کيا افغانستان داعش کا نيا گڑھ بن سکتا ہے؟

افغانستان ميں سکيورٹی حکام نے مطلع کيا ہے کہ ’اسلامک اسٹيٹ‘ ملک ميں زور پکڑتی جا رہی ہے اور اس دوران اپنی صفے بندی ميں اضافے کے ساتھ ساتھ يہ تنظيم مغربی ملکوں کو ہدف بنانے کی منصوبہ بندی بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔

دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ‘ کی عراق اور  شام ميں خود ساختہ خلافت کے خاتمے کے بعد اب یہ  تنظيم  افغانستان ميں اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ سکيورٹی حکام کے مطابق داعش نئی بھرتيوں سميت يورپ اور امريکا ميں حملوں کی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے۔ يہ انتباہ افغانستان ميں سرگرم امريکی افواج اور مقامی افغان دستوں کی جانب سے جاری کيا گيا ہے۔

افغانستان ميں امريکا نے طالبان کے خلاف جنگ قريب دو دہائيوں قبل شروع کی تھی۔ اس ملک ميں گو کہ طالبان کا زور ايک حد تک ٹوٹ چکا ہے ليکن مشرق وسطی سے شروع ہونے والی ايک اور شدت پسند تحريک آج اس ملک ميں طالبان سے بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہے۔ داعش کے جنگجوؤں سے لاحق خطرے کا اندازہ اس بات سے بھی لگايا جا سکتا ہے کہ ان کے خلاف افغان طالبان تک کو ايک ممکنہ اتحادی قوت کے طور پر ديکھا جا رہا ہے۔

افغانستان ميں تعينات ايک سينئر امريکی انٹيليجنس اہلکار نے بتايا کہ افغانستان ميں حاليہ چند حملے، يورپ اور امريکا ميں بڑے حملوں کا پیش خیمہ  ہيں۔ اس اہلکار کے مطابق گروہ کا ہدف مغربی ملکوں ميں حملے کرنا ہے اور يہ صرف وقت کی بات ہے کہ جنگجو اپنے اس منصوبے  پر کب عمل پیرا ہوں گے۔

امريکی دارالحکومت واشنگٹن کی جارج ٹاؤن يونيورسٹی کے سينٹر فار سکيورٹی اسٹڈيز کے ڈائريکٹر بروس ہوفمين کے مطابق افغانستان اسلامک اسٹيٹ‘ کا نيا گڑھ بن سکتا ہے۔ ان کے مطابق يہ تنظيم اس وقت افغانستان پر کافی وسائل و توجہ مرکوز کر رہی ہے اور ملک کے مشرقی حصے ميں کافی اسلحہ اکٹھا کيا جا رہا ہے۔

انٹيليجنس اہلکاروں کے مطابق اسلامک اسٹيٹ کے جنگجو افغان يونيورسٹيوں ميں بھرتيوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہيں۔ ان کی کوشش ہے کہ ايسے افغانوں کو اپنی صفوں ميں شامل کيا جائے، جو ٹيکنالوجی سے واقف ہوں، سماجی رابطوں کی ويب سائیٹس وغيرہ پر فعال ہوں اور بيرون ملک سفر کرسکيں تاکہ ان کی مدد ہو سکے۔ زيادہ پيچيدہ حملے ترتيب ديے جا سکيں۔

افغانستان ميں داعش سن 2014 ميں قريب اسی وقت نمودار ہوئی جب اس تنظيم نے شام اور عراق کے کئی حصوں پر قبضہ کر کے اپنی ايک خلافت کے قيام کا اعلان کيا تھا۔ افغانستان ميں اسلامک اسٹيٹ‘ خود کو خراسان صوبے کا حصہ قار ديتی ہے اور اس ميں سابقہ طور پر تحريک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے جنگجو شامل ہيں۔ ابتداء ميں ان کی تعداد چند درجن  تھی ليکن جب سن 2015 ميں ازبکستان کی اسلامک موومنٹ نے داعش کی صفوں ميں شامل ہونے کا اعلان کيا تو اس کے بعد جنگجوؤں کی تعداد ميں نماياں اضافہ ديکھا گيا۔ افغانستان ميں داعش کی صفوں ميں اب عرب ملکوں سميت چيچنيا، بھارت، بنگلہ ديش اور چين کے جنگجو بھی شامل ہيں اور ان کی تعداد ہزاروں ميں ہے۔

پاکستان کی مغربی سرحد سے ملحقہ افغان صوبہ ننگرہار کو ان دنوں افغانستان ميں داعش کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ حاليہ کچھ عرصے ميں صوبہ کنڑ ميں بھی اسلامک اسٹيٹ کا اثر و رسوخ بڑھا ہے۔ پہاڑی سلسلے سے بھرپور اس صوبے ميں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن نے بھی کافی عرصہ پناہ لی تھی اور جنگجوؤں کو وہاں مات دينا مشکل ثابت ہو گا۔ ننگرہار کی صوبائی کونسل کے ايک رکن اجمل عمر کے مطابق يہ گروہ البتہ کنٹر اور ننگرہار کے علاوہ نورستان اور لغمان ميں بھی زور پکڑ رہا ہے۔

DW

Comments are closed.