عائشہ صدیقہ
میرے ایک دوست نے شکوہ کیا کہ میں طیب اردعان کے حالیہ اقدام یعنی آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے پر بھرپور طریقے سے آنسو نہیں بہائے ۔ حالانکہ میں تو کئی سال پہلے ہی اس بات کا رونا رو چکی ہوں کہ ترکی میں کئی دہائیوں کی فوجی ڈکٹیٹر شپ کے ردعمل میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہونی ہی تھی۔
سنہ2007میں جب میں اپنی کتاب ملٹری انکارپوریڈڈ(جس کا اردو ترجمہ خاکی کمپنی کے نام سے شائع ہو چکا ہے)کا پہلا ڈرافٹ لکھ رہی تھی تو اسی وقت میں نے لکھا تھاکہ ترکی، پاکستان اور انڈونیشیا وہ ممالک ہیں جہاں افواج کاروباری اور غیر فوجی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور وہاں مذہبی انتہا پسندی بھی بتدریج سر اٹھارہی ہے۔ ان ممالک کی افواج معاشی سامراج کی طرح ابھری ہیں جس کا مقصد صرف پیسے کمانا نہیں بلکہ سیاست اور معاشرے پر اپنی آمریت کو قائم کرنا۔
اتاترک نے اس عمل کی بنیاد رکھی تھی
دنیا بھر میں مذہبی عبادت گاہوں کی تبدیلی، تباہی یا دوبارہ تعمیر کے پیچھے سیاسی جماعت کے رہنماؤں کے مفادات ہوتے ہیں جو اس مذہبی انتہا پسندی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔وہ عمارتیں جو عبادت گاہیں ہیں، سے وہی سلوک کرتے ہیں جو وہ مذہبی انتہا پسندی کے نام پر اپنے سماج میں کر چکے ہوتے ہیں۔اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ آج رجب طیب اردعان نے آیا صوفیہ کے ساتھ جوکیا ہے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مصطفےکمال اتاترک نےکوئی ایک صدی پہلے ترک سماج پر سیکولر ازم کے نام پر جو کچھ نافذ کیا تھا وہ اس کا ردعمل ہے، جس کا سیکولر افراد تذکرہ نہیں کرتے۔
اردعان کی سیاسی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی مذہبی سیاست کرنے کی وجہ کمال اتاترک کے آمرانہ طرز کے سیکولر از م کے نفاذ میں پنہاں ہے۔ جدید ترکی کے بانی کی جانب سے سیکولرازم بھی اسی طرح نافذ کیا گیا تھا جس طرح سے طیب اردعان مذہب کوسیکولرازم کے خلاف استعما ل کررہے ہیں۔ بنیادی طور پرطیب اردعان بھی مذہبی آئیڈیالوجی عوام پر ٹھونسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یقیناً اتا ترک نے ترکی کو اس خلافت سے نجات دلائی جو اس کے زوال کا سبب بن چکی تھی اور ایک نئی ریاست بنائی۔ سنہ 1932 میں ایچ سی آرمسٹرانگ نے اتاترک کی بائیو گرافی میں لکھاکہ عوام کی “خلافت” سے جذباتی وابستگی کی بنا پر ابتدا میں اتاترک خلافت کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ہچکچا رہا تھا۔ بعد میں یہ کہہ کرختم کیا کہ اس سے ترکی کی ریاست مزید خطرات سے دوچار ہو سکتی تھی۔ عوام نے اس کا ساتھ دیا۔ پھر بہت بعد میں اتاترک نے ریاست کو سیکولر قرار دیا اور عوام پر کمال ازم نافذ کیا جس کے لیے عوام تیار نہیں تھی۔
ایران بھی اس بات کی مثال ہے جہاں بادشاہ نے زبردستی مغربی ترقی کا فارمولا لوگوں پر زبردستی لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن آخر میں ناکامی کا سامنا کتنا پڑا۔
اتاترک نے عہد کیا کہ ترکی سے مذہب ایسے ہی علیحدہ کر دیا جائے گا جیسےایک درخت کو بچانے کے لیے آکاس بیل کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے”۔ اس مقصد کے لیے عوام کو صدیوں سے جاری کلچر سےعلیحدہ کرکے ایک نیا کلچر ٹھونس دیا۔مردوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ترکی ٹوپی کی جگہ مغربی ہیٹ استعمال کریں۔ اسی افراتفری نے مردوں نے عورتوں اور مردوں کے ہیٹ میں کسی فرق کو جانے بغیر ہیٹ کا استعمال شروع کر دیا۔وہ عوام کے دلوں کو فتح کیے بغیر عوام کی ثقافتی اقدار کو تبدیل کر رہے تھے جو کہ ان کی بڑی غلطی تھی۔
ایک پاکستانی دوست جو 80 کی دہائی میں ترکی گئے تھےنے بتایا کہ عام ترک بڑی حیران کن نظروں سے اپنے روایتی رسم الخط(عربی و فارسی) کو دیکھتے تھے۔ جب وہ اردو میں کتاب پڑھ رہے ہوتے تو ان کے ارد گرد کے عام ترک ان سے اردو رسم الخط میں اپنا نام لکھواتےوہ رسم الخط جو ترک ملٹری نے اتاترک کی جدیدیت کے نام پر ٹھونسے گئے کلچر کے نام پر ان سے چھین لیا تھا۔
