ظفر آغا
سنہ 1857 مغلیہ سلطنت کا زوال، سنہ 1947 ہندوستان کا بٹوارا اور قیام پاکستان، سنہ 1992 بابری مسجد کا انہدام اور مسلم کش فسادات، سنہ 2002 میں گجرات فسادات میں کھلے بندوں مسلم نسل کشی، اس سے قبل مراد آباد و ملیانہ جیسے فسادوں کی جھڑی، سنہ 2014 میں گجرات کے ’ہندو دلوں کی دھڑکن‘ نریندر مودی کا ہندوستانی سیاست میں عروج اور اب 2019 میں مودی کی دوسری فتح اور ہندو راشٹر کا قیام۔ آخر کتنے المیوں کا ماتم ہو یہاں۔
حیرت اس بات کی ہے کہ اتنی قیامتیں گزرنے کے باوجود ہندوستانی مسلمان آج بھی گہری نیند میں غرق ہیں۔ کسی قوم کے زوال (2019-1857) کو ڈیڑھ سو سال گزرنے کے بعد بھی اگر وہ قوم نہ جاگے تو یہ حیرت ناک بات نہیں تو اور کیا ہے! مغلیہ سلطنت کے زوال سے اب تک کوئی کوشش کوئی جستجو نہیں کہ کس طرح آگے بڑھا جائے۔
پورے ڈیڑھ سو سال میں صرف ایک بڑی تحریک پاکستان، جس نے برصغیر ہندوستان کے مسلمان کو تین ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کو ہر جگہ لاچار کر دیا۔ کتنی دور اندیش تھی یہ تحریک کہ پاکستانی مسلمان امریکہ اور چین کی دی ہوئی امداد پر زندہ ہیں۔ بنگلہ دیشی مسلمان کی جو گَت ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ ہندوستان میں باقاعدہ ہندو راشٹر کے ساتھ دوسرے درجے کی شہریت ہی مسلمان کا اب مقدر ہے، یہ ہے جناح صاحب کا کمال!۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس ملک کے مسلمان کی آنکھیں کیوں نہیں کھلتیں، اس کو ترقی کی کوئی جستجو کیوں نہیں پیدا ہوتی۔ اگر کبھی کبھار اس کو جوش آتا ہے تو بس بابری مسجد اور مسلم پرسنل لاء جیسے ایشوز پر جوش آتا ہے جس کی قیادت سیدھے یا پیٹھ پیچھے علمائے دین کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ آخر اس اکیسویں صدی میں بھی مسلم قیادت علماء کے ہاتھوں میں ہی کیوں ہے! آج بھی ٹی وی مباحثوں میں مسلم نما شکل بنا کر گھٹیا باتیں بول کر پوری قوم کو ذلیل و خوار کروانے والے یہ خود ساختہ مسلم قائدین مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ آخر کیوں۔
قوموں کے عروج و زوال کے بھی تاریخی اسباب ہوتے ہیں۔ یہی وہ مسلم قوم ہے جو رسول ؐ کے پردہ فرمانے کے فوراً بعد نصف انیسویں صدی بلکہ 20 ویں صدی کے اولین دور تک دنیا پر غالب تھی۔ مسلم تہذیب کے عروج کا یہ عالم تھا کہ یورپ میں اسپین، اٹلی، فرانس اور ادھر پورے ایشیا اور تقریباً افریقہ کے ہر حصے پر اسی تہذیب کا ڈنکا بجتا تھا۔ وہ مغربی تہذیب جس کا آج دنیا میں ڈنکا بج رہا ہے، وہ کبھی مسلم تہذیب کے آگے سرنگوں رہتی تھی۔ لیکن آج ساری دنیا میں مسلمان امریکہ کے آگے سرنگوں ہے یا کسی اور کے ہاتھوں غلام ہے۔
آخر یہ عروج کیوں تھا اور پھر یہ زوال کیوں ہے! جہاں تک مسلم عروج کا تعلق ہے تو اس کا سہرا صرف ایک شخصیت کو جاتا ہے جس کا نام محمدؐ عربی ہے۔ رسولؐ عربی نے ساتویں صدی عیسوی میں جو نظام قائم کیا وہ اپنے دور کا جدید و ترقی یافتہ نظریہ کا مالک نظام تھا کہ جس نے ساری دنیا میں مسلمانوں کا ڈنکا بجوا دیا۔
