بیرسٹر حمید باشانی
وزیر اعظم پاکستان نے بھارتی ہم منصب کو خط لکھا ہے۔ اس خط کا لب لباب یہ ہے کہ خطے سے غربت کے خاتمے کے لیے امن و استحکام ضروری ہے۔ امن و استحکام کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے تمام تصفیہ طلب مسائل بشمول کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔
خط کا متن جانا پہچانا ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کی وزارات خارجہ کے آرکائیو پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں ایسے درجنوں خطوط مل جائیں گے ، جن کا متن اور لب و لہجہ اس قدر ملتا جلتا ہے کہ بظاہر یہ سارے خطوط ایک ہی خط کی فوٹو کاپی لگتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس طرح کے خطوط کی طویل تاریخ ہے۔ سب سےپہلے خط اور آخری خط کے درمیان سات دھائیوں کا طویل وقت حائل ہے۔ پھر بھی خط میں اس قدر یکسانیت ہے۔
یہ یکسانیت اس تلخ حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم تاریخ میں بہت پیچھے یعنی بیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دھائی میں کہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ اس باب میں وزارت خارجہ کے اس پہلے بابو کی تحریری صلاحیتوں کو داد دینی پڑتی ہے، جس نے امن کی خواہش اور مذاکرات کی ضرورت کو ایسے سادہ اور دلنشین پیرائے میں قلم بند کر دیا کہ آنے والے افسروں اور دانشوروں کو اس میں کسی نقطے یا کومے کی تبدیلی کی بھی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی تاریخ بہت طویل ہے۔ سال 1947 میں تقسیم کے فورا بعد جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر پر کشیدگی بڑھی تو دونوں کے درمیان مذاکرات کی خواہش اور ضرورت کا اظہار ہوا۔ دونوں کے درمیان پہلے مذاکرات کروانے کا بیڑا خود لارڈ مونٹ بٹن نے اٹھایا۔ اس وقت ایک طرف پنڈت جواہر لال نہرو اور دوسری طرف محمد علی جناح تھے۔ دونوں نہ صرف اپنی اپنی اقوام کے غیر متنازعہ رہنما تھَے، بلکہ علم، تجربے اور دانش کے علاوہ فیصلہ کرنے کا نا قابل چیلنج اختیار رکھتے تھے۔ مگر بد قسمتی سے اس موقع پر پنڈت نہرو کی اچانک علالت کی وجہ سے یہ مذاکرات نہ ہو سکے اور یہ تاریخی موقع ضائع ہو گیا۔
پاکستان بھارت کے درمیان سرکاری سطح پر پہلے کامیاب مذاکرات سن 1950 کے موسم بہار میں ہوئے۔ یہ مذاکرات مسلسل چھ دن جاری رہے، جس کے نتیجے میں آٹھ اپریل کولیاقت نہرو پیکٹ ہوا۔ اسے دلی پیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا ، جو باہمی مذاکرات کا نتیجہ تھا۔
اگرچہ قبل ازیں سال 1950میں دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ کراچی ہو چکا تھا، مگر اس کے پیچھے باہمی مذاکرات کے بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کا کردارتھا، جو کشمیر میں جنگ بندی اور اس معا ہدے پر منتج ہوا تھا۔
سال1953 میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے مسئلہ کشمیر حل کرانے میں غیر معمولی دلچسبی کا اظہار شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے ایک امریکی ریپلیکن پال ہوفمین کا انتخاب کیا گیا۔ پال اس سے پہلے فورڈ فاونڈیشن کے سربراہ کی حیثیت سے پاکستان و بھارت میں کام کر چکا تھا اوراحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اپریل1953میں وہ پنڈت نہرو سے ملا۔ دونوں کی گفتگو میں تین آپشن زیر غور آئے۔ پہلا آپشن پوری ریاست جموں کشمیر میں رائے شماری تھا۔ دوسرا حل صرف وادی کشمیر میں رائے شماری کا تھا، اور تیسرا حل کشیر پر پاکستان وبھارت کا مشترکہ کنٹرول تھا۔ پال ہوفمین کے مطابق پنڈت نہرو ان تینوں آپشنز پر غور کے لیے تیار تھے۔
پنڈت نہرو سے مذاکرات کے بعد ہوفمین کراچی پہنچا اور محمد علی بوگرا سے ملاقات کی۔ اس کوشش کے نتیجے جولائی1953 میں نہرو بوگرا مذاکرات ہوئے۔ دونوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے رائے شماری پر اتفاق کیا اور اپریل1954 میں ایڈمنسٹیٹر مقرر کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد کئی سال یو این کمیشن، رائے شماری پر سفارت کاری کی نذر ہو گئے۔
