اور مطیع اللہ جان کو بھی ریاستی اداروں نے اغوا کر لیا

پاکستان کے ایک سینیئر صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے لاپتہ ہو گئے ہیں۔ ان کے خاندان کے مطابق ان کی گاڑی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر جی سِکس میں موجود ’ان کے اسکول‘ کے باہر کھڑی ہوئی ملی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سینئرصحافی مطیع اللہ جان کو بازیاب کرانے کا حکم دیا ہے اور متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ اگر مطیع اللہ کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا تو فریقین کل ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔

خیال رہے کہ غیرجمہوری قوتوں پر تنقید کے لیے مشہور پاکستانی صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے منگل کی صبح اغوا کیا گیا۔ ان کی گاڑی سیکٹر جی 6 کے اس سکول کے باہر کھڑی ملی ہے جہاں وہ اپنی اہلیہ کو چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔

بعد میں ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں مغوی کی بازیابی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی استدعا کی گئی۔ یہ درخواست مغوی کے بھائی کی طرف سے دائر کی گئی ہے اور اس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مطیع اللہ جان سینئیر صحافی ہیں اور وہ حکومتی اقدامات کے ناقد ہیں۔ اس درخواست میں وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور اسلام آباد پولیس کو فریق بنایا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی پولیس کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

عدالتی نوٹس سے کچھ دیر پہلے وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے پریس کانفرنس سے خطاب میں مطیع اللہ جان کے اغوا کیے جانے کی تصدیق کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ابھی ان کے پاس اس واقعے کے حوالے سے تفصیلات موجود نہیں ہیں ’لیکن یہ تو طے ہے کہ ان کو اغوا کیا گیا ہے‘۔

انھوں نے بتایا کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کی خبر ملنے کے بعد انھوں نے وزیر داخلہ اعجاز شاہ سے رابطہ کیا تاہم وہ اپنے بھائی سے ملنے ہسپتال جا رہے تھے۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ’ہم پوری کوشش کریں گے کہ جلد از جلد کم ازکم ہمیں یہ پتا چل جائے کہ وہ کہاں پر ہیں اور کیا کیا تدابیر اختیار کی جائیں کہ جس سے انھیں بازیاب کیا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ یہ حکومت کا فرض ہے اور حکومت اپنا فرض پوری طرح سے ادا کرے گی‘۔

انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بھی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام میں اس خبر کو تشویشناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے آئی جی اسلام آباد سے رابطہ کیا ہے۔

اس سے قبل مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے بی بی سی اردو کے اعظم خان کو بتایا کہ وہ منگل کی صبح ساڑھے نو بجے انھیں سیکٹر جی سکس میں واقع اس سرکاری سکول تک چھوڑنے آئے تھے جہاں وہ پڑھاتی ہیں۔ان کے مطابق انھیں سکول کے سکیورٹی گارڈ نے مطلع کیا کہ ان کی گاڑی سکول کے باہر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سے کھڑی ہے۔

ان کی اہلیہ کے مطابق ’گاڑی کے شیشے کھلے تھے، گاڑی کی چابی اور ان کے زیر استعمال ایک فون بھی گاڑی کے اندر ہی تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’جب میرا اپنے شوہر سے رابطہ نہیں ہو سکا تو میں نے فوراً پولیس کو فون کیا اور کچھ دیر بعد پولیس موقع پر پہنچی۔‘

سکول میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سوا گیارہ بجے کے قریب تین گاڑیوں میں سوار نصف درجن سے زیادہ افراد مطیع اللہ کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھا رہے ہیں اور اس دوران مطیع اللہ جان اپنا فون بھی سکول کے اندر اچھال دیتے ہیں جسے ایک باوردی مسلح شخص سکول کے اندر موجود افراد سے حاصل کر لیتا ہے۔

مطیع کی اہلیہ نے بھی بتایا کہ ’ایک موبائل فون سکول کے احاطے کے اندر آ کر گرا تھا جسے ایک دوسری ٹیچر نے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وردی میں ملبوس ایک دراز قد شخص آیا اور فون مانگ کر واپس لے گیا۔ یہ سب اتنا جلدی میں ہوا کہ میں اس معاملے کو سمجھ ہی نہ سکی‘۔

