتا ہے لیکن اسے زندہ محسوس نہیں کیا جاتا۔اگر ہم خدا کو زندہ محسوس کرتے تو ہمارے چہروں پر نور ہوتا‘پیشانیاں چمک رہی ہوتیں–حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں (نعوذ با للہ) خدامر چکا ہے اور ہم اُسے دفنا چکے ہیں۔ہم نے خود خدا کو یہ کہہ دیا ہے کہ تُو پیچھے ہٹ جا اور ہمیں دنیا کا مزہ چکھ لینے دے۔ہمیں یہ کھیل کھیل لینے دے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آج ایک بے خدا معاشرے میں زندہ ہیں–ہم نے منافقت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے ورنہ یہ ممکن تھا کہ جو زمین ہم نے خدا کے نام پر لی تھی‘جو ملک ہم نے خدا کے نام پر بنایا تھا اس میں بے خدائی کی کیفیت ہوتی؟ہم نے کبھی نہ دیکھا کہ ہم کیا کرنے نکلے تھے اور کیا کر رہے ہیں ۔کیا ہم نے یہ ملک اس لئے بنایا تھا کہ رشوت کا بازار گرم کریں‘خدا کی آیات فروخت کریں اور جہالت کی سطح کو کبھی ختم نہ ہونے دیں؟‘‘(مساواتؔ لاہور ۲۷؍جولائی ۷۴ء)۔
جناب مودودی صاحب نے توبہت پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ علماء کا یہ غیر سنجیدہ رویہ صرف تفریح طبع تک نہیں رکتا بلکہ بالاخر قوموں کو لے ڈوبتا ہے۔ایسے ہی ایک موقعہ پر اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا تھا کہ’’یہ حقیقت گو بڑی تلخ ہے لیکن اس سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ہمارے ہاں اسلامی تعلیمات پرسے یقین اٹھتا چلاجارہا ہے۔ دل ودماغ سے اسکی عظیم صداقت اور غیرمعمولی عظمت کے نقوش آہستہ آہستہ مٹ رہے ہیں‘‘۔(ترجماؔن القرآن اگست ۱۹۶۵صفحہ۶)۔
اسلام سے محبت کا نعرہ لگانا ہے تو ضرور لگائیے مگر ٹھندے دل سے سو چئے کہ آخر ایک نعت خوان اور مدینے کی گلیوں کا ذکر کرنے والے کے لئےایک پھول سی بچی جو اسے انکل انکل کہہ کر کھیلتے ہوئے خوشی خوشی اپنا چچا سمجھ کرساتھ جا رہی تھی۔ اُس کی بے حرمتی کرتے ہوئے اس پری کی آنکھیں اور اس کی حیرانی بھرا چہرہ تو دیکھ رہا ہوگا ۔گلہ دبانے پر اس پری کی آنکھوں سے بہتے ہوئے موتیوں جیسے آنسو بھی تو دیکھ رہا ہوگا۔لیکن آخر اسے کیوں رحم نہ آیا کیوںحیاء نہ آیا ؟ کیوں کالی کملی والا یاد نہ آیا ؟۔سوچئے ایسا کیوں ہوا ؟ اسلام کا نام لیوا اتنا بڑا درندہ کیسے بن گیا؟ کیا واقعی بقول مودودی صاحب ’’ہمارے ہاں اسلامی تعلیمات پرسے یقین اٹھتا چلاجارہا ہے۔ دل ودماغ سے اسکی عظیم صداقت اور غیرمعمولی عظمت کے نقوش آہستہ آہستہ مٹ رہے ہیں‘‘۔
♦