علی احمد جان
قومی اسمبلی میں پیش کی گئی ایک قرار دادِ استحقاق پر یہ فیصلہ صادر ہوا کہ اسمبلی کے فلور پر وزیر اعظم کو ’سلیکٹیڈ وزیراعظم‘ نہ کہا جائے۔ یہ ایک بہت ہی اچھی بات ہی نہیں بلکہ بہت اچھی پارلیمانی روایت بھی ہوگی اگر اپنے منتخب نمائندوں کی کم از کم ان ایوانوں میں توہین نہ کی جائے جہاں وہ منتخب ہوکر آتے ہیں پھر وہاں سے اکثریت کا اعتماد حاصل کرکےاقتدار کی کرسی تک پہنچ جاتے ہیں۔
منتخب ہونا اور پھراکثریت کا اعتماد حاصل کرنا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ وہ کر ہی نہیں سکتے جو ایک گھنٹہ بغیر بجلی کے اور ایک دن بغیر روٹی کے نہیں گزار سکتے۔ مگر اسی ایوان میں بیٹھے لوگ جب ان منتخب لوگوں کو طعنے دیتے ہیں اور ان کی بے عزتی کرتے ہیں تو یہ صرف ایک شخص کی توہین نہیں بلکہ اس ایوان اور اس جمہوری نظام کی توہین بھی ہے جہاں لوگوں کے منتخب نمائندے جمہور کی نمائندگی کرتے ہیں۔
سیاست میں اپنے مخالفین کا بھی ادب ملحوظ خاطر رکھنا جمہوری معاشرے کی بنیادی اقدار میں شامل ہوتی ہیں۔ اس ادب اور تمیز کا عملی مظاہرہ منتخب ایوانوں میں مکالمہ اور بحث کے دوران ہوتا ہے جہاں ایک طے شدہ معیار سے نیچے کوئی بات اگر کسی کے منہ سے غلطی سے نکل بھی جائے تو کم از کم کاروائی سے حذف کی جاتی ہے۔ سیاسی طور پر ایک دوسرے سے بیزار لوگ بھی ایوان کے اندر اپنی ذاتی انا کو اڑے آنے نہیں دیتے اور وقت بوقت ایک دوسرے سے معانقہ و مصافحہ کرتے رہتے ہیں یا کم از کم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراہٹ کا تبادلہ ضرور کرتے ہیں۔
ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں جمہوری نظام کو اپنے وجود کے زندہ رکھنے کی جنگ لڑنی پڑتی ہے ۔ سکندر مرزا سے جنرل مشرف تک دستور کو معطل کرنے اور اپنی شخصی حکمرانی نافذ کرنے اور اس کو طول دینے کی بار بار کی کوششوں کی وجہ سے آئین اور جمہوریت ہی کمزور نہیں ہوئے بلکہ جمہوری سفر کے تسلسل پر عام و خاص کا اعتماد بھی جاتا رہا۔ سیاست کو قابل نفرت بنانے کی شعوری کوششیں ایسی ہوئیں کہ اچھے قابل اور دیانت دار لوگوں نے اس میدان میں قسمت آزمائی کرنا ہی چھوڑ دیا۔
جنرل ضیالحق کے دور میں چائے خانوں اور ہوٹلوں کی دیواروں پر لکھا ہوتا تھا ’یہاں چرس پینا اور سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘۔ آج کی نئی نسل بھی جمہوریت، آئین اور سیاست کو ہی ہدف تنقید بناکر اپنے شعور کے بیدار ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ جہاں سیاست دانوں کو گالی دینا یا ان کو الزام دینا کوئی بات ہی نہیں رہے تو وہاں ایک منتخب وزیر اعظم سیاست دانوں سے مختلف کیونکر ہوسکتا ہے ؟
پارلیمنٹ ہی ملک کا سب سے مقدس ترین اور سپریم ادارہ ہوتا ہے ۔ پاکستان کے دستور کے مطابق صدر ہی ملک کا بادشاہ ہوتا ہے جہاں منتخب نمائندوں کے زریعے ملک کا نظام اسی کے حکم کے تابع ہوتا ہے۔ اگر ملک کے منتخب شدہ صدر کو ہی دشنام کا سامنا ہو تو منتخب نمائندے کیسے بچ سکتے ہیں۔ ملک کے منتخب صدر اور وزیر اعظم کو محض ایک ایف آئی آر یا کسی گمنام رپورٹ کی بنیاد پر تفتیش کے لئے گرفتار کیا جائے تو پھر اس کی اجازت دینے والے جج خود کیسے بچ پائیں گے اور ارکان اسمبلی کیسے مبرا ہونگے؟
کسی منتخب نمائندے کی تذلیل سے وقتی طور پر انا کو تسکین ہوتی ہوگی مگر اس کے دور رس نتائج کسی کے حق میں نہیں ہوتے۔ کیا کل عدالتوں میں منتخب وزرائے اعظم اور نمائندوں کی تذلیل کرنے والے جج بھی آج عوام کے درمیان چہرہ دکھانے سے گریزاں نہیں ؟۔
