علی احمد جان
لاہور کے سول سیکرٹیریٹ میں خواتین کو بغیر سر پر دوپٹہ رکھے داخل ہونے سے روکنے والے پولیس آفیسر کو اس ڈیوٹی پر آئے کوئی دو چار دن نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی وہ نیا نیا کسی مذہبی نظرئے سے متاثر ہو کر اپنی سوچ یا فکر کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ سب وہ لاہور شہر کی ہر دلعزیز خاتون سیاسی راہنما اور صحت کی صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کے احکامات بجا لارہا تھا جس کی جماعت نے انتخابات جیت کر ملک کی نہ صرف سیاسی و اقتصادی بلکہ نئی اخلاقی اور سماجی سرحدیں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا ہوا ہے۔ یاسمین راشد لاہور شہر کے پوش علاقے کے ووٹ سے منتخب ہونے والی وہ رہنما ہیں جنہوں نے کپتان عمران خان کی تبدیلی کے وعدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عہد کر رکھا ہے۔
پچھلے سالوں میں جب ’روک سکو تو روک لو، تبدیلی آئی رے‘کی راجھستانی دھن پر سرخ و سبز دوپٹے اور مفلر ہوا میں اچھال کر اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر نوجوان رقصاں تھے تو اس کو جنون کا نام دیا گیا جس کے آگے شعور بھی ماند پڑ کر پٹواری ہو چکا تھا۔ڈاکٹر یاسمین راشد کے احکامات سے لگتا ہے یہی جنون اگست کے مہینے میں منعقد ہونے والی حلف برداری کی تقریب کے بعد ہی غیر اخلاقی اور تہذیب سے عاری سے قرار دیا جاچکا ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد حکمران جماعت کے رویے میں یہ تبدیلی نوجوانوں کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں۔
دھچکا تو اس خاتون کو بھی لگا ہوگا جو امریکا میں رہتے ہوئے پاکستان میں آنے والی تبدیلی کے لئے فنڈ اکھٹا کر رہی تھی اور نئی قیادت کے اقتدار میں آنے کے بعد جب وہ تبدیلی دیکھنے ملک واپس آئی تو اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو کے گیٹ پر کھڑی پولیس نے کسی بھی قسم کی تبدیلی کے آنے سے انکار کرتے ہوئے ان کو بغیر شناختی دستاویزات کے اندر جانے سے منع کیا۔
امریکا کی آزاد فضاؤں میں پلی بڑھی خاتون نے اپنی قیادت کے بتائے جمہوری اور بنیادی حقوق کو بروئے کار لاتے ہوئے پولیس کو عوام کی خادم بنانے کی کوشش کی تو مقام حوالات ٹھہرا اور اس کی اپنی اوقات بھی پینٹ شرٹ سے دوپٹہ سے منہ ڈھانپ کر نیک پروین بن کر عدالت میں گڑاگڑا کر معافیوں تک آگئی۔
گزشتہ پانچ سالوں میں تبدیلی کی منادی کرنے والے ہرکارے کہ جن کی ہر شام کو سات سے رات بارہ بجے تک ڈھول پیٹ پیٹ کر ہتھیلیاں سوج گئی تھیں اب ’یہ تبدیلی نہیں رے‘ کی ایک نئی راگ آلاپ رہے ہیں۔کسی کو ڈالروں کو لگے پروں نے تحیرمیں ڈال دیا ہے تو کسی کو پٹرول کی میزائل بن کر بلند پرواز نے پریشان کر رکھا ہے۔ان منادیوں اور جغادریوں کو صف اول میں کھڑا کرنے والے ان کے ممدوح اب ان کو بھی لفافی سمجھنے لگے ہیں۔تبدیلی لانے والوں کی قلابازیوں کو پہلے پلٹ کر جھپٹا اور چھپٹ کر پلٹنے سے تشبیہ دینے والے بھی چیخ اٹھے ہیں کہ یہ دانشمندانہ مصلحت نہیں بلکہ قول و فعل کا تضاد ہے۔
تبدیلی کے بعد بننے والی سرکار کی پہلی کابینہ نے بھی کئی خوش فہمیاں دور کردیں جب روایتی طور پر پیرا شوٹ سے اترنے والے جہاز میں بیٹھ کر طاقت کے ایوان میں پہنچے اور مسند اقتدار پر براجمان ہوئے۔ان جہازیوں کو جب دو رنگا مفلر پہنایا گیا تو بیس بیس سالوں سے دھول چاٹنے والے انصافیوں کی ٹھنڈی آہیں ان کے حلقہ نیابت تک پہنچ گئیں۔ دو ماہ بعد ہی ضمنی انتخابات میں تبدیلی کو پڑنے والا ووٹ بھی پرانے پاکستان کی جھولی میں گرا اور تحریک انصاف نے حکومت میں ہوتے ہوئےعام انتخابات میں جیتی سیٹیں ضمنی انتخاب میں ہار کر تبدیلی کو جعلی کہنے والوں کے بیانیے کو حقیقت سے قریب ثابت کردیا۔