اسلام دنیا کا وہ پہلا نظام حیات تھا جس نے اپنے دور میں انسانی اخوت یعنی برابری، حقوق نسواں اور مدینہ کی ریاست کے ماڈل پر ایک ایسا منظم ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور دیا جس کی مثال دنیا میں اس سطح پر پہلے کہیں نہیں ملتی ہے۔ بس اس نظریہ کی بنیاد پر جو تہذیب قائم ہوئی اس نے عالم انسانیت کو اس قدر بااختیار کر دیا کہ جس نے اسلام اور مسلمان دونوں کو دور وسطیٰ کا سپر پاور بنا دیا۔
رسول کریم کا اسلام ایک دین کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ تحریک بھی تھی۔ لیکن آپؐ کے پردہ فرمانے کے 100 سال کے اندر وہ تحریک ایک شہنشاہی نظام میں تبدیل ہو گئی۔ شام، بغداد، ترکی اور ہندوستان میں جو خلافتیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں وہ شاہی نظام زیادہ اور اسلامی تحریک نام کو رہ گئی تھیں۔ بس بنیادی اسلامی نظام کا کچھ عکس صوفی خانقاہوں میں کسی حد تک بچا تھا جو خود بھی بعد کو ایک نئے نظام میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔
الغرض رسول کا تصور اخوت یعنی انسانی برابری (بلا امتیاز نسل، قوم و زبان)، حقوق نسواں اور ویلفیئر اسٹیٹ کا نظام و پیغام سکڑ کر آہستہ آہستہ ایک شاہی نظام میں تبدیل ہو گیا۔ حد یہ ہوئی کہ اس نظام میں بادشاہ ظل الٰہی ہو گیا اور اسلام کے نام پر بادشاہ کے سیاہ و سپید کو جائز قرار دینے کے لیے ایک علماء کا گروہ پیدا ہو گیا جس نے شریعت کی آڑ میں شاہی یعنی زمیندارانہ نظام و قدروں کو اصل اسلام کا رنگ و روپ دے دیا۔
یعنی اسلام نے جس اخوت و برابری، حقوق نسواں اور ویلفیئر اسٹیٹ جیسے انقلابی تصور کو جنم دیا تھا وہ سمٹ کر ایک زمیندارانہ نظام کی شکل میں تبدیل ہو گیا۔ اس نظام میں زمیندار یا بادشاہ یا قبائلی سردار مالک اور باقی سب دوسرے درجے کے شہری (خواہ وہ مسلمان کیوں نہ ہوں) ہو گئے۔ حد تو یہ ہوئی کہ جس محمود و ایاز کی برابری پر علامہ اقبال نے فخر کیا وہ انسانی برابری محض مسجد کی نماز کی صفوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔
بس اس نظام میں اقتدار پر زمیندارانہ و قبائلی گروہ کا قبضہ ہو گیا جس کا مسلم معاشرے میں ڈنکا بجنے لگا۔یعنی 19ویں صدی آتے آتے رسول کریمؐ کا نظام بدل کر شاہی یا زمیندارانہ نظام ہو چکا تھا جس میں اب انسانی اختیارات کے راستے محدود ہوتے جا رہے تھے۔
اس کے برخلاف نصف اٹھارہویں صدی سے یورپ انگڑائی لے رہا تھا۔ سائنس اور انڈسٹری کی ایجاد سے پہلے یورپ نے ایک نئی معیشت کو جنم دیا جس نے یورپ میں 1789 میں فرانس جیسا انقلاب بپا کر دیا جس نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ انسانی اخوت و برابری کا نعرہ جس کے موجد محمد مصطفی صلعم تھے اب وہی نعرہ فرانس میں پیرس کی سڑکوں پر گونج رہا تھا اور فرانس سے لے کر یورپ کے تمام ممالک میں شاہی نظام کے خلاف تحریکیں کھڑی ہو رہی تھیں اور یورپ میں شاہی نظام کے خاتمے کے ساتھ جمہوریت کے لبادہ میں ایک نیا نظام جنم لے رہا تھا جو انسانیت کو اب نئے طرز پر بااختیار بنا رہا تھا۔
