بیرسٹرحمیدباشانی
ایک وقت تھاجب جمہوریت مایوسی کے گھپ اندھیروں میں امید کی ایک کرن بن کرابھری تھی۔ نوے کی دہائی میں سویت یونین ٹوٹنے کے بعدیہ تاثرعام ہوا تھا کہ اب دنیا جمہوریت کوایک متفقہ طرزحکمرانی کےطورپراپنانے کی طرف مائل ہی نہیں مجبوربھی ہے کہ فی الحال دنیا میں اس نظام کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔
جمہوریت اصلاحات یا بہتری لانے کا کوئی فوری یا انقلابی طریقہ نہیں ہے۔ یہ سماجی ومعاشی انصاف کی طرف بڑھنے کا ایک سست رومگرایک یقینی اوردیکھا بھالاراستہ ہے۔ اس کے ثمرات طویل انتظارکےمتقاضی ہوتے ہیں۔ اس میں صبراورتسلسل کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود کچھ انقلابی مکاتب فکربھی کچھ ممالک میں جمہوریت کے ثمرات دیکھ کراس پرایمان لےآئے، جس سے سوشلسٹ جمہوریت کا تصورمضبوط ہوا۔ دوسری طرف نظریاتی طورپرآمریت پسند بھی جمہوریت کو واحد اورناگزیرراستےکےطورپرماننے پرمجبورہوگئےکہ اس وقت تک جتنے بھی کامیاب ممالک تھے ان کا طرز حکمرانی جمہوری تھا۔
ایک اچھی جمہوریت کا تصورانسانی حقوق اورشہری آزادیوں کے بغیرمکمل نہیں ہوتا؛ چنانچہ اس وقت یہ امید بھی پیدا ہوئی تھی کہ اب دنیا میں انسانی حقوق اورشہری آزدیوں کا احترام بڑھے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی پیدا ہوئی تھی کہ اب دنیا امن وآشتی کی طرف بڑھےگی کیونکہ جمہوریتیں جنگوں سے اجتناب کرتی ہیں اورامن کو ترجیح دیتی ہیں۔ بد قسمتی سےوقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ جمہوریت اوراس کےاثرات کے بارے میں وہ تاثرات اورامیدیں قائم نہ رہ سکیں، جو شروع میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ایسا کئی وجوہات کی بناء پرہوا ۔ اکیسویں صدی کی ابتدا میں بہت سارے ممالک میں حکمران اشرافیہ نے کئی ایسےاقدامات کیے، جوجمہوریت اورانسانی حقوق سےمتصادم تھے۔ ان ممالک میں ترکی اورہنگری جیسے ممالک سرفہرست تھے، جنہوں نےجمہوری حقوق اورشہری آزدیوں کومحدود کیا، اورجمہوری تصورات کو نقصان پہنچایا۔
جوممالک عملی طورپر دیکھتے ہی دیکھتےجمہوریت کی پٹڑی سے اترکرمطلق العنانیت کے راستے پر چل پڑے، ان کے خلاف عالمی سطح پرکوئی ردعمل نہیں ہوا۔ کسی عالمی طاقت نےفکرمندی کا اظہارنہیں کیا۔ اس کی گوناں گوں وجوہات ہیں۔ ان میں ایک بڑی وجہ امریکہ کی عالمی پالیسیوں اورترجیحات میں تبدیلی تھی۔ روایتی طورپرکسی ملک کے ساتھ تعلق کے حوالے سے اگرچہ رسمی طورپر ہی سہی، امریکہ جمہوریت اورانسانی حقوق کا ذکرضرورکرتا رہا۔ اگرچہ ایسی مثالوں کی کمی نہیں ہے، جب امریکہ نےمخصوص حالات میں بدترین آمریتوں کی پشت پناہی بھی کی ہے۔ پاکستان میں جنرل ایوب، جنرل ضیا اورجنرل مشرف کے سخت گیر مارشل لازاورامریکہ کی طرف سے ان کی کھلی حمایت اس کی کلاسیکل مثالیں ہیں۔ اگرچہ اس دوران امریکہ گاہے جمہوریت اورانسانی حقوق کا رسمی ذکربھی کرتارہا۔
