محمد حنیف
کراچی کے نوجوان نے پوچھا کہ سر یہ عمران خان صاحب اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ریلو کٹے کہہ رہے ہیں پہلے جو پی ایس ایل کے لیے باہر سے کھلاڑی آئے تھے اُن کو بھی ریلو کٹا کہا تھا۔ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ پنجابی کا لفظ لگتا ہے۔
میں نے کہا بیٹے جیسے ہم جیسے پینڈو انگریزی کے دو چار جملے سیکھ لیتے ہیں اور موقع محل دیکھ کر انھیں استعمال کرتے رہتے ہیں اِسی طرح خان صاحب جیسے ایچیسن کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل لوگ جب پنجابی کے دو چار محاورے سیکھ لیتے ہیں تو انھیں ہر جگہ فِٹ کر دیتے ہیں۔
ریلو کٹا تو وہ کھلاڑی ہوتا ہے جسے ٹیم کی گنتی پوری کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ اب پاکستان کی ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم میں تو گنتی پوری کرنے والے کھلاڑی نہیں ہو سکتے۔ یقیناً خان صاحب کا مطلب ہو گا ٹیم ایسی سلیکٹ کرو جیسی میں نے سنہ 1992 میں کی تھی اور ورلڈ کپ جیتا تھا۔
یار لوگ خان صاحب کی باتوں میں مین میخ نکالتے رہتے ہیں۔ ویسے خان صاحب بادشاہ آدمی ہیں۔ اُن کی اپنی تاریخ، اپنا جغرافیہ اور اپنی زبان اور اُس زبان کا ایک اچھوتا لہجہ ہے۔
کبھی وہ جاپان کو فرانس کا ہمسایہ بنا دیتے ہیں، کبھی گولان کی پہاڑیاں اپنے فلسطینی بھائیوں کے حصّے میں ڈال دیتے ہیں۔ مدینے کی ریاست انھوں نے ناروے میں ڈھونڈ لی تھی اور گذشتہ ہفتے ہی ہمیں ٹیگور کا قول سنا کر داد خلیل جبران کو دے رہے تھے۔
ہم جیسے نیم پڑھے لکھے لوگ خان صاحب کی کوئی غلطی پکڑ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ ایک مفکر نے کہا تھا ’گل سمجھ آئی کہ نہیں‘ یا جیسا کہ ایک اور مفکر نے کہا تھا ’کی فرق پیندا اے‘۔
میرا خیال ہے کہ انڈیا پاکستان میچ سے پہلے خان صاحب کے ٹویٹ میں ریلو کٹوں کا ذکر پڑھ کر پاکستان کے کپتان سرفراز نے بھی سوچا ہو گا کہ شاید اس میں میرے لیے کوئی خفیہ پیغام ہے اور وہ یہ کہ اگر خان صاحب ریلو کٹوں کی ٹیم کے ساتھ ملک اتنے اچھے طریقے سے چلا رہے ہیں تو میں بھی انڈیا کے مقابلے میں ریلو کٹوں کی ٹیم اُتارتا ہوں۔
خان صاحب کی ٹیم کو دیکھ کر گلی محلوں میں کرکٹ کے میچوں میں اپنی باری کا انتظار کرتے لونڈے بھی اب سوچنے لگے ہوں گے کہ میں بڑا ہو کر ریلو کٹا بنوں گا۔
خان صاحب کی ٹیم کے اوپنر شاہ محمود قریشی ہیں۔ زرداری کی ٹیم میں بھی خارجہ امور کی بھاری ذمہ داری ان ہی کے پاس تھی۔ زرداری کی ساری لوٹ کھسوٹ کے وقت خزانے کے چوکیدار حفیظ شیخ تھے۔ وہ عمران خان کی وکٹوں کی پہرے داری کر رہے ہیں اور بڑی مشکل سے اپنی جمائی کو روک رہے ہیں۔
لیکن سرفراز عمران خان نہیں ہے۔ اُسے پتہ ہونا چاہیے کہ خان صاحب کا ہاتھ جس کے کندھے پر پڑ جائے وہ ریلو کٹے سے چیتا بن جاتا ہے۔ کسی کو یاد بھی نہیں کہ عثمان بزدار کس ٹیم میں تھے آج کل وسیم اکرم پلس ہیں۔
فواد چوہدری نے مشرف کی ترجمانی کی۔ بلاول بھٹو کے اتالیق رہے۔ اب حالانکہ انھیں عمران خان نے باؤنڈری پر فیلڈنگ کے لیے لگایا ہوا ہے لیکن اپیلیں ایسے کرتے ہیں جیسے فرسٹ سلپ پر کھڑے ہوں۔ فردوس عاشق اعوان کبھی جئے بھٹو کے باؤنسر مارتی تھیں آج کل تبدیلی کی گگلی پھینکتی ہیں۔
کوئی بنا سکتا ہے ایسی ٹیم؟ خان صاحب کے ناقد یہ کہیں گے کہ اُن کی ٹیم پاکستان کے ساتھ وہی کر رہی ہے جو کوہلی کی ٹیم نے سرفراز کی ٹیم کے ساتھ کیا۔ یہ لوگ حاسد ہیں اِن کی باتوں میں نہ آئیں کیونکہ ٹیم میں اگر گیارہ کے گیارہ بھی ریلو کٹے ہوں تو بھی کپتان کپتان ہی ہوتا ہے۔
BBC urdu.com