طویل وقفے کے بعد دونوں کے درمیان مذاکرات کی ایک اور سنجیدہ کوشش دسمبر1962 میں ہوئی، اور باقاعدہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔ ان اہم ترین مذاکرات کو بھٹو سورن سنگھ مذاکرات کہا جاتا ہے۔ ان مذاکرات کے چھ طویل دور ہوئے۔ ان مذاکرات کے دوران دونوں ممالک نے اپنی روایتی لگی بند ھی پالیسی میں کچھ لچک دکھائی۔
پاکستان نے رائے شماری کے علاوہ کشمیر پر کسی دوسرے حل پر غور کرنے پر آمادگی ظاہر کی ، جبکہ بھارت نےکشمیر کی سرحدوں پر رد وبدل کے ذریعے کشمیر کا پندرہ سو مربع میل علاقہ پاکستان کو دینے کا عندیہ دیا ۔ ان مذاکرات سے بر صغیر میں امن کی اک امید پیدا ہوئی۔ لیکن نتیجہ کوئی نہ نکلا۔ مزید مایوسی کی بات یہ تھی کہ اپنی موت سے پہلے سردار سورن سنگھ نے تسلیم کیا کہ مذاکرات جاری رکھنے کا مقصد کوئی حل نکالنا نہیں، بلکہ امریکی اور برطانوی دباو سے بچنا تھا۔
سال 1965 کی جنگ کے بعد سوویت یونین کی ثالثی سے ایک بار پھر مذاکرات کا آغاز ہوا۔ اور 1966میں تاشقند ڈیکلئریشن سامنے آیا، جسے تاریخ میں معاہدہ تاشقند کہا جاتا ہے۔ یہ بر صغیر میں امن کے باب میں بہت ہی اہم اور سنجیدہ معاہدہ تھا۔ مگر اس معاہدے کے باوجود کشمیراوردوسرے تصفیہ طلب معاملات جوں کے توں ہی رہے۔
چھ سال بعد پاکستان کے طوفان خیز اندرونی واقعات اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد جون 1972میں پاکستانی وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیر اعظم اندار گاندھی کے طویل مذاکرات شملہ معاہدے پر منتج ہوئے۔ شملہ معاہدہ بر صغیر میں قیام امن کیطرف ایک اہم قدم تھا ۔ اس کے بعد مختلف وزارتی اور حکومتی سطح پر مکالمے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس باب میں رونما ہونے والے اہم واقعات میں1987 میں جنرل ضیا کی کرکٹ ڈپلومیسی،1988 میں بے نظیر بھٹو کی میزبانی میں اسلام اباد کی سارک کانفرنس، راجیو گاندھی اور بے نظیر کے درمیان مکالمے کے باوجود تعلقات میں سرد مہری قائم رہی۔
اس سے اگلا اہم واقعہ1997 میں اندر کمار گجرال اور نواز شریف کے درمیان مکامہ ہوا۔ اس مکالمے میں کشمیر کے علاوہ سر کریک، سیاہ چین، دہشت گردی اور منشیات، وولر بیراج جیسے معاملات زیر غور آئے۔ اس کے بعد1999 میں کارگل ، سال2001 میں آگرہ سمٹ کی ناکامی جیسے واقعات رونما ہوتے رہے۔ مگر اس میدان میں قابل ذکر پیش رفت اس وقت ہوئی جب بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی بیس فروری 1999میں بس پر بیٹھ کر لاہور آئے۔ یہاں اعلان نامہ لاہور جاری ہوا، جو بعد میں کارگل بحران کا شکار ہو گیا۔ کچھ توقف کے بعد مشرف واجپائی دورمیں بیک چینل ڈپلومیسی کے زریعے کشمیر پرسنجیدہ مکالمہ ہوا۔ اس ڈپلومیسی سے مشرف واچپائی فارمولہ سامنے آِیا جو بوگرا نہرو مذاکرات کے بعد اس باب میں شاید سب سے سنجیدہ کوشش تھی۔
سال 2001 میں دونوں ملکوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے، جس کے بعد اعتماد سازی کی سیاست کا آغاز ہوا۔ اس باب میں کئی اقدامات اٹھائے گئے۔ 2004 میں مشرف من موہن سنگھ مذاکرات کے بعد سرینگر مظفرآباد بس سروس کا آغاز ہوا۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان انتہائی کامیاب سفارت کاری تھی۔ اعتماد سازی کا یہ سلسلہ بمبئی حملوں کی نظر ہو گیا۔ گیلانی اور من مون سنگھ کے درمیان2010میں بھوٹان ملاقات کے بعد دوطرفہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔
یہ سلسلہ حالیہ برسوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے تعطل کا شکارہوتا رہا۔ حال ہی میں تعلقات کی کشیدگی اتنی بڑھی کہ بھارت کی طرف سے بالا کوٹ فوجی کاروائی اور پاکستان کی طرف سے جوابی حملوں تک نوبت پہنچی۔۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے تازہ ترین خط ایک ایسے وقت میں لکھا جب بھارت کی نو منتخب حکومت ایک منظم منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں آئینی اور انتظامی تبدیلیوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہے۔
اس منصوبے پر عمل کے لیے بھارتی حکومت کو چھ آٹھ ماہ کا وقت چائیے۔ پاکستان کے پاس بھی کچھ کرنے کے لیَے بس یہی وقت ہے۔ اگر پاکستان اس وقت سے فائدہ اٹھا کر فیصلہ کن مذاکرات نہیں کرتا تو شاید اس باب میں بہت دیر ہو جائے، اور آخری موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ یہ حتمی فیصلے کی گھڑی ہے۔
♦