طارق احمدمرزا
روزنامہ جنگ کی آن لائن اشاعت مؤرخہ 2 جولائی 2020 ء میں معروف صحافی حامدمیر کا ایک کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کا انکشاف نما عنوان تھا “بہت جلد اپوزیشن جماعتیں متحد ہوکر ایک گرینڈ الائنس بنانے والی ہیں “۔
اس کالم میں حسب دستورحامدمیر نے اپنے تئیں کوئی انکشاف کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اول تو اس میں کوئی انکشاف والی بات تو تھی نہیں جس کا وہ اپنے تئیں انکشاف کرنا چاہ رہے تھے یا تاثر دے رہے تھے۔نہ ہی اس عنوان یا پوری تحریرمیں صحافتی اعتبار سے کوئی “خبر” پائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ اس کالم میں حامدمیر نے حسبِ عادت کسی “حکومتی رکن” کے ساتھ کن سوئیاں لینے اور دینے کا اقرارجرم کیا ہے۔
ہاں ان کے اس کالم کا جو حصہ مجھے سب سے زیادہ “توجہ طلب” اورتشویش ناک لگا (گو اس میں بھی کوئی انکشاف یا خبروالی بات نہیں ہے) وہ مندرجہ ذیل ہے :۔
” حکومتی رکن نے کہا حامد بھائی آپ کہتے ہو تو مان لیتا ہوں لیکن میں نے اس بجٹ سیشن میں آپ کی محبوب اپوزیشن کو بڑا قریب سے چیک کیا ہے، میرا بھی دل چاہ رہا تھا کہ کچھ زور لگا کر پٹرول کی قیمت میں اضافہ واپس کرائیں لیکن اس اپوزیشن کا جب بھی ٹیسٹ ہوتا ہے تو رزلٹ پازیٹو آتا ہے، یہ اکثر بیمار ہو جاتی ہے اور عمران خان جو چاہتا ہے وہ کر لیتا ہے۔اس نے اپنا ماسک ناک پر سرکاتے ہوئے کہا کہ مجھے بتائیے کہ بجٹ سیشن میں کون سی سمجھ دار اپوزیشن واک آؤٹ کرتی ہے؟ کل اپوزیشن نے واک آؤٹ کرکے عمران خان کو بڑے سکون سے تقریر کرنے کا موقع دیا، یہ اپوزیشن تو عمران خان کی سہولت کار بن چکی ہے۔ یہ الفاظ سن کر میں نے اپنا ماسک اتار کر زور دار قہقہہ لگایا اور حکومتی رکن سے کہا کہ آپ مجھے اپوزیشن کے خلاف بھڑکانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں لیکن اندر ہی اندر میں سوچ رہا تھا کہ اپوزیشن کو عمران خان کی تقریر کا جواب ضرور دینا چاہئے تھا “۔
(https://jang.com.pk/news/790909 )
قارئین کرام حامدمیر نے یہ تو بتا دیا کہ “حکومتی رکن” کو جواب دینے کے بعد اندر ہی اندر وہ کیا سوچ رہے تھے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ قہقہہ لگانے سے پہلے انہوں نے کیا سوچ کر یا کس ضرورت کے تحت اپنا ماسک چہرے سے اتاردیا تھا حالانکہ “حکومتی رکن” نے اپنے تین عدد آخری جملے بولنے سے پہلے اپنا ماسک ناک پر سرکا لیا تھا اور “پازیٹو ریزلٹ ” کے الفاظ بول کر مخاطب کو شعوری یا لاشعوری طورپر ایک واضح اشارہ یا یاددہانی بھی کروادی تھی کہ اپوزیشن کی پھسپھسی سیاست کے علاوہ کسی اوروجہ سے بھی تمہارے شہر کا موسم بڑاغیرسہانا لگ رہاہے۔
