چین دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری تو کرنا چاہتا ہے اور اپنی مارکیٹ بھی چاہتا ہے مگر چینی حکومت کسی بیرون ملک کے سرمایہ کار کو چین میں سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دیتی۔ جس سے بیرونی سرمایہ کار کے لیے مقابلے کی فضا ختم ہو جاتی ہے۔ یاد رہے کہ چینی حکومت مختلف شعبوں میں بھاری سبسڈی دیتی ہے جو بیرونی سرمایہ کار کو بھی دینی پڑے گی ۔
یورپی حکومتوں نے ایشیا يورپ سمٹ ميں چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی معیشت کے دروازے غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے کھولے۔ اس دو روزہ سربراہی اجلاس منعقدہ برسلز میں امریکا کے علاوہ چین کی اقتصادی پالیسیاں بھی زیر بحث آئيں۔
یورپی رہنماؤں نے کہا ہے کہ ایک طرف تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’پروٹیکشنزم‘ پر مبنی پالیسیوں کے سدباب پر گفت گو ہو رہی ہے، تاہم چین بھی اسی انداز کے اقدامات کے ذریعے سرکاری سبسٹڈی دے کر کاروباری اداروں کے لیے مقابلے کی فضا ختم کرنے جیسے اقدامات میں مصروف ہے۔
ایشیا یورپ سمٹ ميں 65 ممالک کے وفود شریک ہوئے، جن میں فرانس، برطانیہ، جرمنی اور اٹلی کے رہنماؤں کے علاوہ یورپی کمیشن کے اعلیٰ اہلکاروں نے بھی چینی وزیراعظم لی کی چیانگ سے ملاقاتیں کیں۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس بات چیت کے نتيجے میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین میں یورپی کمپنیوں کی بہتر رسائی کے معاملہ حل ہو پائے گا۔
لی کی چیانگ نے اپنی برطانوی ہم منصب ٹیریزا مے سے بات چیت میں کہا کہ وہ برطانیہ کے ساتھ تجارت کے اعتبار سے ایک نہایت اچھے وقت کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
اس سمٹ کی صدارت یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کر رہے تھے، جب کہ جمعے کے روز جاری کردہ ایک فوٹو میں چانسلر میرکل اور چینی وزیراعظم سمیت پچاس ممالک کے رہنما دکھائی دیے۔
چین ایک طویل عرصے سے یہ وعدہ کر رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرے گا، جب کہ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اب تک نہایت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ مغربی ممالک کو خدشات ہیں کہ صدر شی جن پنگ کے دور اقتدار میں چینی معیشت پر حکومتی عمل داردی میں مزید اضافہ ہوگا۔
جمعرات کے روز فرانسیسی صدر امانوئل ماکروں نے چینی وزیراعظم کے ساتھ بات چیت میں چین کے پولٹری، ادویات سازی اور مالیاتی خدمات کے شعبوں میں زیادہ بہتر رسائی کی بابت بات چیت کی۔ تاہم فرانسیسی حکام کے مطابق اس بات چیت میں نہایت کم پیش رفت سامنے آئی۔
دوسری جانب روسی وزیراعظم دیمیتری میدیویدف برسلز کا دورہ کر رہے ہیں۔ سن 2014ء میں ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد یوکرائنی علاقے کریمیا کو روس میں ضم کیے جانے کے بعد ان کا یہ پہلا دورہ برسلز ہے۔ انہوں نے برسلز میں اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اس ٹیبل پر اس وقت متعدد ایسے ممالک موجود ہیں، جنہوں نے اقتصادی جنگ کی جھلکیاں دیکھ رکھی ہيں اور شاید یہ تکلیف دہ چیز اب دوبارہ ہو رہی ہے‘‘۔
DW/News Desk