مطیع اللہ جان کون ہیں؟

مطیع اللہ جان نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز میں ماسٹرز کیا تھا اور وہ گذشتہ تین دہائیوں سے صحافت کر رہے ہیں۔

وہ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز سے منسلک رہ چکے ہیں تاہم آج کل وہ یو ٹیوب پر اپنا چینل چلا رہے تھے۔ان کے والد فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز تھے اور خود انھوں نے بھی فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے یہ ملازمت چھوڑ دی تھی۔

ماضی میں بھی مطیع اللہ جان کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ستمبر2017 میں بھی مطیع اللہ جان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اسلام آباد میں بارہ کہو کے مقام پر پیش آیا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار افراد نے مطیع اللہ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر اینٹ دے ماری تھی جس سے ونڈ سکرین پر دراڑیں پڑی تھیں۔حملے کے وقت گاڑی میں مطیع اللہ جان کے بچے بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔

یاد رہے کہ جون 2018 میں اس وقت کے فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جب سوشل میڈیا کے بعض اکاؤنٹس پر ریاست مخالف پراپیگنڈے پر مبنی ٹویٹس کا الزام لگایا تھا اور ایسے اکاؤنٹس کا ایک چارٹ دکھایا تھا تو اس میں بھی مطیع اللہ جان کا اکاؤنٹ نمایاں کر کے دکھایا گیا تھا۔

مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی خبر عام ہوتے ہی پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی تبصرے ہونے لگے۔

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ وہ مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس پاک سرزمین پر جو بھی طاقتورں کے سامنے سچ بولنے کی ہمت کرتا ہے لاپتہ ہو جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اختلاف کرنا حب الوطنی ہے اور وہ ریاست اور حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مطیع اللہ جان کی بحفاظت برآمدگی کو یقینی بنایا جائے۔

صحافی عباس ناصر نے مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی خبر دیتے ہوئے کہا ان کے تحفظ کی امید ظاہر کی اور کہا کہ ’اس فاشسٹ دور میں اس قسم کے مایوس کن اقدامات زیادہ عرصے جاری نہیں رہ سکتے۔‘

ماضی میں مطیع اللہ جان کے ساتھ کام کرے والے صحافی اسامہ بن جاوید نے لکھا کہ مطیع اللہ جان پاکستان کی چند تنقیدی آوازوں میں سے ایک ہیں اور اگر وہ لاپتہ ہوئے ہیں تو یہ پاکستان کی حکومت اور سکیورٹی کے ذمہ دار افراد پر ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ یہی وہ ادارے ہیں جو تنقید کا ہدف رہے ہیں۔

اس واقعے کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سینیئر صحافی ضیاالدین نے کہا کہ پاکستان کے صحافتی ادارے اور صحافی گذشتہ چند سالوں سے شدید دباؤ کا شکار ہیں، اس دباؤ کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اخبارات اور چینلز سیلف سنسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ عمل حکومت کی خوشنودی کی خاطر نہیں بلکہ وہ حقیقی حکمرانوں یا طاقتور حلقوں کو ناراضی نہیں کرنا چاہتے۔

ضیاالدین کا کہتے ہیں کہ ایک مخصوص طرز عمل کی ذریعے صحافیوں کو خاموش کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں صحافیوں کا لاپتہ ہونا، نوکریوں سے برطرف کرا دیا جانا، مار پیٹ کی کی جاتی ہے، کردار کشی کی جاتی ہے یا پیغامات کے ذریعے تنبیہ کرنا شامل ہے اور کبھی نیب یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ان کے خلاف مقدمات کا اندارج کیا جاتا ہے۔ یہ سب صحافی کی ملک میں طرز حکمرانی پر تنقید اور سوال اٹھانے کے قابلیت کے مطابق بوقت ضرورت کیا جاتا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں صحافتی برادری اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیموں کی حالت ایسی نہیں کہ وہ صحافی مطیع اللہ کی گمشدگی یا لاپتہ کیے جانے جیسے واقعات کے خلاف مؤثر انداز میں کردار ادا کر سکے۔ حکومت پر تنقید کی وجہ سے ملک کی میڈیا انڈسٹری اور صحافیوں کے حالات سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

bbc.com/urduبشکریہ:۔

Comments are closed.