لیاقت علی
پنجاب کے سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کی 180 ویں برسی کے موقع پر لاہور کے شاہی قلعہ میں ان کا مجسمہ نصب کیا گیا ہے۔رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب سے پنجابی کے مٹھی بھر قوم پرست خوشی سے جھوم اٹھے ہیں جب کہ سرائیکی قوم پرستوں نے اس کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا ہے اور کچھ نے تو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کا بھی سہارا لیا ہے۔
رنجیت سنگھ کیا تھا اور کیا نہیں تھا اس بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ وہ اپنے عہد کا بہت سمجھ دار حکمران تھا اور اس نے انتہائی عقل مندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اپنی سلطنت کا وسعت دی اور پنجاب کے عوام جومغل سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ اور سہ حاکمان لاہور کے ظلم و ستم کا شکار تھے کو امن وسکون فراہم کیا تھا۔ رنجیت سنگھ نے چالیس سال تک بڑی کامیابی سے پنجاب پر حکمرانی کی اور شمال سے آنے والے حملہ آوروں کو روک دیا تھا۔
اپنی تمام تر شخصی خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود رنجیت سنگھ ایک فیوڈل حکمران تھا اور اس کی سلطنت ایک فیوڈل ایمپائیر تھی۔ اس میں وہ تمام قباحتیں اور کم زوریاں موجود تھیں جو اس عہد کی فیوڈل ریاستوں کا خاصا تھیں۔ رنجیت سنگھ نے جو سلطنت قائم کی وہ اس کے مرنے کے بعد دس سالوں ہی میں کیوں زمیں بوس ہوگئی اس بارے بھی بہت زیادہ لڑیچر موجود ہے۔ حکمران اشرافیہ کی باہمی سازشوں اور ہوس اقتدار، ایسٹ انڈیا کی ریشہ دوانیوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی وجہ ریاست کو درکار مالی وسائل میں شدید کمی اس کے زوال کا باعث بنی تھی۔
رنجیت کی موت کے بعد پنجاب کی سلطنت کی توسیع کا عمل رک گیا تھا۔ ریاست کو اپنی بقا کے لئے درکار مالی وسائل نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ کسانوں پر اس قدر ٹیکسوں کا بوجھ لاد گیا تھا کہ وہ زمینیں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اس صورت حال میں سکھ حکمران اشرافیہ نے اقتدار کی ہوس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹنے شروع کردیئے اور وہ سلطنت جسے قائم کرنے میں رنجیت سنگھ نے اپنی زندگی کے پچاس سال لگائے تھے صرف دس سالوں میں زمیں بوس ہوگئی۔
رنجیت سنگھ کی شخصیت اور اس کی قائم کی گئی سلطنت ہمارا موضوع نہیں تھا۔میرا موضوع تو رنجیت سنگھ کا مجسمہ اور اس کی شاہی قلعہ لاہور میں تنصیب ہے۔آخر پاکستان کی ریاست کو یکا یک سکھوں سے اتنی محبت کیوں پید ا ہوگئی ہے؟ کبھی کرتار پور راہدرای اور کبھی رنجیت سنگھ کے مجسمے کی تنصیب۔
دراصل قیام پاکستان کے کچھ ہی سال بعد ہماری فوجی اشرافیہ نے بھارت کے سکھوں میں اپنے لئے ہمدردی پیدا کرنے اور انھیں بھارت کے خلاف اکسانے کے پروگرامز شروع کردیئے تھے۔ 1965 کی جنگ کے بعد یہ کام تیز کردیا گیا تھا۔ ان دنوں ریڈیو پراپیگنڈہ کا بہت بڑا ذریعہ ہوا کرتا تھا چنانچہ اس پر پنجابی دربار کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد مسلمانوں اور سکھوں کو ایک دوسرے کا دوست اور ہندووں کو دشمن ثابت کیا جاتا تھا۔
پھر جنرل ضیا کے دور میں جب خالصتان تحریک شروع ہوئی تو ہماری ریاست نے اس کی حمایت کی اور اس کے قائدین کی ’اخلاقی، سیاسی اور سفارتی‘ حمایت جاری رکھی۔ خالصتانی سکھوں نے جب انڈین ایئر کا طیارہ اغوا کرکے لاہور ائیر پورٹ اتارا تو پاکستان نے اغوا کنند گان کو بھارت کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ سکھوں سے ہماری فوج اور پالیسی سازوں کی محبت تھی جس کی آڑ میں اعتزاز احسن پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے سکھوں کی فہرستیں بھارت سرکار کو دے دی تھیں۔ اس کا مطلب تھا ایسی کوئی فہرست موجود تھی جس کو اعتزاز احسن نے مبینہ طور پر بھارت کی حوالے کردیا تھا۔
کرتار پور راہداری بھی ہمارے جہادی پراجیکٹ کا حصہ ہے ہم سکھوں سے دوستی کرنا چاہتے ہیں بھارت سے نہیں۔ ہم رنجیت سنگھ کا مجسمہ شاہی قلعہ میں محض اس لئے نصب کرتے ہیں تاکہ سکھوں میں اپنی حمایت میں اضافہ کیا جاسکے۔ ہم رنجیت سنگھ کے سیاسی ورثہ کا انکار کرتے ہیں لیکن اس کے نام کو اپنی تزویراتی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں رنجیت سنگھ سے عقیدت نہیں ہے ہم تو اس کا نام لے کر بھارت دشمنی کے نفرت بھرے پودے کی آبیاری کرنا چاہتے ہیں۔
♦