حکومتِ پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اب کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ اس خبر سے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
حکومت کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ کو فراہم کی جانے والی معلومات کے بعد ملک میں اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا پی ٹی آئی کی حکومت جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو دوبارہ کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرے گی یا نہیں۔ واضح رہے کہ فلاحِ انسانیت فاونڈیشن کو جے یو ڈی کا فلاحی ونگ سمجھا جاتا ہے، جو کئی فلاحی پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ ان تنظیموں پر پابندی لگانے والے صدارتی آرڈیننس کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے یہ تنظیمیں اب کالعدم تنظیموں کی فہرست میں نہیں ہیں۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کے ذریعے ان جماعتوں کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
سابق چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’حکومت آرڈیننس کے ذریعے بھی ان جماعتوں کو کالعدم قرار دے سکتی ہے لیکن یہ بہتر ہوگا کہ وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے انہیں کالعدم قرار دے۔ اگر آرڈیننس کی مدت ختم نہیں ہوئی ہوتی تو یہ پارلیمنٹ سے آرڈنینس کی منظوری لے سکتے تھے لیکن کیونکہ اب آرڈیننس ختم ہو چکا ہے۔ انہیں نئے سرے سے کام کرنا پڑے گا‘‘۔
کئی سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت، جو حال ہی میں مذہبی انتہا پسندوں کے آگے دو مربتہ ہتھیار ڈال چکی ہے، ایسا نہیں کرے گی۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ چونکہ جماعت الدعوہ کے پیچھے ریاست کے طاقتور ادارے ہیں، تو پی ٹی آئی ایسا کرنے سے اجتناب کرے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما تاج حیدر کے خیال میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہیں، لہذا وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے: ’’عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا فرنٹ مین ہے اور ہماری پالیسی یہ ہے کہ ایسی دہشت گردوں تنظیموں کو قومی سیاسی دھارے میں لاکر یہ تاثر دیا جائے کہ یہ تو سیاسی جماعتیں ہیں۔ یہ پالیسی ہمارے سماجی ڈھانچے کو مزید تباہی سے دوچار کرے گی اور بین الاقوامی طور پر ہمیں شرمندہ کرے گی۔ جس کے منفی نتائج ہو سکتے ہیں‘‘۔
تاج حیدر کے خیال میں حکومت کی طرف سے ایسی تنظیموں کو کالعدم نہ قرار دینا آئین کی صریح خلاف ورزی ہے: ’’آئین کی آرٹیکل اڑتیس بڑی واضح ہے کہ ایسی تنظیمیں جو لوگوں کے مذہبی یا فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکا کے ووٹ مانگیں، حکومت کا فرض ہے کہ وہ انہیں روکے۔ ایسی تنظیموں نے ماضی میں بھی ہمارے سماجی ڈھانچے کو تباہ کیا اور اگر اب بھی انہیں روکانہ گیا تو یہ مزید تباہی کا باعث بنیں گی‘‘۔
تجزیہ نگاروں کا خیال میں کیونکہ پاکستان کے معاشی حالات بہتر نہیں ہیں اور ملک کو بیرونی امداد کی سخت ضرورت ہے، پی ٹی آئی کی حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی یہ پابندی لگائے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان کو بارہ بلین ڈالرز فوری طور پر چاہییں جب کہ ملکی معیشت کو چلانے کے لیے بھی دس بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔ حکومت نے چھ بلین ڈالرز کا بندوبست کر لیا ہے لیکن ابھی بھی اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا، جہاں مغربی ممالک کی اجارہ داری ہے اور جن کا یہ مطالبہ ہے کہ اسلام آباد ایسی تنظیموں کے خلاف ایکشن لے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ، پاکستانی ریاست ابھی ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں سنجیدہ نہیں ہے ۔ پاکستانی ایسٹبلشمنٹ کافی عرصے سے یہ کوشش رہی ہے کہ کالعدم مذہبی جماعتیں جو اندرون و بیرون ملک دہشت گردی میں ملوث ہیں انہیں کسی طرح قومی دھارے میں لایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کالعدم تنظیمیں مختلف ناموں سے انتخابات میں حصہ بھی لیتی ہیں۔
تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں اگر پاکستان نے ایسی تنظیموں کے خلاف اقدامات نہیں کیے تو ہمیں بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے: ’’پی ٹی آئی حکومت کی ترجیح مالیاتی مسائل کو حل کرنا ہے، جس کا مطلب بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے پاس جانا پڑے گا اور وہ ایسا نہیں کریں گے کہ آپ کو پیسے بھی دیں اور آپ ان جیسی تنظیموں کے خلاف اقدامات بھی نہ کریں۔ حکومت بین الاقوامی برادری کو تسلی دے گی کہ یہ عدالت کی کارروائی ہے اور کہے گی کہ ہم اس سلسلے میں قانون سازی کریں گے۔حکومت کے پاس ان تنظیموں پر پابندی لگانے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے‘‘ ۔
DW/News Desk
♦