سیلین گیریت
میروے ترکی کے ایک پرائمری سکول میں پڑھاتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اسلام پر اُن کا یقین شدت پسندی کی حد تک تھا۔ استنبول کے ایک کیفے میں بیٹھے ہوئے انہوں نے اپنے سر پر اوڑھے سرخ حجاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’صرف یہ چیز رہ گئی ہے جو مجھے اسلام سے جوڑے ہوئے ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ میں نے کبھی کسی مرد کے ساتھ مصافحہ نہیں کیا تھا۔ لیکن اب میں یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ خدا کا وجود ہے یا نہیں، ویسے اب مجھے اس کی پرواہ بھی نہیں ہے“۔
ایک دن میروے کے لیے سب کچھ بدل گیا، جاگنے کے بعد وہ شدید مایوسی کی حالت میں تھیں۔ کافی گھنٹے رونے کے بعد انہوں نے عبادت کا سوچا ۔ جب وہ نماز پڑھ رہی تھیں تو انہیں یہ جان کا شدید جھٹکا لگا کہ اُن کا خدا کے وجود پر یقین اٹھ چکا ہے۔ اُن کا کہنا تھا۔ ” مجھے لگا کہ میں پاگل ہو رہی ہوں یا مجھے خود کشی کر لینی چاہیئے، اگلے دن مجھے احساس ہوا کہ میں اپنا ایمان کھو چکی ہوں۔
میروے اکیلی نہیں ہیں۔ ایک پروفیسر کے بقول درجن سے زیادہ اُن کی شاگردہ ایسی ہیں جو حجاب استعمال کرتی ہیں لیکن انہوں نے پروفیسر کو بتایا ہے کہ وہ پچھلے ایک آدھ سال سے ملحد ہو چکی ہیں۔
بیکیر (باقر) دینیات کے طالبعلم ہیں۔
” ابھی کل کی بات ہے کہ میں داعش اور القاعدہ کا حامی تھا۔میں داعش کی اسلامی حکومت کو حمایت کرتا تھا، لیکن ظلم بغاوت کو جنم دیتا ہے۔ انہوں نے ہمیں دبانے کی کوشش کی اور ہم نے اپنا رد عمل دیا۔ میں نے پہلے پہل کوشش کی کہ اسلام میں کچھ منطقی پن ڈھونڈ پاؤں لیکن ناکام رہا۔ پھر میں نے خدا کے وجود پر سوچنا شروع کر دیا ۔آج میں ایک ملحد ہوں“۔
صدر ریجیپ طییپ ایردوان کی جماعت پچھلے سترہ سال سے اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔اس عرصے کے دوران مذہبی ہائی سکولوں اور مدرسوں کی تعداد ملک بھر میں دس گنا بڑھ چکی ہے۔ صدر کئی بار ان خیالات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ ملک میں ایک پارسا نسل پیدا کرنا چاہ رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے سیاستدان اور علماء بھی اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں کہ کیا پارسا نوجوان مذہب سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔
لیکن ہر کوئی الحاد کی طرف گامزن نہیں ہے۔ کافی لوگ ربوبیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ربوبیت کا ماخذ یونانی ثقافت ہے۔ اس کے ماننے والے خدا پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن وہ تمام مذاہب کو رد کرتے ہیں۔ ربوبی فلسفے کے مطابق خدا نے کائنات اور مخلوق کو تخلیق کیا لیکن خدا کائنات یا انسانوں کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی خدا نے کائنات کے لیے اصول و قوانین طے کیے ہیں۔
قونیہ جو ترکی کا سب سے زیادہ قدامت پرست شہر ہے، حزب اختلاف کے ایک اخبار کے مطابق وہاں کے مذہبی ہائی سکولوں کے طلبا ء میں ربوبی سوچ عام ہو رہی ہے۔ اسلام سے دوری کی وجہ اُن کے نزدیک اسلام تعلیمات کے اندرونی تضادات ہیں۔