حالیہ برسوں میں اس پالیسی میں بتدریج تبدیلی آ تی دکھائی دے رہی تھی۔ مگرصدرٹرمپ کےمنتخب ہوتے ہی اس پالیسی میں نمایاں تبدیلی آئی ، جب انہوں نے کسی ملک کےاندر طرزحکمرانی کے سوال کو کسی قسم کی اہمیت دینے کے بجائے کاروباری اورمعاشی فوائد کواہم ترین ترجیح قراردیا۔ جمہوریت اورانسانی حقوق کے رسمی تکلف سے بھی چھٹکارا پا لیا اور ایسے ممالک سے قریبی تعلق بنانے میں کوئی عارمحسوس نہ کی جن کا جمہوریت اورانسانی حقوق کے بارے میں ریکارڈ کافی داغدارتھا۔ دوسری بڑی وجہ عالمی سیاست میں امریکہ کی پسپائی اورچین کا بطورسپرپاورابھارتھا۔ چین کی حیرت انگیزاورتیز رفتارمعاشی ترقی اورایک فوجی طاقت کی حثیت سے عالمی سٹیج پرظہور سے ترقی کے لیے جمہوریت کی ناگزیریت کے تصورات کو شدید دھچکا لگا۔
اس سے یہ تاثرابھرا کہ معاشی وسماجی ترقی کے لیے جمہوریت بطورطرزحکمرانی ناگزیرنہیں ہے۔ اس کا یہ نقصان ہوا کہ تیسری دنیا کے بیشترممالک نے مطلق العنانیت کے رحجانات کےحامل حکرانوں نے جمہوریت اورانسانی حقوق کواہمیت دینی چھوڑدی، جس سے جمہوری روایات کوسخت نقصان پہنچا۔ پارلیمان اوردوسرے جمہوری اداروں کو نظرانداز کیا گیا۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں وزرائے اعظم نے پارلیمان کے اجلاسوں میں جانا چھوڑدیا۔ پارلیمان میں مباحثے اورمنظوری کے بغیربڑے بڑے اہم فیصلے ہونے لگے۔ آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی ہونے لگی۔ غیرمنتخب لوگوں کومشیر بنایا جانے لگا۔ منتخب نمائدوں کونظراندازکردیا گیا۔
اس سے بہت سارے ممالک میں جمہوری ادارے کمزور ہو گئےجمہوریت کا میعارگرگیا۔ ان ممالک میں بظاہریا آئینی طورپرطرزحکمرانی توجمہوریت ہی رہا، مگرعملی طورپریہ ملک شخصی حکمرانی کے راستے پرچل نکلے۔ کچھ حکمرانوں نے آئین ، قانون، اورخود جمہوریت کو بھی شخصی حکمرانی اورزاتی مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ روس میں صدر پوٹین اس عمل کی تازہ ترین مثال ہیں، جو قدیم بادشاہوں کی طرح تاحیات تخت نیشنی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
فریڈم ہاؤس کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہنگری اب جمہوریت نہیں رہی ہے۔پولینڈ بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔روس اور چین کے زیراثر پورے مشرقی یورپ کی ریاستوں میں جمہوریت پسپا ہورہی ہے۔ اس موضوع پرکیے گئےایک مطالعے میں یورپ اوروسطی ایشیا کے انتیس ممالک میں جمہوریت کی حالت زار کا جائزہ لیا گیا ہے، جس کے تحت اس خطے میں1995 کی نسبت چند ایک جمہوریتیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق وزیراعظم وکٹرآربین کے جمہوری اداروں پر حملوں کی وجہ سے ہنگری بطورجمہوری ملک اپنا سٹیٹس کھوچکا ہے۔ تیسری دنیا کے کئی ممالک میں خود سیاسی پارٹیوں کے طرزعمل کی وجہ سے بھی جمہوریت کے معیار کوبہت بڑا دھچکا لگا ہے۔
سیاسی پارٹیوں نےعام انتخابات کے لیےاپنے امیدواروں کی نامزدگی کے لیے جونئے پیمانےاورمیعاراپنا لیے، وہ بنیادی طورپرجمہوریت کی روح سےمتصادم ہیں۔ ان پارٹیوں نے ایسے امیدوارڈھونڈنے شروع کر دیےجویا تو پارٹی پر بےتحاشا پیسہ لگا سکتے تھے یا پھرمنتخب ہونے اورسیٹ جیت کرلانے کی ضمانت دیے سکتےتھے۔ اس سلسلہ عمل میں پارٹیوں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی کہ ایک دولت مندامیدوارجوپارٹی کا ٹکٹ منہ مانگی قیمت پرخریدنے کے لیے تیار ہےاس نے یہ بےتحاشا دولت کن ذرائع سےاکٹھی کی ہے۔ یا اتنی بڑی قیمت پرٹکٹ خریدنے کے پیچھے اس کے اصل مقاصد اورعزائم کیا ہیں۔ کیا اس کا مقصدعوامی خدمت یا بھلائی ہے یا پھر وہ یہ سرمایہ کاری کرکہ اس سے دوگنی دولت بنانے کا کوئی منصوبہ رکھتا ہے۔
