آزادئ اظہار کی عالمی صورتِ حال

منیر سامی

گزشتہ ہفتہ ہم نے سعودی نژاد صحافی جمال خاشقجی ؔ کے ترکی کے سعودی قونصل خانے میں سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کی مذمت کی تھی۔ سعودی عرب کی حکومت نے اقرار کیا ہے کہ اس کے اہلکاروں کے ہاتھوں یہ قتل عمد ہے۔ ترکی اس کی ذمہ داری بین السطور سعودی ولی عہد محمد ؔبن سلمان پر عائد کر رہا ہے۔ سعودی عرب اس کا انکاری ہے، اور سعودی عرب کا اہم ترین حلیف امریکہ صدر ٹرمپ کی رہنمائی میں ذمہ داری کے تعین میں ہچر مچر کر رہاہے۔ اور یو ں یہ خوں رنگ معاملہ عالمی سیاست کی بساط پر جاری کھیلوں کا حصہ بن گیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ اس معاملہ پر اسی طرح مک مکائی ہو جائے گی، جیسی ہی دنیا بھر میں صحافیوں اور عمل پرستوں کی لاشوں پر تجارت کر کے ہوتی ہے۔

جمال خاشقجی ؔکا قتل دراصل دنیا بھر میں آزادی ءاظہار کی دگرگوں صورتِ حال کی طرف ایک افسوسناک اشارہ ہے۔ آج اس دگر گوں صورتِ حال کی طرف نظر ڈالتے ہیں۔ اس کے لیئے ہم نے دنیا میں آزادی ءاظہار کے دو اشاریوں سے مدد لی ہے۔ یہ فریڈم ہاوس کا اشاریہ Freedom of Press 2017 ہے ، اور دوسرا Reporters Without Borders کا اشاریہ ہے۔

ان دونوں اشاریوں کے مطابق دنیا بھر میں آزادی ء صحافت کی حالت دگرگوں اور زوال پذیر ہے۔ یہ دونوں اشاریے جو اپنے اپنے طور پر عالمی آزادی ء اظہار کا تجزیہ کرتے ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے جس کی ہمت افزائی بعض سیاستدان کھلے بندوں کر رہے ہیں، اور یہ کہ بعض آمرانہ ریاستیں آزادی ء اظہار کی اپنی تاویلوں کو دنیا کے جمہوری ممالک کو بر آمد کر رہی ہیں۔ ان اشاریوں کے تجزیوں کے مطابق صحافیوں سے دشمنی اب صرف ترکی اور مصر تک محدود نہیں ہے ، جو ان اشاریوں کی نچلی ترین سطحوں پر ہیں۔ ان ممالک میں اب صحافیوں کو روز ہی ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔

دونوں اشاریے اس افسوسناک صورتِ حال کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ میں صحافت کو جو آزادی، وہاں کے آیئن کی پہلی ترمیم میں محفوظ کی گئی تھی، اب خود جمہوری طور پر منتخب رہنماوں کی مخالفانہ زد میں ہے۔ کیا یہ بات افسوسناک نہیں ہے کہ امریکہ ان اشاریوں میں پہلے نمبر پر ہونے کے بجائے اب پینتالیسویں اور پچیسویں نمبر پر ہے۔امریکہ کے صدر ٹرمپؔ جو صحافت کو جمہوریت بدر کرنے کے خواہاں ہیں، اب روسی آمر اسٹالن کا نعرہ استعمال کرتے ہوئے صحافیوں کو ’ عوام دشمن ‘ قرارد ے رہے ہیں۔ اس کا تازہ ترین نتیجہ شاید وہ پائپ بم ہیں جو صدر کے ایک مبینہ حمایتی نے ایک معروف میڈیا ادارے اور صدر کی مخالف جماعت کے رہنماوں اور حمایتیوں کو بھیجے۔

