لیاقت علی
ہرسال عید الضحی کے قریب آتے ہی یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ کیا قربانی کا کوئی ایسا متبادل ہے جس پر قربانی کے لئے مختص رقم اگرخرچ کردی جائے تو اس کا مقصد پورا ہوجائے؟
ان دنوں کرونا وبا سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے سماج کے کمزور طبقات پر مرتب ہونے والے اثرات کے پس منظر میں یہ بحث زیادہ زورشورسے سو شل میڈیا پرجاری ہےمولوی صاحبان تو ایسے کسی متبادل کو تسلیم ہی نہیں کرتے اورجانورکی قربانی ہی کو افضل مانتے اوراس پر ہی زور دیتے ہیں۔
کچھ روشن خیال اورلبرل خیالات کے حامل افراد غربت کے خاتمے، صحت کی سہولتوں کی فراہمی اورمستحق طالب علموں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کو قربانی کا متبادل بتاتےاوران امورپرخرچ کرنےکی ترغیب دیتے ہیں لیکن مسلمان ہیں کہ ان کے اس موقف کو مان کر ہی نہیں دیتے اورمذہبی رسوم کی پورے جوش و خروش سے پیروی کرتے ہیں۔
دراصل یہ بحث لاحاصل ہے کیونکہ مذہب کا تعلق حیات بعدالموت سے ہے اورموجودہ زندگی بارے مذہب کا ایجنڈا بہت مختصر ہے سارا زوراخروی زندگی پر ہے اورموجودہ زندگی کا مقصد خود کو اگلے جہان کے لئے تیار کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ہرمذہب کی کچھ مخصوص عبادات ورسوم اوران کو ادا کرنے کا خاص انداز ہوتا ہے۔صدیوں سے ان عبادات کی ادائیگی جس خاص انداز اور طریقے سے ہوتی رہی ہے اس سے انحراف ممکن نہیں ہوتا۔
قدامت پسندی مذہب پرستی کا لازمی جزو ہے۔اگر مذہب سے قدامت پسندی کو نکال دیا جائے تو مذہب کو نہ صرف ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں مذہب کی بنیادیں تک ہل جاتی ہیں۔
کسی ہندو کو اگریہ کہا جائے کہ امر ناتھ یاترا کی بجائے آپ یہ رقم آپ اپنے اردگردموجود مستحق افراد پر خرچ کردیں تو وہ یہ کبھی نہیں مانے گا۔ کوئی سکھ ننکانہ صاحب جانے کوترجیح دے گا نہ کہ وہ اس یاترا پراٹھنے والی رقم کو غریبوں پر خرچ کرے۔
دوسرے مذاہب کا بھی یہی حال ہے۔ مذاہب مجسم رسوم ہوتے ہیں اورمذہبی فرد کے نزدیک ان رسوم کی ادائیگی کی بدولت ہی اس کی نجات اور مکتی ہوسکتی ہے۔
قربانی ہو یا حج ان پر جو رقم خرچ ہوتی ہےاس سے کتنے ہسپتال، تعلیمی۔ فلاحی اور سماجی بہتری کے ادارے بن سکتے ہیں یہ تقابل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مذہب میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہستپال بنانے سے آپ جنت میں جاؤگے لیکن یہ ضرور لکھا ہے کہ صاحب ثروت مسلمان کے لئے حج ضروری ہے اور اس کی ادائیگی سے اس کی اخروی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔
♠