شہزادعرفان
ایک مرتبہ بہاولپور کے آٹورکشہ کے پیچھے لکھا دیکھا کہ ” میں بڑا ہوکر ٹرک بنوں گا” ۔۔۔۔۔۔۔ایک رکشے کی یہ خواہش دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس کا مالک باوجود غربت کے ترقی کی امید رکھتا ہے۔
مرغی انڈوں اور کھوتے پال سکیم سے معاشی ترقی کا راز پالیا ، دوسری جنگ عظیم اوردنیا کی تاریخ سُن لی، جرمنی جاپان کا جغرافیہ کا علم حاصل کر لیا، تاریخ اسلام میں جنگ بدر اور جنگ احد کی اسلامی تاریخ اورعقیدہ سُن لیا، باپ جیسی شفیق حکومت اور اور ماں جیسے ممتا ریاست تو بھوگ ہی رہے ہیں اور آج لٹریچر کی ماں بہن بھی ایک ٹویٹ میں پوری کردی ۔
جی ہاں ۔۔۔۔ اپنے ہینڈی وزیر اعظم عمران خان کا فلسفہ اور ادب سے اتنا گہرا لگاؤ ہے کہ اس نے بنگالی نوبل انعام یافتہ ادیب فلسفی رابندر ناتھ ٹیگور کا قول خلیل جبران کے نام سے ٹوئٹ کردیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ “خلیل جبران کے ان الفاظ کی دانائی کو سمجھنے والے پُرسکون زندگی گزارنے میں کامیاب رہتے ہیں“۔
وزیراعظم نے رابندر ناتھ ٹیگور کا قول خلیل جبران کا قول سمجھ کرپوسٹ کیا جس میں کہا گیا ہے کہ” میں جو سوتا ہوں اور جو خواب دیکھتا ہوں یہ سب کچھ زندگی کی خوشیاں اور شادمانی ہے، اور جب میں جاگتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ زندگی دراصل خدمت کا نام ہے۔ اور جب میں خدمت کرتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ زندگی کی اصل خوشی خدمت ہے“۔
مجھے یقین ہے کہ یہ رکشہ جب بھی بڑا ہوگا کم از کم ٹرک نہیں بن سکتا جو اپنے ملک اور قوم کا نام روشن کرسکے۔ لاعلم یا کم علم کہیں مگر اس بے چارے نے اسلامی اخوت و محبت اور جنون میں آکر جس عظیم لبنانی شاعر،ادیب، مصور، فلاسفر کو مسلمان سمجھ کر پوسٹ لگادی وہ تو نہ صرف عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا بلکہ وہ تو لادینیت کا پیروکار ہے اور جس اقوال زریں کو قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے استعمال کیا وہ تو بنگالی نکلا وہ بھی ہندو۔۔۔۔۔۔
اب تو یقیناََ صاحب لوگ سخت ناراض ہوسکتے ہیں کیوں کہ یہی وہ رابندرناتھ ٹیگور ہی تو ہے جس نے ہندوستان میں مقامی ہونے کی دلیل پیش کی، قوم پرست فلسفہ کی بنیاد ثقافت، زبان، آرٹ، ادب اوردھرتی کی تاریخ و تہذیب پر استوار کی جسکا کا یہ فلسفہ ویسٹ بنگال سے ہوکر ایسٹ بنگال یعنی بنگلہ دیش پر آکر رکا تو صاحب کا غصہ بجا ہوگا۔
منہ سے نکلے الفاظ اور انٹرنیٹ کی دنیا میں اپنے اکاؤنٹ سے بھیجا گیا ٹویٹ کسی صورت واپس نہیں ہو سکتے۔ اس وقت اگر کوئی “عمران خان” گوگل سرچ بار میں لکھے تو سب سے پہلے یہ خبر اور ٹویٹ نمودار ہوتی ہے پھر جسے نہیں بھی علم وہ باخبر ہوجاتا ہے کہ ہمارا وزیراعظم کتنا بڑا دانشور بھی ہے ۔
♦