تحریروتحقیق : پائند خان خروٹی
کائنات کے اسر ار و رموز اور اسی سے متعلق معلومات کے حصول کیلئے انفرادیت کی بجائے اجتماعیت او ر ہمہ جہتی کو اختیار کیاجانا اشد ضروری ہے کیونکہ جان اور جہاں کے درمیان مطابقت پید اکرنے کیلئے اپنی ذات کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ عام طورپر ہم خود کو معلوم یا منکشف دنیاتک محدود رکھتے ہیں جبکہ علم ودانش کے سفر کو جاری رکھنے کیلئے تمام ظہور پذیر ہونے یاممکنہ ذرائع سے نئے علوم کاحصول ضروری ہے ۔ فطرت کی عبادت کی جگہ فطرت پر حکومت کرنے کیلئے ہمیں اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر موجودات اور نئے امکانات سے رشتہ استوار کرنا ہوگا۔
اب یہ بات رو روشن کی طرح عیاں ہے کہ ذہانت اور بلوغت کے عروج تک پہنچنے کیلئے جدلیاتی مادیت سے آشنایت پیدا کیے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اس ضمن میں مارکسی فلسفہ ہی بہتر رہنمائی فراہم کرسکتا ہے ۔’’مارکسی فلسفے سے انسان کو جدلیاتی مادیت اور تاریخی مادیت دونوں کاشعور ملتا ہے ۔ فطرت کے قوانین اور ترقی وارتقاء کے مراحل میں حرکت و نشوونما کے راز ونیاز افشاں ہوجاتے ہیں ۔‘‘(1)۔
سوآفتاب پاس سے ہوکر گزر گئے
ہم بیٹھے انتظار سحر دیکھتے رہے
جہاں تک وقت کے تعین کاتعلق ہے تو عام طورپر حاصل شدہ علم وتجربے کے مطابق ہم آج بھی اس کی پیمائش کیلئے گھڑی ، کیلینڈر اور دیگر جدید آلات کا سہارالیتے ہیں جس کو علم وسائنس کی دنیا میں(ہارولوجی) بھی کہاجاتا ہے ۔ وقت کے اس طرز پیمائش کو جاگیردارانہ او ر سرمایہ دارانہ نظام کے عروج خاص طور پر صنعتی انقلاب کے بعد محنت کش طبقے کے خون چوسنے ، محنت چھپنے اور ان پر حکمرانی برقرار رکھنے کیلئے استعمال کیاجاتا رہا ۔
علم وفلسفہ میں وقت کو بیان کرنے کیلئے سائنس دانوں اور مفکروں نے دوطریقے رائج کیے ۔ پہلے طریقے کے مطابق وقت کو تین اداور یا زمانوں میں تقسیم کیاگیا جسے ماضی ، حال اور مستقبل کانام دیاگیا ۔ بعد ازاں کچھ اور مفکروں اور سائنسدانوں نے اس امر پر اصر ار کیا کہ وقت سیل رواں کے مانند ہے اس لئے وقت کو خانوں میں تقسیم کیاجانا مناسب نہیں ہے ۔ دوسرا نقطہ نظر پہلے سے متصادم نہیں بلکہ اس کے تسلسل اور تفصیل کے زمرے میں آتا ہے ۔
ان کاستدلال یہ ہے کہ وقت چونکہ جامد چیز نہیں ہے اس لیے کسی کاماضی دوسرے کاحال اور تیسرے کامستقبل ہو جاتا ہے ۔ زمان ومکان کے حوالے سے فلسفہ ا ورسائنس میں نمایاں ترین شخصیات یونانی فلاسفر آرسطو، جدید طبعیات کے بانی گیلیلو گیلیلی اور برطانوی سائنسدان
سرآئزک نیوٹن تک اس بات پر متفق ہیں کہ زمان ومکان نہ صر ف دو الگ الگ چیزیں ہیں بلکہ دونوں مطلق حیثیت
(Absolute Time & Absolute Space) کے حامل ہیں اور انسان ان دونوں سے گزرجاتا ہے ۔ اس کاذکر اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب
میں یوں کیا ہے ۔
“Both Aristotle & Newton believed in absolute time.That is,they believed that one could unambigously measure the interval of time between two events, and that this time would be the same whoever measured it, provided they used a good clock. Time was completely separate from & independent of space.”(2)
جدید سائنس کی اہم شخصیات البرٹ آئن سٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ نے اس مفروضے کو مسترد کردیا ۔ ان کاکہنا ہے کہ زمان ومکان کو مطلق اور حتمی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ میلنیم کے سب سے بڑے سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کوکلیدی اہمیت حاصل ہے جو آج بھی موضوع بحث ہونے کے باوجود پوری طرح سے مؤثر اور متعلق ہے ۔ آئن سٹائن کانظریہ اضافت انسانی فکر اور رویے میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث بنا ۔ 1905ء میں آئن سٹائن نے اپنا معروف نظریہ اضافت خصوصی (Special Theory of Relativity)متعارف کرایا جو روشنی کی رفتار سے متعلق ہے جبکہ 1915ء میں عمومی نظریہ اضافت (General Theory of Relativity) کو متعارف کرایا جو کشش ثقل کی وضاحت کرتا ہے ۔
زمان ومکان کاموضوع کئی پہلوئوں کے حوالے سے آج بھی توجہ طلب ہے ۔ وقت محض ایک لفظ نہیں بلکہ یہ نیچرل اور سوشل سائنسز میں بطور اصطلاح استعمال ہوتا ہے ۔ سائنس میں اس کی پیمائش ڈائمنشن کے طو رپر ، فلسفہ میں فکر (آئیڈیا) اور فزکس میں د و واقعات کے
(E= MC2)درمیان وقفہ کے طو رپر کی جاتی ہے ۔آئن سٹائن کی مساوات
جس میں مادہ اور توانائی کاآپس میں تبدیل ہونے کوممکن بتایا گیا ۔
دنیا بھر کے علمی حلقوں میں زبان زد عام ہے ۔ وقت کو حرکت اور مکان کومادے کانام دینے کے باوجود وہ معروضی حقیقت ہی رہتی ہے ۔’’ وقت ایسی تجرید ہے جو نہ دیکھی جاسکتی ہے نہ سنی یاچھوئی جاسکتی ہے اور اس کااظہار صرف اضافی اعتبار سے بذریعہ پیمائش ہی ہوسکتا ہے ، پھر بھی ایک معروضی مادی عمل سے عبارت ہے ۔‘‘(3) ۔
آئن سٹائن کے اس سائنسی تھیوری کے مطابق زمان ومکان دو علیحدہ علیحدہ حقائق نہیں ہیں بلکہ ایک ہی حقیقت یعنی اسپیس ٹائم کے دو رخ ہیں ۔ آئن سٹائن نے یہ وضاحت بھی کی کہ زمان ومکان سمیت کسی شے کو مطلق یاحتمی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔نظریہ اضافت میں اشیاء کے درمیان تضاد اورتعلق کاتصور اور ان کے مابین باطنی یا اندرونی ربط اشتراکی مفکر اعظم کارل مارکس کے جدلیاتی فلسفہ سے مکمل مشابہت رکھتے ہیں ۔ جدلیات کے بابا یونانی فلاسفر ہیریکلائٹس سے لیکر کارل مارکس تک جتنے حقائق سامنے آئے ہیں اعلیٰ ترین سائنسی ترقی نے ان کی تصدیق کی اور آج اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑیگا کہ جدلیاتی اصولوں کو پیش نظر رکھے بغیر ہم انسان اور کائنات کے رشتے ، اتحاد اور تضاد سے متعلق پہلوئوں کی در ست اور مصدقہ تفہیم حاصل نہیں کرسکتے ۔