منتخب ہونے کےقابل یا سیٹ کی ضمانت دینے والے امیدوروں کو ترجیع دیتے وقت بھی سیاسی پارٹیوں نے کئی بنیادی حقائق اوراصولوں کو نظراندازکیا۔ یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ یہ لوگ منتخب ہونے کے لیے جوحربےاختیارکرتے ہیں، ان کی اخلاقی اورقانونی حثیت کیا ہے۔ کیا وہ دولت کے زور پرکامیاب ہوتے ہیں۔ دھونس اوردھاندلی سے سیٹ لیتے ہیں۔ یا کوئی ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، جو قانونی اوراخلاقی طورپرناجائزہیں۔ اورماضی میں باربارمنتخب ہوکرانہوں نےکیا کیا گل کھلائے ہیں۔ اپنے اثرورسوخ سے کیا کیا ناجائزفائدے اٹھائے ہیں۔ کن کن ناجائزذرائع سے دولت جمع کی ہے۔ مقامی تھانےاورمال پٹوار سے مل کرکیسے کیسے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔ ظلم کی یہ ایمپائرکیسےکھڑی کی ہے، اوراپنےآپ کو ناقابل شکست کیسےبنایا ہے۔
ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں ہوا۔ تیسری دنیا کے بیشترممالک میں ایسا ہوا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جودنیا کی سب بڑی جمہوریت ہے، اس میں بھی یہی عمل دھرایا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھارتی پارلیمان میں ایک تہائی ممبران ایسے ہیں، جن پر قتل اورعصمت دری جیسے سنگین مقدمات درج ہیں۔ ان حالات میں جمہوریت کی جونئی شکل ابھر رہی ہے، یہ جمہوریت کے نام پرایک جدید آمرانہ نظام ہے، جس میں حکمران اشرافیہ بااثر، امیراورجرائم پیشہ لوگوں کے زریعےاقتدارمیں آتی ہیں، اوران لوگوں کوشریک اقتدار بناتی ہے۔ یہ صورت حال جمہوریت کے مستقبل کے لیے کوئی اچھی خبرنہیں ہے۔
اگرجمہوریت کامستقبل بچانا ہے تواس سلسلے میں سخت قسم کی سیاسی جہدوجہد اورقانون سازی کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مخلص اورسنجیدہ سیاسی کارکن اس صورت حال شکار ہونے کے بجائے اس کی مزاحمت کریں۔ وہ پارٹی کے اندراس پربحث ومباحثہ کریں۔ پارٹی کے آئین و منشورمیں امیدوارکی نامزدگی کے طریقہ کاراوراہلیت کی کڑی شرائط رکھیں تاکہ پارٹیاں کھلی منڈی میں ٹکٹ کی بولی لگانے کے بجائے اہل اورحقدارامیدواروں کوسامنےلائیں۔
دوسری طرف ملک میں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہےکہ انتخابات میں دولت، دھونس اوردھاندلی کے دروازے بندہوں۔ اس سلسلے میں کچھ ترقی یافتہ مغربی ممالک کے تجربات سےاستفادہ کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے اس باب میں قابل رشک قانون سازی کی ہے، اورانتخابی عمل میں موجود قباحتوں پرکافی حد تک قابو پایا ہے۔ جیمزبوارڈ نے کیا خوب کہا تھا کہ جمہوریت دوبھیڑیوں اورایک بھیڑکے درمیان اس بات پرووٹنگ کا نام نہیں ہے کہ آج ڈنرمیں کیا کھایا جائے۔
♦