جمیل خان
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ وزراء، بیوروکریٹس، ضلعی ناظمین، اکثر حکومتی عہدیدار اس قدر شدید گرمی میں کوٹ پینٹ یا کلف لگے ہوئے کاٹن کے شلوار قمیض اور اس کے اوپر ویسٹ کوٹ کیوں پہنتے ہیں؟ جبکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ بنیان کے کپڑے کی ٹی شرٹ بھی بھاری معلوم ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ یہ لوگ 20 سے 15 درجہ سینٹی گریڈ درجہ حرارت سے کبھی باہر ہی نہیں آتے ہیں۔
عام لوگ بھی ایسے ہی لباس میں ملبوس افراد کی عزت کرتے اور مرعوب ہوجاتے ہیں۔ غلامانہ ذہنوں کی غلاظت ہے کہ لوگ کپڑوں کے ذریعے خود کو عام لوگوں میں ممتاز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس قدر شدید گرمی میں شلوار قمیض پہننے والے لوگ بھی ہمیں احمق دکھائی نہیں دیتے۔ قمیض کے لمبے دامن سے تشریف پر پردہ ڈالنے کا مطلب یہی ہے کہ اس معاشرے کے لوگوں پر ہمہ وقت جنسی اباجیت کا غلبہ رہتا ہے۔ آپ بیشتر افراد معاشرہ کا نفسیاتی تجزیہ کر لیجیے، اکثریت تو جانوروں کو بھی جنس بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔اس لباس میں نا صرف کپڑے کا زیاں ہوتا ہے بلکہ یہ بجلی کے اصراف کا باعث بھی بنتا ہے۔
یہ بات ہم نے رحیم یار خان کے قریب چھوٹے سے قصبے سردار گڑھ سے تعلق رکھنے والے ایک ان پڑھ نوجوان کے سامنے بیان کی تو اس کی سمجھ میں آگئی۔لیکن کراچی کو کرانچی اور چاول کو چانول کہنے والے کراچی کے ایک تعلیم یافتہ اور اعلی عہدے سے ریٹائر بزرگ کے ساتھ گفتگو کے دوران بے دھیانی میں یہی بات زبان سے نکل گئی تو انہوں لگ بھگ ہمیں کافر ہی قرار دے دیا۔گویا ہم شلوار کی شان میں توہین کے مرتکب ہوگئے تھے۔
کیا شلوار قمیض مسنون لباس ہے؟
ایک ایسا لباس جس میں کپڑے کا زیاں ہوتا ہو، اور اس کو پریس کرنے میں بجلی کا اصراف، تو ایسے لباس کو کسی خاص تقریب یا تہوار میں سال میں چند مرتبہ پہنا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن سارا سال اسی لباس کو پہنا جائے تو اس سے بڑی حماقت شاید کوئی اور نہ ہو۔
سندھ کے بیشتر لوگ رندانہ مزاج کے حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ میرپور خاص جمخانہ میں منعقدہ ایک تقریب میں ہم نے شلوار قمیض کے بارے میں اپنی اس رائے کا اظہار کیا تو ایسا ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا، جو ہمیں کراچی میں نام نہاد بانیان پاکستان سے اکثر ملتا رہتا ہے۔ اس تقریب میں ہم نے عرض کیا تھا کہ شلوار دھوتی کی ترقی یافتہ شکل ہے، یہ وہ دور تھا جب انسان نے سوئی ایجاد کی اور کپڑے سل کر پہننا شروع کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی ماضی پرستوں نے شلوار یا اس سے ملتے جلتے سلے ہوئے لباس کی شدید مخالفت کی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ بغیر سلے ہوئے لباس کے پہننے کو جہالت قرار دینے والوں پر کفر کے فتوے بھی لگائے گئے ہوں گے اور کوئی بعید نہیں کہ ان ترقی پسندوں کو اس دور کی وحشیانہ روایت کے مطابق اذیت ناک سزائیں بھی دی گئی ہوں گی۔
بغیر سلے ہوئے لباس کی تقدیسیت مذہب پرستوں کے گوبر بھرے دماغوں سے آج تک نہیں نکل سکی ہے۔ سامی اور غیر سامی مذاہب کے اجتماعات میں اس کا مظاہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔ مذہبی ذہن میں بھری غلاظت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ لازمی طور پر ہر نئی اختراع اور روایت سے بدک جاتا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر اسی اختراع یا روایت کو یہ کہہ کر اپنا لیتا ہے کہ یہ تو ان کے صحائف میں صدیوں پہلے بیان کر دی گئی تھی۔
ابھی کل ہی ایک صاحب کو ہارڈویئر کی شاپ پر دیکھا، وہ مسلم شاور مانگ رہے تھے۔
ہمیں تعجب ہوا، جب سیلز مین نے انہیں کموڈ کے ساتھ نصب کیا جانے والا شاور پکڑا دیا۔ ان کے جانے کے بعد سیلزمین سے ہم نے کہا۔۔۔۔ بھائی یہ مسلمان کیسی نسل کے لوگ ہیں، ہر چیز پر اپنی ٹانگ رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان گدھوں سے کوئی پوچھے کہ یہ شاور کیا قرون اولا میں ایجاد ہوا تھا؟
ابتدائی دور کے مسلمانوں کو تو پانی ہی میسر نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ استنجا شریف عام تھا۔ مسلمانوں کے تمام برگزیدہ خواتین و حضرات حوائج ضروریہ و غیرضروریہ کے لیے رات کی تاریکی میں ویرانوں میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ ہاں اسے ہندو شاور کہا جائے تو شاید درست ہوگا کہ ہندوستان میں کراچی سے کلکتہ تک حوائج ضروریہ کے بعد پانی سے دھونے کی روایت ہزاروں برس قدیم ہے۔
♦
One Comment