(گذشتہ سے پیوستہ)
جیسا کہ میں پہلی ہی قسط میں لکھ چکا ہوں کہ جیئے سندھ تحریک میں اسکے پہلے دن سے آج تک ہمیشہ دو قسم کے لوگ اور رجحانات رہے ہیں ایک وہ جو کہ پڑھاکو، عدم تشدد پسند، پرامن لوگ ہیں اور دوسری قسم تشدد پسندی اور جرائم کا رہا ہے۔ لیکن دنوں اقسام کے نوجوانوں کا تعلق یک آدھ کو چھوڑ کر زیادہ تر غریب ہاری یا متوسط طبقے کے خانوادوں سے رہا۔
تشدد کی سیاست جیئے سند ھ میں بہت بعد میں آئی جب1970 کی دہائی کی شروعات میں جیکب آباد اور لاڑکانہ سمیت شمالی سندھ سے کچھ نوجوان سندھ یونیورسٹی جامشورو میں داخل ہوئے جن میں یوسف جکھرانی سرفہرست تھا۔ اسوقت سندھ یونیورسٹی سمیت سندھ کے تعلیمی اداروں میں جئے سندھ چھائی ہوئی تھی اور یہ بھی ایک فیشن بھی تھا کہ سندھی نوجوان یونیورسٹی آکر جیئے سندھ کے ممبر ہوتے تھے اور نامی گرامی طالب علم رہنماؤں کے ساتھ انکی اٹھک بیٹھک کو بڑا ٹیکہ سمجھا جاتا تھا۔ یہانتک کہ آصف علی زرداری بھی ایک زمانے میں جیئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا رکن بنا تھا اور سندھ یونیورسٹی کا موجودہ وائس چانسلر فتح محمد برفت بھی ۔
برفت کو اب سندھ یونیورسٹی میں اسکی کارپردازیوں سبب اس کے مخالف “بری آفت” کہتے ہیں حالانکہ برفت تو کراچی یونیورسٹی میں پڑھتا اور کراچی کے مضافاتی گاؤں میں رہتا تھا اور آصف زرداری تو کیڈٹ کالج پٹارو میں پڑھا تھا شہری ٹف تھا۔ ایسے بھی نوجوان تھے اور ہیں جو گذشتہ آدھی صدی یا چار دہائیوں سے طالبعلمی کے زمانے سے لیکر آج تک سرگرم طور پر جئے سندہ تحریک سے وابستہ ہیں۔
لیکن جئے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن میں اسکے کارکنوں اور لیڈروں کے ایک حصے میں تشدد کا رجحان ایک تو سندھ کے شہروں میں1972 میں ہونیوالے والے لسانی فسادات اور دوسرا اسوقت کی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور سندھ میں ممتاز علی بھٹو کی وزارت اعلیٰ کے دنوں سے ہی حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ میں ذیلی طلبہ تنظیم کو جامشورو کے کیمپسز سمیت سندھ کے تعلیمی ادروں میں ریاستی پشت پناہی سے انٹری دینا تھی۔
جب لسانی فسادات کے بعد ممتاز بھٹو کو وزارت اعلی کے عہدے سے الگ ہونا پڑا اور اس کی جگہ پر وزیراعلی غلام مصطفی جتوئی بنا لیکن سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (سپاف) کے سندھ میں دو دھڑے مانے گئے ایک سپاف جتوئی گروپ اور دوسرا سپاف ممتاز بھٹو گروپ۔ سپاف کو سندھ کے تعلیمی اداروں میں مکمل سرکاری سرپرستی بلکہ انکی داداگیری کو بھی تحفظ حا صل تھا تو اسکی وجہ سے جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے انکا تصادم ناگزیر تھا۔ سپاف کے اکثر لیڈر ان تعلیمی ادروں میں پولیس اور دیگر ادارں کی جئے سندھ کے بھٹو مخالف طلبہ تنظیموں والوں کی مخبری کیا کرتے تھے۔ شاہ محمد شاہ کی صدارت کے دنوں میں جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک حصے کا مزید جارحانہ، متشدد اور لڑاکا روپ سامنے آیا۔ حالانکہ شاہ محمد شاہ نے کبھی چڑیا بھی نہیں ماری ہوگی۔