یہی سبب ہے کہ نصف انیسویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے زوال سے لے کر سنہ 21-1920 میں ترکی خلافت کے زوال تک آہستہ آہستہ مسلم تہذیب دم توڑ رہی تھی (کیونکہ اس تہذیب کا رسولؐ کی اسلامی قدروں سے کوئی ناطہ نہیں تھا) اور دوسری طرف یورپ ایک نئی تہذیب کے ساتھ انسانی ترقی اور اختیارات کا نیا ماڈل پیش کر رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ مسلم تہذیب کا زوال ہوا جو آج بھی جاری و ساری ہے، جس کے نتائج اب ہم ہندوستانی مسلمان بھی جھیل رہے ہیں اور آج بھی غفلت میں ہیں۔
اس غفلت و تباہی کے دو اہم اسباب ہیں۔ اول تو یہ کہ جب کوئی قدیم تہذیب کسی نئی تہذیب سے پسپا ہو جاتی ہے تو پرانی تہذیب نئی تہذیب کی افضلیت جلد تسلیم نہیں کرتی ہے۔ یہ وہی نفسیاتی گرہ ہے جو پرانے رئیس اور نئے رئیس کے درمیان پیدا ہو جاتی ہے۔ مسلم تہذیب کا کوئی سات آٹھ سو سال میں دنیا میں ڈنکا بجا۔ خود مغرب کی اس کے آگے حیثیت نہ تھی۔
جب مغرب ترقی پذیر ہوا تو اہل اسلام نے مغرب کی سائنس و انڈسٹری کی ترقی اور اس پر مبنی جمہوری، سیاسی و معاشی نظام کو اپنی زمیندارانہ (اسلامی نہیں) قدروں پر مبنی نظام سے اوچھا سمجھا۔ اور عالم اسلام کے طول و عرض میں نصف انیسویں صدی سے تقریباً اب تک یہ نعرہ اٹھ رہا ہے کہ ہم کو مغربی قدریں تسلیم نہیں۔ آہستہ آہستہ اس نعرے کے علمبردار علماء کرام بن گئے جو خود کو شریعت کا محافظ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ مسلم سیاست پر بھی ان کی گرفت ہوتی چلی گئی۔
جیسا کہ ہندوستان میں تحفظ بابری مسجد و پرسنل لاء تحریکوں کے درمیان ابھر کر سامنے آیا۔ آج یہ وہی گروہ جدید سیاسی تقاضوں سے بے بہرہ ٹی وی مباحثوں میں ہندوتوا طاقتوں کو قوت بخش رہا ہے، کیونکہ وہ جدید دنیا اور اس کے سیاسی تقاضوں سے بے بہرہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسے عناصر مسلم قوم کے قدموں کی زنجیر بن گئے ہیں اور ان سے نجات کے لیے مسلم معاشروں میں ایک سماجی انقلاب کی ضرورت ہے۔
اس لیے ہندوستانی مسلمان کو صرف ایک سر سید ہی درکار نہیں بلکہ خود کو ایسے نام نہاد مسلم گروہوں سے جو بے وجہ اسلام کے نام پر گمراہ کن سیاست کرتے ہیں، ان سے بھی نجات کی ضرورت ہے۔ سر سید کی جدید تعلیم کا راستہ بھی تب ہی ہموار ہوگا جب مسلم قوم ذہنی اور نفسیاتی طور پر مغرب سے بے معنی الجھے تہذیبی تصادم سے خود کو نجات دلوا سکے۔ اور یہ نجات شریعت کے نام نہاد محافظوں کے ہاتھوں نہیں بلکہ ایک جدید قیادت کے ہاتھوں ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ کیا مودی کے ہندو راشٹر میں ہندوستانی مسلمان اس تاریخی تبدیلی کے لیے تیار ہے! اگر نہیں تو یہ غلامی کا دور ڈیڑھ سو برس اور کیا، پتہ نہیں کب تک اور جاری رہ سکتا ہے۔۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا