توہین مذہب کے الزام میں قید آسیہ بی بی نے سپریم کورٹ کی جانب سے بری ہونے کے بعد اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بہت خوش ہیں لیکن انہیں ابھی تک اس فیصلے پر یقین ہی نہیں آ رہا۔
سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے الزام میں قید آسیہ بی بی کی سزائے موت کے فیصلے کو ختم کر دیا ہے۔ مسیحی خاتون نے اپنی موت کی سزا کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی۔ اس فیصلے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ اس فیصلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ غریب، اقلیتیں اور معاشرے کے انتہائی پسماندہ طبقوں کو اس ملک میں انصاف مل سکتا ہے۔‘‘ سیف الملوک نے کہا کہ آج کا دن ان کی زندگی کا ’سب سے بہترین‘ دن ہے۔
آسیہ بی بی کو توہین مذہب کیس میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ بی بی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی۔ آٹھ اکتوبر کو اس اپیل کی سماعت سنتے ہوئے سپریم کورٹ کے تین رکنی پنچ نے آسیہ بی بی کے خلاف کیس کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے اور جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا تھا کہ اس کیس میں کافی سقم نظر آ رہے ہیں۔
اس کیس نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ حاصل کی تھی۔ مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے 2010ء میں بی بی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مسیحی خاتون کی بیٹی 2015ء میں اس وقت کے پوپ فرانسس سے ملی بھی تھیں۔ پاکستان، جہاں مشال خان جیسے طالب علم کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کیا جا چکا ہے اور جہاں مسیحی برادری کے گاؤں جلائے گئے ہیں، وہاں توہین مذہب کے مرتکب افراد کو مسلسل خطرہ لاحق رہتا ہے۔
آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام 2009ء میں لگایا گیا تھا۔ وہ کھیت میں کام کر رہی تھیں، جب ان سے پانی لانے کا کہا گیا۔ اس پر آسیہ بی بی کے ساتھ کام کرنے والی مسلمان خواتین نے اعتراض کیا اور کہا کہ ایک مسیحی عورت مسلمانوں کے لیے پانی نہیں بھر سکتی۔ یہ خواتین مقامی امام کے پاس شکایت لے کر گئیں اور اور آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے بی بی کی رہائی کا فیصلہ سنانے کے بعد سوشل میڈیا پر آسیہ بی بی اور اس کے خاندان کے حق میں کئی لوگ آواز اٹھا رہے ہیں۔ بہت سے افراد نے پاکستان کے صوبے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو بھی یاد کیا۔ تاثیر کو ان ہی کے گارڈ نے بی بی کی حمایت کرنے اور توہین مذہب کے متنازعہ قانون میں ترمیم کرنے کے مطالبے پر قتل کر دیا تھا۔
پاکستان میں اقلیتوں کے سابق وزیر شہباز بھٹی بھی بی بی کی حمایت کرنے کے باعث قتل کر دیے گئے تھے۔ رضا رومی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ آسیہ بی بی، اس کے خاندان اور ججبوں کے لیے دعا مانگتے ہوئے ہمیں سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کو بھولنا نہیں چاہیے جو ایک مظلوم کے لیے اپنی آواز اٹھاتے ہوئے اپنی جان کھو بیٹھے‘‘۔
شیری رحمان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ غلط الزام عائد کرنے والوں نے آسیہ کی نصف زندگی ضائع کر دی، اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون اور انصاف کی بالا دستی کے لیے آواز اٹھانے والوں کو تحفظ فراہم کریں۔ شیری رحمان نے کہا کہ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے شدت پسندوں نے کیسے ہنگامہ آرائی کی ہے، اب انہیں اس کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔
سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر نے اس فیصلے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے لکھا،’’ قادری کو سزائے موت سنانا پاکستان کی جیت تھی، آج کی جیت ملک کے پسماندہ طبقوں، غریبوں، مذہب کے نام پر ظلم سہنے والوں کی جیت ہے۔ آج ایک اعلیٰ مثال قائم کر دی گئی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ اس فیصلے کے بعد ملک بھر میں مذہبی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے صحافی طلعت حسین نے اپنی ٹویٹ میں لکھا،’’تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کی پچھلے دو سال میں ہونے والی تربیت نے انہیں سکھا دیا ہے کہ پاکستان کے دارالحکومت کو کیسے بند کیا جاتا ہے۔ اس وقت کے وقتی سیاسی مقاصد تو حاصل ہو گئے لیکن آج ملک کی اہم سڑکیں ان احتجاجیوں کے قبضے میں ہیں۔ روک سکو تو روک لو‘‘۔
معروف دانشور امین مغل نے لکھا ہے کہ ’’میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو بلا تحفظات ایک جراءت مندانہ سنگ میل سمجھتاہوں۔ عدالت عالیہ کا فیصلہ ہماری موجودہ سماجی اقدار کی دستاویز کے طور پر پڑھا جائے گا۔جب ججز کو فیصلہ ختم نبوت پر ایمان کے اعلان سے شروع کرنا پڑے، تو اس سے آپ موجودہ شعوری ماحول کی سطح کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے کہ آپ کہیں “میں مسلمان ہوں لیکن میں ہندووں کے بنیادی حقوق کی حمایت کرتا ہوں۔” حالانکہ آپ کو صرف یہ کہنا چاہئے “میں ہندووں کے بنیادی حقوق کی حمایت کرتا ہوں“۔ میں اس وقت کی رائے عامہ کی آب و ہوا کا اندزاہ کر سکتا ہوں۔ کوئی بھی شخص اس فیصلے کی حمایت کرنےیا اس پراظہاررائے کرنے سے گھبرائے گا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر تم میرے ساتھ نہیں ہو، تو تم میرے خلاف ہو۔ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے‘‘۔
آسیہ بی بی کی رہائی ہماری عدالتی تاریخ کا ایک بڑا فیصلہ ہے جس کے لئے چیف جسٹس ثاقب نثاراوربنچ کے دیگردوججزمبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے تمام تراورمشکل صورت حال کے باوجود آسیہ بی بی کورہا کرنے کا حکم دیا ۔آسیہ بی بی کی رہائی کے موقع گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی جرات اوربہادری کریادکرنا لازم ہے۔ یہ سلمان تاثیرہی تھے جنھوں نے سب سے پہلے آسیہ بی بی کے حق میں آواز اٹھائی تھی اوراس کے لئے انھیں اپنی جان قربان کرنا پڑی تھی۔
DW/News Desk
♦