اقتدار میں آنے کے لئے کوشش کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ وہ اپنے منشور، ایجنڈے اور پروگرام سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس جدوجہد میں اپنے مخالفین بالخصوص اہل اقتدار کو چیلنج کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی اس جدوجہد میں اس نظام کو ہی اپنی تنقید کا نشانہ بنائے اور اس ایوان کی ہی لعنت ملامت کرے جس کے اعتماد سے وہ اقتدار میں بھی آجائے تو وہ کس منہ سے اپنے لئے عزت کا تقاضا کرے گا۔ پارلیمنٹ کو اپنے لئے محض اقتدار کی کرسی تک پہنچنے والی سیڑھی سمجھنے والے اور پارلیمنٹ کے اندر بیٹھنے کو وقت کا ضیاع سمجھنے والے اکثر بھول جاتے ہیں کہ جب پارلیمنٹ اپنا منہ پھیر لیتی ہے تو نہ اقتدار باقی رہتا ہے اور نہ ہی وقت ساتھ رہتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت تک تیرہ صدور گزرے ہیں جن میں سے چار کو آئین توڑنے کا اعزازحاصل ہے اور کم از کم پانچ نے منتخب اسمبلیاں برطرف کرنے کا تاج پہن رکھا ہے مگر گرفتاری اور قید پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھ سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور آصف زرداری کے نصیب میں آئی جن پرالزام ایک متفقہ دستور دینے اور اس کو مضبوط کرنے کا ہے۔ جس دستور کو بنانے اور اس کو مضبوط کرنے والے کو قید کیا جا سکتا ہے اور سزا دی جا سکتی ہے تو اس دستور کے مطابق ایک وزیر اعظم کا اپنے لئے عزت کا مطالبہ کرنا ناقابل فہم نہیں؟
پارلیمانی نظام حکومت کے علمبردار پاکستان میں اب تک کے21 وزرائے اعظم میں سے کسی نے بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ اقتدار میں آنے سے پہلے جیل کی ہوا کھانا تو پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں کوئی انوکھی بات نہیں مگر سابق وزرائے اعظم میں سے دو کو سزا بھی ہوئی جس میں ایک کو عدالتی بد دیانتی سے دی گئی سزائے موت بھی شامل ہے۔ جس ملک میں وزرائے اعظم کو جیل اور موت کی سزا ہوسکتی ہو وہاں ایک وزیر اعظم اپنے لئے عزت کا تقاضا کرے تو عجیب نہیں لگتا؟
پارلیمنٹ میں کی گئی تقاریر میں تو وزیر اعظم کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی مگر کیا اسی ڈی چوک پر بھی یہ پابندی ہوگی جس میں کھڑے ہوکر اسی وزیر اعظم نے نوے دنوں تک اس دور کے وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کی ہر وقت توہین کی تھی؟ کیا اس سوشل میڈیا پر پر بھی پابندی ہوگی جس میں اسی جماعت کے کارکن نامی اور بے نامی چہروں کے ساتھ پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت کی تذلیل کرتے نہیں تھکتے؟ پارلیمنٹ کی کاروائی سے وزیر اعظم کے لئے گئے توہین آمیز کلمات تو حذف کئے جائیں گے لیکن کیا اسی وزیر اعظم کے منہ اور زبان سےکی گئی علمائے دین، اکابر اور سیاسی راہنماؤں اور پارلیمنٹ کی توہین بھی حذف ہوگی جو لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہو چکی ہے جس کا سلسلہ اس کے کارکن اب بھی بلا روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہیں؟
کہنا صرف یہ ہے حضور کہ یہ وہ کوئے ملامت ہے جہاں ہر ایک کی عزت لٹی ہے ، کوئی سر سے گیا ہے تو کوئی جان سے۔ اس کو جائے پناہ سے مرکز لعن و طعن بنانے کے لئے آپ کے ہمنوا و ہم خیال اب بھی سنگ دشنام و اہانت ہاتھوں میں لئے تیار بیٹھے ہیں ۔ آج آپ اپنے لئے عزت و احترام کی بھیک کے لئے دامن پھیلائے چوکھٹ پر کھڑے یہ کیسے بھول گئے کہ جہاں آپ گل پاشی کی امید لے کر آئے ہیں وہاں کل آپ کے ہاتھ میں بھی پتھر تھا ۔
♦