بعض مذہبی عناصر حضرت عیسیٰ ؑ کے سلامت اٹھائے جانے یامعراج سے متعلق واقعہ کو سائنسی تناظر میں ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظریہ اضافت فلسفہ جدلیات اور تاریخی مادیت کے ٹھوس اصول سے وابستہ ہے اور تمام مظاہر کی تشریح سائنسی طرز فکر کو مکمل طورپر اختیار کرنے سے کی جاسکتی ہے ۔ جزیات کو صرف اپنے مؤقف کودرست ثابت کرنے کیلئے اپنانا آدھے سچ پر اکتفا کرنے کے مترادف ہے ۔ پورا سچ ، پورے اصول کواختیار کرکے حاصل کیاجاسکتا ہے اس لئے سائنسی علم و تحقیق میں مذہبی کتابوں کاحوالہ کبھی نہیں دیاجاتا ہے جبکہ مذہب کے حقانیت کو ثابت کرنے کیلئے سائنسی علم وتحقیق کو مستعار لیاجاتا ہے اور مذہبی لکھاری اقرار کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں ۔
دنیا اور اس سے متعلق معلومات کے حصول کیلئے صرف دو ہی نقطہ ہائے نظر سے انسانی تاریخ واقف ہے ۔ ایک کو مابعد الطبعیاتی اور دوسرے کو مادی نقطہ نظر کہاجاتا ہے لہذا واقعات کو جاننے ، جانچنے اور سمجھنے کیلئے ان میں کسی ایک نقطہ نظر کو کھلی طو رپر اختیار کیاجانا ضروری ہے ۔ سائنس وفلسفہ میں انسانی ترقی کے صدیوں کے سفر نے مادی نقطہ نظر کی برتری اورسچائی کی واضح طو رپر توثیق کی ہے ۔ ’’جدید سائنس نے روایتی مابعد الطبعیات کی ازلی وابدی قدروں کی نفی کی ہے اور یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے کہ کائنات افلاطون کے عالم مثال کی مانند جامع یاٹھوس نہیں ہے بلکہ حر کی اور تغیر پذیر ہے ۔‘‘(4)۔
یہ کنارہ چلا کہ نائو (کشی) چلی
کہیئے کیا بات دھیان میں آئی؟
میں اکثر شاعر وادیب حضرات کو چھیڑتا رہتا ہوں اوران کو کہتا ہوں کہ شعروادب کی زبان حقیقت کی زبان نہیں ہوتی اور آپ حضرات سیاسی و ادبی نظریات کو سمجھنے کی بجائے لفاظی اور جملہ بازی میں قارئین کو اُلجھا دیتے ہوں ۔ آپ حضرات معاشرے کے ترجمان ہونے کی بجائے محض اپنے ذاتی جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں ۔ شاعر یا ادیب اس وقت اپنے پائوں پر کھلاڑی مارتا ہے جب وہ بالا دست اور زیر دست کی جنگ میں غیر جانبدار ی کااظہار کرتا ہے اور زیارکشوں اور کاشتکاروں کی جنگ کو اپنی جنگ نہ سمجھنے سے وہ آفاقیت کے ثمرات سے محروم ہوجاتا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا شاعر صدیوں بعد بھی یاد سے گزرکر یار تک نہیں پہنچ پاتا ۔
وقت تیرا بھی گزرا ، وقت میرا بھی گزرگیا
بس کسی کی عید گزری ، کوئی عید پر گزرگیا
تاہم اردو کے معروف انڈین شاعر جاوید اختر کی شاہکار نظم بعنوان ’’وقت کیا ہے‘‘ نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ کس طرح انہوں نے زمان ومکان سے متعلق نظریہ اضافت کو اپنی شاعری میں سمویا ہے ۔ ہمارے ہاں تو سب ذلف ،گل اوربلبل کی تشریحات میں غرق ہیں ۔ سائنسی نظریہ وفلسفہ کو شا عری کی زبان میں یوں آسان اور سادہ الفاظ میںبیان کیا ہے جن کو داد دیئے بغیر کوئی رہ نہیں سکتا ہے ۔ جاوید اختر کی شاعری کاسوالیہ انداز قاری کو لاجواب کردیتا ہے ۔
یہ وقت کیا ہے؟ یہ کیا ہے جو مسلسل گزر رہا ہے؟
یہ جب نہ گزرا تھا تب کہاں تھا؟ کہیں تو ہوگا؟
گزرگیا تو اب کہاں ہے؟ کہیں تو ہوگا ؟
کہاں سے آیا کدھرگیا ؟
یہ کب سے کب تک کاسلسلہ ہے؟ یہ وقت کیا ہے؟(5)۔
دیگر تمام اشیاء کی طرح حرکت اور سکونت پر بھی نظریہ اضافت کااطلاق ہوتا ہے ۔ یہ بجائے خود بھی مطلق نہیں ہیں ۔ حرکت کو سکونت ا ور سکونت کو حرکت کے حوالے سے ہی سمجھا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر کسی بھی شاپنگ سنٹر یاایئرپوٹ میں ایسکلیٹرپر اوپر نیچے کی جانب سے جانے والا شخص ارد گرد یکھنے والے کو حرکت کرتا ہوا نظرآتا ہے ۔ جبکہ اسی وقت وہ ایک جگہ رُکا ہوا بھی ہوتا ہے ۔ اسی طرح اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق آسمان پر بظاہر نظرآنے والے ستارے ہمیںرکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ حقیقت میںوہ مسلسل حرکت میں ہوتے ہیں۔۔ یعنی متحرک اور ساکن یاحرکت ا ور سکونت ایک ساتھ وجود رکھتے ہیں ۔
آئن سٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنسدان جس نے نظریہ اضافت کے اصولوں کو آگے بڑھایا اور بعض حوالوں سے اس میںضافہ کیا وہ اسٹیفن ہاکنگ ہے ۔ اسٹیفن ہاکنگ نے کائنات کے تمام امور کو دیکھنے ،جاننے اور پوری طرح سمجھنے کی کوشش کی جس میںوہ کافی حد تک کامیاب رہا ۔ بگ بینگ، بلیک ہول اور کا سمولوجی کی وسعت کے حوالے سے تلاش وجستجو کے نئے دروازے کُھل گئے ۔ اس ضمن میں نئے سوالات اٹھانے سے جدلیاتی مادیت کو فروغ ملا اور انسانی عقل کی بالا دستی کیلئے راہ ہموار ہوگئی ۔ ا گرچہ علم الطبعیات اور علم کائنات ایک نئے پڑائو میںداخل ہوگیا لیکن پھر بھی انسان کاعلم ارتقاء پذیر ہے ۔ اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق کائنات کوزمان ومکان سے ماورا ہوکر سمجھنا ممکن نہیں ۔ا نہوں نے دوسری اہم بات یہ کی کہ کائنات جامد اور غیر متغیر نہیں ہے بلکہ مسلسل پھیلتا اور سُکڑتا رہتا ہے ۔
نظریہ اضافت کو نیچرل اور سوشل سائنسز میں سمجھنے کیلئے کارل مارکس کافلسفہ جدلیات کو جاننا لازمی ہے ۔ جدلیات کے مطابق تمام چیزیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں ۔ ہر چیز حرکت میںہوتی ہے اور تغیر پذیری اس کالازمی وصف ہے ۔ لہذا کوئی چیز مطلق اور حتمی نہیں ہوتی ۔
حوالہ جات:۔
۔1۔ پائند خان خروٹی ،مقالہ ، ’’مارکسزم ، تین ذرائع اور تین اجزائے ترکیبی‘‘۔ 2018ء
2. A Brief History of time by Stephen Howking,1995,( From the Big Bang to Black Holes) page-20
۔3۔ ایلن وڈز ، ٹیڈگرانٹ ، مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس، ناشرطبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز لاہور،2012، ص۔226
۔4۔ سید علی عباس جلالپوری ، روح عصر ، ناشر تخلیقات، لاہور ، 2013، ص ،204
۔5۔ جاوید اختر، شاہکار نظم ، ’’وقت کیا ہے؟ ‘‘ ، آن لائن انٹرنیٹ