ترکی کے وزیر تعلیم عصمت یلماز کے بقول قونیہ کے مدرسے کے متعلق دعوے سچے نہیں ہیں۔ اور انہوں نے اس رپورٹ کو رد کیا ہے کہ پارسا نسل اپنا راستہ تبدیل کر رہی ہے۔ گو اس حوالے سے کوئی ایسی مستند تحقیق نہیں ہے کہ مذہب سے دوری کا رویہ کہاں تک پھیل چکا ہے لیکن جس قدر شواہد نظر آتے ہیں وہ سیاسی راہنماؤں کو فکرمند کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ترکی کے ایک بڑے عالم اور محکمہ مذہبی امور کے راہنما علی ایرباس نےنوجوانوں میں الحاد اور ربوبیت کی قبولیت کے دعوے کو رد کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے ”ہماری قوم اس قسم کے فضول اور کھوکھلے تصور کو کبھی قبول نہیں کرے گی“۔
دینیات کے پروفیسر ہدایت آئیبار اس بات کو رد کرتے ہیں کہ طالبعلموں کا رجحان ربوبیت کی طرف ہے۔ اُن کا کہنا ہے:۔
” میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے قدامت پرست نوجوان طبقے کا رجحان ربوبیت کی طرف نہیں ہے۔ ربوبیت اسلامی اقدار کو رد کرتی ہے، یہ قرآن کو رد کرتی ہے، یہ پیغمبر کو رد کرتی ہے۔ یہ جنت اور جہنم ، فرشتوں اور حیات بعد الموت کو رد کرتی ہے۔ یہ اسلام کے ستون ہیں۔ ربوبیت صرف خدا کے وجود کو تسلیم کرتی ہے“۔
یونیورسٹی کی طالبعلم لیلیٰ کا کہنا ہے۔“ ایک دن میں مارکیٹ جانے کے لیے سڑک سے گزر رہی تھی ۔ میں نے اپنا حجاب اتار دیا اور اُسے دوبارہ نہیں اوڑھا۔ میرے باپ کو علم نہیں کہ میں ربوبی ہوں۔ اگر اُسے پتہ چل جائے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ میری چھوٹی بہن کو کالج بھیجنے سے انکار نہ کر دے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ کہے ”تمہاری بڑی بہن یونیورسٹی گئی اور دیکھو اس کا کیا نتیجہ نکلا؟“۔ میں نے خدا سے التجا نہیں کی کہ وہ مجھے تخلیق کرے، چنانچہ وہ مجھ سے جواب طلبی کا بھی مجاز نہیں۔ مجھے حق ہے کہ میں ایک پرندے کی مانند آزاد زندگی گزاروں“۔
عمر ایک سول سرونٹ تھے جو اب بے روزگار ہیں۔
”میں ایک پبلک ورکر ہوا کرتا تھا۔ 2016ء کی بغاوت کے نتیجے میں مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ میں انتہائی مذہبی اور قدامت پرست ہوا کرتا تھا جو حکومتی جماعت اور اس کی پالیسیوں کا زبردست حامی تھا۔ جب مجھے کام سے نکالا گیا تو میں نے خدا کے وجود پر سوچنا شروع کر دیا۔ مجھے خدا سے بیگانگی کا احساس ہوا۔ میں اپنے آپ کو ابھی تک ربوبی نہیں سمجھتا۔ مجھے امید ہے کہ میں اسلام سے اپنا رشتہ دوبارہ استوار کر پاؤں گا۔ لیکن میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اب ایسا ممکن ہے یا نہیں۔
ترکی ملحدین کی واحد تنظیم کے نمائندہ سانر عتیق کے بقول پروفیسر آئیبر موجودہ صورت حال کے متعلق غلط دعویٰ کر رہے ہیں۔ ان کے بقو ل ترکی میں ایسے امام مسجد تک موجود ہیں جو در حقیقت ملحد ہیں۔
”یہاں ٹی وی پروگراموں میں ملحدین کا ذکر ہوتا ہے جس میں کچھ لوگ اس مسئلے کا حل ملحدین کو قتل کرنے کا حل بتاتے ہیں۔ کچھ ملحدین کے ٹکڑے کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان حالات میں اپنے الحاد کا اقرار کرنے کے لیے بہت زیادہ جرأت درکارہے۔ یہاں ایسی برقع پوش ملحد خواتین بھی ہیں جو خفیہ طور پر اپنے الحاد کا اقرار کرتی ہیں لیکن وہ اپنا برقعہ نہیں اتار پاتیں کیونکہ وہ اپنے رشتہ داروں اور ماحول سے خوفزدہ ہیں“۔
میں دوبارہ میروے سے ملی۔ میرا استقبال کرتے وقت اس کے سر پر حجاب نہیں تھا۔ وہ گھر میں ننگے سر گھومتی ہیں خواہ اس وقت وہاں مرد موجود ہوں۔
”پہلی بار جب میں بغیر حجاب کے ایک مرد سے ملی تو مجھے بہت عجیب محسوس ہوا لیکن اب یہ معمول کی بات بن چکی ہے۔ اب میں ایسی ہو چکی ہوں“۔
♦
نوٹ: اس مضمون میں درج لوگوں کے نام تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔
ترجمہ۔ خالد تھتھال۔