چین پاکستان اقتصادی راہ داری اتھارٹی کے چیرمین اور سابق فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق ہیش ٹیگ ‘عاصم باجوہ منی ٹریل دو‘ پاکستان میں ٹوئٹر پر سب سے زیادہ ٹرینڈ کر رہا ہے۔
کچھ عرصے سے پاکستان میں حزب اختلاف اور سرگرم سماجی کارکنان کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ نہ صرف سیاست دانوں پر ملک میں اہم عہدے پر فائز طاقت ور شخصیات اور وزیر اعظم کے مشیران کو بھی اپنے اثاثے ظاہر کرنے چاہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ان کی کابینہ کی جانب سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز افسران اور وزیر اعظم کے مشیران کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا ہوں گے۔ پھر آخر معاملہ عاصم باجوہ سے کیسے جڑ گیا؟
ہفتے کی شب وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات شبلی فراز کی جانب سے عاصم باجوہ سمیت معید یوسف، تانیہ ایدرس، ڈاکٹر ظفر مرزا، زلفی بخاری، ثانیہ نشتر اور دیگر شخصیات کے اثاثوں کا اعلان کیا گیا۔ اور تب سے ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ‘عاصم باجوہ منی ٹریل دو‘ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب تک اس ہیش ٹیگ کے ساتھ قریب پچاس ہزار ٹوئٹس کی جا چکی ہیں۔
عاصم باجوہ کی جانب سے ظاہر کیے گئے اثاثوں میں ان کے ڈی ایچ کے مختلف پلاٹس ہیں، لاہور میں گھر ، جنوبی پنجاب میں زرعی زمین اور قریب دو کروڑ مالیت کی گاڑی کو تیس لاکھ کی گاڑی ظاہر کیا گیا ہے۔ ہارون رشید نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا،”باقی لوگوں کے اثاثوں پر بھی سوال تو اٹھتے ہیں لیکن صرف عاصم باجوہ کے اثاثوں پر تنقید کی جارہی ہے۔ کیوں کہ عاصم باجوہ کا تعلق ملک کے طاقت ور ادارے سے رہا ہے اور ملک کی وہ سیاسی جماعتیں جو آج ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تناؤ میں ہیں وہ سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں اور وہ یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ عاصم باجوہ سے منی ٹریل مانگا جائےجیسے کہ ماضی میں سیاست دانوں سے منی ٹریل مانگا گیا تھا‘‘۔
ہارون رشید کا کہنا ہے، ”عاصم باجوہ کی جانب سے ظاہر کیے گئے اثاثوں میں ڈی ایچ ا ے کے پلاٹس کا تو سمجھ آتا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ انہیں فوج کی جانب سے دیے گئے ہوں گے لیکن جنوبی پنجاب میں زمین کا منی ٹریل انہوں نے ظاہر نہیں کیا اور قریب دو کروڑ کی گاڑی کی مالیت انہوں نے محض تیس لاکھ ظاہر کی ہے۔‘‘ ہارون رشید کہتے ہیں کہ منی ٹریل واضح طور پر ظاہر نہ کیے جانے کی وجہ بھی عاصم باجوہ کے اثاثوں پر سوالات اٹھانے کا باعث ہو سکتی ہے۔ ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ معید یوسف جو کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ہیں ان کی جانب سے سے بتایا گیا ہے کہ انہیں اپنے والد اور نانی کی جانب سے تحائف ملے ہیں۔
اسلام آباد میں صحافی اعزاز سید کا کہنا ہے کہ عاصم باجوہ سے متعلق سوشل میڈیا پر اس لیے بھی زیادہ بحث کی جا رہی ہے کیوں کہ ایک عام پاکستانی بہت حیران ہے کہ سرکاری ملازمین ایک نوکری کر کے اتنے زیادہ امیر کیسے ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا،”پہلی مرتبہ ایسی معلومات سامنے آئی ہیں اس لیے سوشل میڈیا پر رد عمل آیا ہے اور لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔ فوری طور پر تو اس ردعمل کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا لیکن مستقبل میں اس پر بات ضرور ہو گی کہ غیر ضروری زمینیں اور سہولیات دی جانی چاہیں یا نہیں‘‘۔
اعزاز کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا یہ عمل قابل تعریف ہے کہ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اثاثے ظاہر کریں حالانکہ کچھ افراد نے زمینوں کی قیمت کم ظاہر کی ہے لیکن یہ ایک اچھی روایت ہے۔ اسی طرح ہارون رشید کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کا یہ مثبت فیصلہ تھا کہ وہ لوگ جن کے مشوروں سے عمران خان اہم فیصلے کر رہے ہیں وہ اپنے اثاثے ظاہر کریں۔
واضح رہے کہ جہاں عاصم باجوہ پر تنقید کی جارہی ہیں وہیں سوشل میڈیا پر عاصم باجوہ کے حق میں بھی ٹوئٹس کی جارہی ہیں۔ ‘عاصم باجوہ آر پرائیڈ‘ ہیش ٹیگ قریب تیس ہزار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
dw.com/urdu