لیکن آگے بڑھنے سے قبل یہ وضاحت کرناانتہائی ضروری ہے کہ اس تحریر کا مقصد حامد میر صاحب یا ان کے کسی عمل کوشخصی یا ذاتی طورپر تنقید یاطنز کا نشانہ بناناہر گز نہیں ۔حامدمیر کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا،بلکہ خود مجھ سےبھی یہ فعل سرزد ہوتا یعنی میں بھی ماسک اتار کر قہقہہ لگاتا، تب بھی احقر نے یہی تبصرہ اور تجزیہ پیش کرنا تھا۔
بات دراصل یہ ہے کہ حامد میر ایک پاکستانی ہے۔ اورپاکستانی قوم کی اکثریت کا گزشتہ تہتر برسوں میں جو قومی ،ملی اور سماجی تشخص بن پایا ہے وہ یہ ہے کہ اس قوم کی اکثریت جہاں لکھا ہوا دیکھتی ہے کہ “یہاں پیشاب کرنا منع ہے” تو بالکل غیر ارادی اورلاشعوری طورپر اور بے ساختہ وہیں پیشاب کرنے بیٹھ جاتی ہے۔ اگر کوئی اس جملہ پہ احتجاج کرتا ہے تو کرے۔ جب میں نے اپنی زندگی کے کوئی چالیس برس جو پاکستان میں گزارے ،ہمیشہ اپنی آنکھوں سے یہی نظارہ دیکھا ہے تو میں کیوں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئےشرم محسوس کروں۔
اسی طرح جہاں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ “یہاں پارکنگ منع ہے” تو لاشعوری اور غیرارادی طورپر کوشش یہی کی جاتی ہے کہ گاڑی وہیں پارک کی جائے۔تو بعینہٖ اسی طرح جب حامدمیر نامی ایک پاکستانی نے ایک “حکومتی رکن ” کو اپنےماسک کو ناک پر سرکاتے دیکھا اوراس کی زبان سے “پازیٹو ٹیسٹ” کا ذکر سنا تو بالکل لاشعوری اور غیرارادی طورپر ان کا ہاتھ اپنے ماسک کی طرف بڑھ گیا اور انہوں نے نہ صرف اسے اتارا بلکہ ایک زوردار قہقہہ بھی لگادیا۔حالانکہ جانتےہونگے کہ چھینک اور کھانسی کی طرح قہقہہ لگانے سے بھی انسان کے منہ سے لگ بھگ چالیس ہزار خوردبینی تھوکیں یا بخارات ) گولی کی رفتار سے چھ بلکہ دس دس فٹ تک دور باآسانی پہنچ جاتی ہیں۔ اورمیں سمجھتا ہوں کہ “حکومتی رکن” جو حامدمیر نامی پاکستانی کی شخصیت سے پوری طرح واقف تھا اس نے حفظ ماتقدم کے طور پر بالکل درست اقدام اٹھا کر اپنے ماسک کو پہلے ہی سرکا کر منہ کے علاوہ اپنے ناک پر بھی کر لیا تھا کیونکہ وہ بھی لاشعوری اور غیرارادی طورپر جانتا تھا کہ حامد میرنامی اس پاکستانی نے “پازیٹو ٹیسٹ ‘ کا ذکرسن کر کیا ردعمل دکھانا ہے۔
دوسری وجہ اس قسم کے سماجی رویہ یا ردعمل کی یہ ہے کہ ہماری قوم جلدبازی میں نتیجے نکال کر قبل ازوقت مفروضے قائم کرلیتی ہے ۔ خصوصاً ایسے مفروضے جن کے نتیجے میں اپنی ذمہ داری سے جلدی جان چھوٹ سکے اور دوسروں کو خوش فہمی یا جھوٹی امیدوں میں مبتلا کیا جاسکے۔
مثلاً یہی مفروضہ کہ کورونا کو روکا نہ جائے بلکہ خوب پھیلنے دیا جائے تاکہ “ہرڈ امیونٹی” یعنی اجتماعی مدافعت پیدا کی جاسکے۔اس لئے اگر کوئی ماسک اپنے ناک پر سرکاتا ہے تو ماسک اتار کر اس پر قہقہہ لگاؤ یا جان بوجھ کر کھانسو تا کہ ہرڈ امیونٹی قائم ہو سکے۔عمران خان کی کابینہ کا سب سے زیادہ ہوشیار اور زیرک وزیراسد عمر اسی خوش فہمی یا جلدبازی میں قومی اسمبلی کے فلورپر پورے زور و شور سے سویڈن کا موازنہ انگلینڈ سے کرکے پوری قوم کو طفل تسلیاں دے رہا تھا کہ سویڈن نے کوئی لاک ڈاؤن نہیں کیا،کوئی حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کیں۔وہاں بہت کم لوگ مرے ہیں جبکہ انگلینڈ اپنی تمام تر ایڈوانس ٹیکنالوجی اور لاک ڈاؤن کے باوجود موتا موتی کو نہیں روک سکا۔
یہ بہت بچگانہ اور عجلت میں قائم کئے گئے مفروضہ پر مبنی ایک بیان تھا۔آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ سویڈن کی شرح اموات اس کی آبادی کے تناسب سے کتنی زیادہ ہو چکی ہے۔اس کی اکانومی چار اعشاریہ پانچ فیصد کی رفتار سے سست ہو چکی ہے اور بیروزگاری کی شرح گزشتہ تین چار ماہ میں 9 فیصد ہو چکی ہے۔اور جس اجتماعی مدافعت کی بات یا توقع کی جارہی تھی وہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوئی۔چنانچہ ایک جائزہ کے مطابق سوئیڈن میں کورونا کی شرح اموات تقریباً پانچ سوپچاس فی ملین پہنچ چکی ہے ۔ یہ شرح ناروے ڈنمارک اور فن لینڈ کی مجموعی شرح سے چارگنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور ابھی ایک ایک دن میں وہاں سات سو آٹھ سوکی تعداد میں نئے کیسز بھی سامنے آرہے ہیں۔
رہی یہ بات کہ انگلینڈ میں موتا موتی کا شدید عالم ہے تو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ انگلینڈ کو بیدارہوتے ہوتے تین ماہ لگ گئے تھے۔دسمبر 2019 کے بعد تین ماہ کے اندر اندر کورونا وائرس بڑی تیزی سے انگلینڈ کے طول وعرض خصوصاً لندن میں پھیل چکا تھا۔اور بہت سا طبی عملہ بھی بیخبری میں ہی کورونا میں مبتلا ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔اس سے بھی یہ بات بہرحال ثابت ہوتی ہے کہ کورونا وائرس کے معاملہ میں ہرڈ امیونٹی محض ایک خام خیالی ہے،ورنہ یہ موتا موتی وہاں نہ ہوتی۔ سوئیڈن کو اسی سے سبق حاصل کرلینا چاہیئے تھا۔ اب پاکستانی قوم کو بھی اس سویڈش ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے جو خود تو بجھ چکی ہے لیکن پاکستان میں اس کی جگہ “قادیانی کورونا سے بھی زیادہ قاتل وائرس ہے” کےسلوگن کی پھلجھڑی نے لے لی ہے۔پوری قوم اسی پھلجھڑی کا نظارہ کرنے میں محو کردی گئی ہے۔
لیکن پاکستانیوں کے اس مخصوص انفرادی اور اجتماعی سماجی رویوں،تہذیبی عادات و اطوار اورنابالغ سوچ کے نتیجہ میں کیا ہوا۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں پہلی دوہزار چار سو( 2400 )اموات اکیاسی (81)دنوں میں ہوئیں لیکن اگلی دوہزار تین سو 2300 اموات محض چوبیس (24)دنوں میں واقع ہوگئیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے؟۔ خود کو اور دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے حکومتی کارکردگی یہ رہی ہے کہ اب تک پاکستان کی نناوے فیصد آبادی کا کورونا ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔ حالانکہ پاکستان آرمی کے ترجمان کے مطابق ملک کے طبی عملہ کو عوام کی سکریننگ کے لئےجتنی بھی ٹیسٹ کٹ درکار ہیں وہ چین کے تعاون سے ملک میں دستیاب ہو چکی ہیں۔
لیکن دوسوبارہ ملین سے زائد پاکستانی آبادی پہ دم تحریر صرف تیرہ لاکھ اٹھانوے ہزار تین سو باون ٹیسٹ کئے جاسکے ہیں۔جو کہ نام نہاد “نئے پاکستان” کے لئے انتہائی شرم کا مقام ہے۔
حامدمیر نامی پاکستانی کے ماسک اتارکر قہقہہ لگانے کی ایک اور وجہ پاکستانی قوم کا یہ اجتماعی رویہ بھی ہے کہ وہ سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کی بتائی ہوئی باتوں یا ہدایات کو ہنس کرنظراندازکردینے کو بہادری اور عقلمندی سمجھتی ہے۔
پاکستانی قوم کو ہتھوڑا گروپ کے ہاتھوں پچکی ہوئی کھوپڑیاں گلیوں یا چھتوں کی بجائے گھروں کے اندر سونے پر مجبورکر سکتی ہیں لیکن وباپھیلانے والے جرثوموں وائرس وغیرہ کی موجودگی کی اطلاع ماسک پہننے،ہاتھ دھونے،سماجی فاصلہ رکھنے وغیرہ پر کبھی آمادہ نہیں کرسکے گی۔ کیونکہ اول تو وائرس ہمیں نظرنہیں آتا اوردوسرے یہ کہ ہم نے تہیّہ کر رکھا ہے کہ متعلقہ ماہرین کی بات کو ہم نے درخوراعتنا سمجھنا ہی نہیں ۔
حتیٰ کہ وبائی امراض سے مرنے والے پاکستانیوں کے عزیزوں کی لاشیں بھی قوم کا یہ سماجی رویہ بدلنے کا باعث نہیں بن سکیں۔ عیدالفطر کی خریداری پہ عوام کاہجوم اوردھکم پیل کی ویڈیوز اس پر گواہ ہیں۔
یہ قوم سماجی رویہ بدلنے ،نئی عادات اپنانے کے معاملہ میں ہمیشہ کسی ہتھوڑا گروپ کی متقاضی ہوتی ہے۔بیان کرتا چلوں کہ پاکستان میں کئی قسم کے ہتھوڑاگروپ اس وقت فعال ہیں،کوئی گروپ مندر کی چاردیواریاں گرانے میں مصروف ہے کوئی احمدیوں کی قبروں کے کتبے توڑنے میں مصروف ہے تو کوئی میڈیا پر بیٹھ کرکورونا کے بارہ میں اوٹ پٹانگ فتوے اورافواہوں کے ہتھوڑے پردہ سماعت بلکہ پردہ عقل ودانش پر برساتانظرآرہاہے۔پاکستان میں ہجومی تشدد بھی بجائے خود ایک بہت بڑا ہتھوڑا ہے جو کسی بھی افواہ یا اطلاع پر لاشعوری اور غیرارادی طور پرفوراً متحرک ہو جاتا ہے۔اس سمے سڑکوں پہ نکلی ہوئی پوری قوم ایک ہتھوڑا بنی دکھائی دیتی ہے اورخود پاکستانی قانون، پاکستانی دستور،پاکستانی عمال حکومت اور ایجنسیاں اس عوامی ہتھوڑے کے پھل کے لئے دستے کا کام دے رہی ہوتی ہیں ۔
بات ہورہی تھی وائرس کی موجودگی اور اس سے متعلق انسانی زندگی کو لاحق خطرات کی جو ہمیں نظر نہیں آرہے ہوتے اور ہم اسے تسلیم کرنے سے انکارکردیتے ہیں ۔ ہاں جب خطرہ ” لباسِ مجاز” میں نظر آرہا ہوتو پھر ہماری پھرتیاں اور حکمتیں نجانے کہاں سے نمودارہو جاتی ہیں (گوایسا بھی شاذکے طورپرہوتا ہے !)۔
حامدمیر نامی پاکستانی صحافی کو ہی لے لیجئے،جب یہ پاکستانی صحافی غیرقانونی طریقے سے ارض فلسطین میں داخل ہواتھا اور وہاں ایک فلسطینی نے اسے اس مقام پر لے جانا چاہا جہاں اس وقت اسرائیلی فوج کی طرف سے شیلنگ ہو رہی تھی تو باوجوداس فلسطینی مسلمان بھائی کی دعوت کے کہ آؤ آگے جاکرہم دونوں مل کرجام شہادت نوش کرتے ہیں، تو اس نے ایساکرنے سے صاف انکارکردیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ اسے آسمان سے بم گرتے اور زمین سے آگ کے شعلے اٹھتے دکھائی دے رہے تھے،تو اس وقت اس کی ایمانی حرارت اور شہادت حاصل کرنے کی آرزواسرائیلی راکٹ کے چھوڑے ہوئےدھوئیں کےساتھ ہی فضا میں کہیں غائب ہوگئی تھی لیکن چونکہ وائرس اسے آنکھ سے نظر نہیں آتا وہ عین وبائی ایام میں اپنا ماسک اتار کر شریکِ گفتگو کے منہ پر قہقہے لگانے میں بالکل بھی نہیں ہچکچاتا۔ واضح رہے کہ فلسطین والا یہ واقعہ خود حامدمیرصاحب ایک مضمون میں بیان کرچکے ہیں۔
ساری بات اجتماعی شعور،اجتماعی بلوغیت،آگہی،سماجی رویوں ، تہذیب اور تربیت کی ہے۔ اسی طرح سابقہ تجربوں یا دوسروں کی حالت دیکھ کرسبق سیکھنایہ بھی بہت اہم ہے یہ بھی اجتماعی تہذیب کا حصہ ہے۔۔کچھ قومیں ایسی ہیں جو اس معاملہ میں بقیہ دنیا سے بہت آگے اور مختلف ہیں۔مثلاًجن دنوں سارس کا مرض پھیلا تھاہانگ کانگ کی اکثریت نے ماسک پہننے شروع کردئے تھے،انہیں صرف یہ بتانے کی دیر تھی کہ یہ مرض متعدی ہے اور اس کا بچاؤ حفاظتی ویکسین کی عدم موجودگی میں کس طرح سے ممکن ہے۔
سارس کے بعد سے ہانگ کانگ کے عوام نے اپنی اس تہذیبی صلاحیت کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ سارس کا زور ٹوٹنے کے بعد بھی ماسک پہن کر گھروں سے باہر نکلنے کواپنی عادت بلکہ فطرت ثانیہ بنا لیا ،یہاں تک کہ بغیر ماسک پہنے گھر سے باہرنکلنا یا پھرنا معیوب سمجھا جانے لگ گیاہےاور اب جب کہ کورونا کی وباء آئی ہے تو وہاں کے عوام کو یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کہ ماسک پہنیں۔انہوں نے خود ہی سماجی شعور ،ذمہ داری،سمجھ داری اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اس عادت پر مزید پختگی کا نمونہ دکھایا۔
یہی وجہ ہے کہ باخبر ذرائع کے مطابق تادم تحریر اس انتہائی گنجان آبادی والے خطہ میں کورونا کی ہاتھوں صرف آٹھ ،جی ہاں صرف آٹھ اموات واقع ہوئی ہیں۔ سوشیالوجی یعنی تہذیبی رویوں کے محققین اور ماہرین ہانگ کانگ کے عوام کے اس اجتماعی تہذیبی ارتقاء پر خوب نطر رکھے ہوئے ہیں اور اس کی مثال دیتے ہیں۔ وہاں تو حکومت کے خلاف مظاہروں کے بعد مظاہرین خود اپنا پھیلایا ہوا گند بھی صاف کرکے گھروں کو لوٹتے ہیں،سوائے اس کے کہ پولیس انہیں ایسا کرنے کا موقع فراہم نہ کرے۔
رہے ہم، توہم نےاگلی کئی صدیوں تک اس شعر کی تصویر بنےرہنا ہے کہ:۔
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