ممتاز علی بھٹو کے حکم پر مہران انجئینرنگ کالج جامشورو کے ذہین لیکچر اشوک کمار کو پولیس کے تب کے ڈی ایس پی پیرزادہ کے ہاتھوں غائب کروادیا گیا جو آج تک غائب ہے۔ اس کی لاش تک نہیں ملی۔ اشوک کمار کے متعلق اسوقت کے سندھی زبان لیکن بھٹو حکومت کے سرکاری روزنامے “ہلال پاکستان” میں اشتہار پولیس کی طرف سے شائع کرا دیا گیا کہ اشوک کمار پولیس لاک اپ کوٹری سے فرار ہوگیا ہے۔ بعد میں اسکے متعلق بتایا گیا کہ وہ بھارت فرار ہوگیا ہے۔ حالانکہ کہا جاتا ہے اسے ٹھٹہ کے قریب گھوڑا باری میں قتل کر کر سمندر میں پھینک دیا گیا تھا۔ اشوک کمار سندھ کا پہلا ریاست کے ہاتھوں غائب کیا ہوا شہری ہے۔ ضیا الحق کی فوجی حکومت نے بہرحال اشوک کمار کے کیس میں ڈی ایس پی پیرزادہ کو گرفتار کیا تھا اور وہ سات سال کی جیل کاٹ کر آیا تھا۔
سانگھڑ کے حر بیلٹ اور وسطی سندھ کے زرداریوں سمیت اور بھی کئی نوجوان سندھ کے جامشورو کیمپسز میں داخل ہوئے اور انہوں نے جئے سندہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن جائن کی۔ جس کا پہلا کنونشن حیدرآباد کے قریب ایک گاؤں وہاب شاہ میں ہوا۔
اسماعیل وسان جئے سندہ اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا نائب صدر چنا گیا تھا۔ یہ نوجوان تھا جو بعد میں اپریل 1973 میں قوم پرست نوجوانوں اور قوم پرستوں کا ہیرو بنا جب اس نے سندھ یونیورسٹی کانوکیشن میں جیئے سندھ کے پلیٹ فارم سے اس وقت پاس ہونے والے نئے 1973 کے آئین کے خلاف احتجاج کرتے کانووکیشن کے دوران اسوقت کے وفاقی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ سے تلخ کلامی کے بعد اسکو تھپڑ رسید کر دیا تھا۔
کہتے ہیں اپنی طبعیت کے مطابق پیرزادہ نے گرمجوشی دکھاتے ہوئے ان نعرے بازی کرتے ہوئے جوانوں کو گالی دی تھی۔ اس کانووکیشن میں بڑاہنگامہ ہوا تھا اور اس موقعہ پر اس وقت کی گورنر بیگم رعنا لیاقت علی اور سابق وزیر اعلی ممتاز علی بھٹو بھی موجود تھے۔ رپورٹ ہے کہ بیگم رعنا لیاقت علی کو بھی زدوکوب کیا گیا تھا۔ پولیس اسماعیل وسان پر ٹوٹ پڑی تھی اسے اور دیگر جئے سندھ کے نوجوانوں چاہے عام طلبہ کو زبردست تشدد کا نشانہ بنایا تھا گیا تھا۔ متعلقہ پولیس ایس پی کو موقعہ پر ہی دل کا دورہ پڑا تھا وہ وہ وہیں یا کچھ دیر بعد فوت ہو گیا تھا۔
اسماعیل وسان کی تشدد سے بگڑی شکل پھٹے گریبان اور بکھرے بالوں والا وہ فوٹو بڑا مقبول ہو گیا جس پر اسوقت کے کئی شاعروں نے شاعری کی تھی جس میں معروف سندھی شاعر غلام حسین رنگریز، ڈاکٹر بلبل کھورواہی اور اس وقت کا جئے سندھ کا سرگرم کارکن ارشاد شاہ جو بعد میں سیشن جج بنا شامل تھے۔میرے دوست اور اسوقت کئی جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اسوقت کے سیکرٹری جنرل اور تب بھی ادیب مدد سندھی نے غلام حسین رنگریز کی نظم اپنے جریدے “اگتے قدم “ کے پس ورق پراسماعیل وسان کی تصویر کیساتھ شائع کی تھی۔ آج کی زبان میں وہ نظم جریدہ اور تصویر تب “وائرل” گئے تھے۔
۔(جاری ہے)۔
پہلی قسط
سندھی علیحدگی پسند تنظیمیں اور دہشت گردی
دوسری قسط