تین ہزار ارب روپے کے ملک سے چوری ہونے اور اس کو واپس لاکر ملک میں دودھ اور شہد کی ندیاں بہانے کے خوشنما بیان نے نوجوانوں کی ڈھارس تو بندھائی لیکن حکومت میں آکر قرضہ لینے کے لیے جب سامراجی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گئے تو یہ الزام کسی اور پرنہیں بلکہ اپنی ریاست پر سچا یا جھوٹا ثابت کرنا پڑرہا ہے۔
عالمی اداروں کا سوال یہ ہے کہ جہاں تین ہزار ارب پہلے سے چوری ہوئے ہیں تو ایسے ملک کو نیا قرضہ کیونکر دیا جائے اورالزام لگانے والوں کا مخمصہ یہ ہے کہ اگر چوری ثابت نہیں کرتے تو ان کا الزام لغو ثابت ہوتا ہے۔ تین ہزار ارب کی چوری کا الزام اب سانپ کے منہ میں چھپکلی کی مانند ہے جو اگل دے تو اندھا ہو جاتا ہے نگل جائے تو سانپ مر جاتا ہے۔
پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں چوریوں اور بد عنوانیوں کی کہانیاں ڈھونڈ کر نکالی جاتی ہیں اور پھر چسکے کے لیے ان کو بلا تصدیق سچ مان کر ان کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔یہ بھی پرانی بات نہیں کہ عالمی بنک کی تحقیق کے لیے لکھی ایک مفروضاتی رپورٹ پر پڑوسی ملک کے لیے رقم کی ترسیل کی مثال کو حقیقت سمجھ کر وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا گیا۔جب بات سمجھائی گئی تو ناسمجھی کا اقرار یا شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے ایک اور کہانی کی تلاش جاری رہی۔
اب امریکی انسداد منشیات کے ادارے کی طرف سے ایسی ہی مفروضاتی رپورٹ کی بنیاد پر ملک سے غیر قانونی طور باہر منتقل ہونے والے اربوں ڈالروں کی ترسیل روک کر ڈیم بنانے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی جب سمجھ میں آجائے گی کہ نہ ہی نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچنے والی ہے تو پھر ایک اور کہانی تلاش کی جائے گی اور چسکا لیا جائے گا۔
تبدیلی پر ابھی سنجیدگی کے ساتھ تنقید شروع ہوئی بھی نہیں ہے۔اس کی وجہ ایک تو حکومت کا پہلی بار اقتدار میں آکر اپنی ترجیحات اور اہداف تعین کرنے کا مارجن ہے تو دوسری وجہ کچھ لوگوں کو نئی حکومت سے وابستہ امیدیں بھی ہیں۔لیکن یہ مارجن اور امیدیں بہت جلد محدود اور مسدود ہوجائیں گی اور لوگ سنجیدگی کے ساتھ سوالات اٹھانا شروع کریں گے ۔
پاناما کیس سے بچنے کے لیے عمرا ن خان کو دس ارب روپے کی پیش کش کے ملزم شہباز شریف پر چند کروڑ روپے کے ٹھیکے کو منسوخ کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے وقتی طور پر اپنی انا کی تسکین کا سامان تو کیا جاسکتا ہے مگر یہ سب ان پر لگائے اربوں اور کھربوں کی ہیر پھیر کے الزامات سے بری کرنے کےمترادف ہے۔نواز شریف ، ان کی بیٹی اور داماد کو جس انداز میں سزا دلوائی گئی اس سے وقتی اہداف کا حصول تو ہوا ہوگا مگر تاریخ کے صفحات میں ان کو بے گناہ قرار دے کر ہیرو بنا دیا گیا ہے۔
صفائی ستھرائی اور درخت لگانے کی مہم کے لیے کسی کو اقتدار میں آنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کام کسی بھی پلیٹ فارم سے کیا جاسکتا ہے۔ حکومتیں نعرے لگا کر یا تقریریں کرکے اپنے ایجنڈے پر عمل نہیں کرتیں بلکہ آئین، قانون اور پالیسی کے ذریعے نظام میں تبدیلی لاتی ہیں۔تبدیلی کے نام پر بر سر اقتدار آئی حکمران جماعت نے مہنگائی کا کڑوا گھونٹ تو پلادیا لیکن ابھی تک نظام میں ان خامیوں کی نشاندہی تک نہیں کیا ہے جن کو دور کرکے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔آئین اور قانون سے ماورا کسی قسم کی تبدیلی لانے کی کوشش ملک کی جڑیں کھوکھلا کردیں گی اور آئین و قانون کے ذریعے تبدیلی لانے کے لئے عمران خان اور اس کی جماعت کو اپنا لائحہ عمل سامنے لانا ہوگا ورنہ بہت جلد تبدیلی کی امیدیں مایوسی میں بدل سکتی ہیں۔
♥