Reporters without Borders کے اشاریوں کے مطابق 2017 میں آزادی ء اظہار کے معاملہ میں ناروےؔ پہلے نمبر پر تھا اور شمالی ؔ کوریاآخری نمبرپر۔ اس ادارے نے اپنے تجزیہ میں لکھا ہے کہ، ’’ اپنے ملکوں میں آزادی اظہار پر قدغنیں لگانے کے بعداب فولادی ہاتھوں والے آمر اپنے پروپیگنڈے کے نئے واسطے استعمال کر رہیں ہیں ۔ ولادیمیر پوتنؔ کے روس نے اب RTاور Sputnik نام سے نئے میڈیا ادارے قائم کیے ہیں جو انٹرنیٹ کو استعما ل کرتے ہوئے میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔

اسی طرح چینی آمر ژی پنگؔ ایک سخت ترین معلوماتی نظام کو دیگر ایشیائی ملک کو درآمد کر رہا ہے۔ فریڈم ہاوس کے مطابق چینؔ نے اس خطہ میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر تنقید پر سخت ترین پابندی عائد کر رکھی ہے، اور ہر اختلاف کو بد ترین سزاوں سے کچلا جاتا ہے۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں ایک عمل پرست ژہانگ ہائی ٹائوؔ کو انیس سال کی سزا سنائی گئی۔ ان پر الزام تھا کہ وہ پارٹی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے ملکی معاملا ت کو بین الاقوامی میڈیا میں پھیلاتے ہیں۔ شاید آپ کو اس پر پاکستان یاد آجائے جہاں صحافیوں پر اس طرح کے الزام لگائے جاتے ہیں۔

چین میں صرف ایک سال میں ایک سو گیارہ سے زیادہ بلاگ لکھنے والوں اور سوشل میڈیا پر اظہارِ رائے کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ یہ عمل پرست عموماً ویغر Uighur عوام ، تبت والوں، فالن گانگ عقیدے والوں کے حقوق کے بارے میں لکھتے رہے تھے۔

آپ نے ہماری اکثر تحریروں میں ہمیں پاکستان میں آزادی ء اظہار کے بارے میں تشویش کرتے دیکھا ہوگا۔ فریڈم ہاوس کے مطابق پاکستان اس معاملہ میں بالکل ’غیر آزاد‘ ہے۔ وہاں یہ صورتِ حال مذہبی شدت پسندوں اور عسکری اداروں کے دباو کے تحت ہے۔ Reporters without Borders کے مطابق پاکستان ایک سوؔ انتالیسویں نمبر پر تھا۔

یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ فریڈم ہاوس کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں بھی صحافت صرف نسبتاً آزاد ہے۔ Reporters without Borders کے مطابق گزشتہ سال بھارت، جہاں صحافت جنوبی ایشیا میں آزاد ترین سمجھی جاتی ہے، پاکستان سے صرف ایک درجہ اوپر ایک سو اڑتیسویں نمبر پر تھا۔ وہاں آزادی ء اظہار پرہندو قوم پرستوں کا سخت دباو ہے، جہاں گزشتہ سال تین صحافیوں کو قتل کیا گیا، جن میں معرو ف ایڈیٹر ’گوری لنکیش‘ بھی شامل تھیں۔بھارت میں مبینہ طور پر آزادیئ اظہار کے مخالفین کو وہاں کے وزیرِ اعظم کی جماعت کی بالواسطہ حمایت حاصل رہتی ہے۔ بھارت میں بعض اوقات قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرمانہ قوانین کی دفعہ ایک سو چوبیس بھی لاگو کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ جس میں بغاوت کا الزام عائد ہوسکتا ہے۔

اب تک کی معروضات سے آپ کو اندازہ ہوا ہو گا کہ آزادی اظہار پر دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں دباو اورپابندیا ں ہیں۔ عمل پرستوں کے لیے یہ ایک چو مکھی لڑائی ہے۔ ان پر لازم ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے قریب ترین معاملات کے بارے میں جدو جہد کریں اور اس کے ساتھ ہی مجموعی صورت ِ حال پر نظر رکھتے ہوئے جہاں بھی ممکن ہو دوسرے عمل پرستوں کی آواز میں آواز ملائیں اور ان کی دستگیری کریں۔

ان معاملات کی مزید تفصیل جاننے کے لیے آپ مندرجہ ذیل لنک پر جاسکتے ہیں:
https://tinyurl.com/y8rnz2b6

https://tinyurl.com/y96jjkqw

One Comment