کمال اتاترک کے انتقال کے بعد، ترکی کی مسلح افواج نے ترک ریپبلک اور اس کے رہنما کے اصولوں کے محافظ بن گئے اورسیکولرازم کو اپنے انداز سے فروغ دینا شروع کردیا۔وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ملٹری بیوروکریسی نے سیکولرازم کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔درحقیقت سیکولرازم کے اصول فوجی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے جواز بن گئے۔
سنہ 1960میں پہلی مسلح بغاوت وزیراعظم عدنان میندرس کی پھانسی پر منتج ہوئی۔1961میں ترک ملٹری نے نیشنل سیکیورٹی کونسل بنا کر سویلین اداروں پر غلبہ حاصل کرنا شروع کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سنہ1980میں ضیا الحق کے خلاف ہونے والی ناکام مسلح بغاوت کے بعد، پاکستان کی مسلح افواج نےاسی طرح کی نیشنل سیکیورٹی کونسل بناکر سویلین اداروں کو قابو کرنے کی کوشش کی۔
اسی طرح1945 میں انڈونیشین آرمی نے بھی سویلین معاملات میں اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اسی طرح کے اقدامات یعنی ریاست کی آئیڈیالوجی اور مسلح افواج کے لیے کچھ اصول وضع کیے۔
سنہ 1971 میں ترکی میں ایک اور مسلح بغاوت ہوئی لیکن 1980 میں جنرل کنعان ایورن کی فوجی مداخلت نے ترک سماج پر گہرا اثر ڈالا جس کی بدولت آج ترکی اپنی موجودہ حالت میں ہے۔ ترکی میں سٹوڈنٹس یونین اور بائیں بازو کے گروپوں کو ریاستی اداروں کی جانب سےجبر و تشدد کا سامناکرنا پڑا۔ مشاہد حسین ( جو صحافت سے سیاست میں آئے ) بتاتے ہیں کہ جب جنرل ضیا الحق نے اس دور میں ترکی کا دورہ کیاتو اس نے ترک حکام سے پوچھا کہ ترک فوج یونیورسٹی کیمپسز میں طلبا کے ہنگاموں سے کیسے نمٹتی ہے۔دونوں ممالک کی افواج نے ایک دوسرے سے یہی سیکھا ہے کہ کیسے جبرو تشدد کے ذریعے حکومت کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ترکش آرمی نے پاکستانی فوج کے کاروباری ماڈل کی پیروی کرتے ہوئے کاروباری ادارے بنائے۔
لیکن اہم بات یہ ہے جنرل ضیا الحق اور جنرل کنعان ایورن نے یونیورسٹی کیمپسز میں مذہبی انتہا پسندی کو متعارف کرایا۔میری کچھ ذرائع سے جو گفتگو ہوئی انھوں نے بتایا کہ ترکی میں یونیورسٹی کیمپسز میں کیسے مذہب کو بائیں بازو کی مزاحمت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پاکستان میں بھی یونیورسٹی کیمپسز میں جماعت اسلامی کی تنظیم اسلامی جمعیت طلبا کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے کھلی چھٹی دی گئی ۔
مذہبی انتہا پسندی اور فوج کے مالی مفادات
پاکستانی فوج کا ملک میں مذہبی قوم پرستی کا احیا اور پھر اس کی حفاظت کا مرکزی کردارہے جسے میں پاکستانی اسلامزم کہتی ہوں لیکن بہرحال فوج کا کبھی یہ مقصدنہیں رہا کہ وہ سیکولرازم یا اسلام کی حفاظت کرے۔ اسی طرح ترک آرمی نے 1980کی دہائی میں سیکولرازم کی حفاظت نہیں کررہی تھی بلکہ اس کا مقصد اپنی طاقت کو برقرار رکھنا تھا۔مزید براں یہ کہ امریکی تعاون سے کمیونسٹ سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ان ملکوں میں مذہبی جماعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ 1980کی دہائی بہت اہم ہے جب پاکستان اور ترکی میں اپنی اپنی افواج کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی کوبڑھایا گیاجس کا مقصد صرف اپنی طاقت کو بڑھانا تھا۔
مذہبی انتہا پسندی اور فوج کے معاشی مفادات جب آپس میں مدغم ہوجائیں تو پھر سیاست میں مذہب تو شامل ضرور ہوگا۔اردعان کی جسٹس پارٹی نے اسی ماحول میں اپنی جگہ بنائی اور اب تاریخی کیتھڈرل (آیا صوفیہ ) کو مسجد میں تبدیل کرنا اسی سیاست کا تسلسل ہے۔ترکی میں اتاترک اور فوج نے سیاست میں جن آمرانہ رویوں کو فروغ دیااس کا پھل اب سب کے سامنے ہے۔ اردعان تو صرف چہرے کی تبدیلی ہے ۔پاکستان میں بھی ملٹری کسی خاص مذہبی جماعت کی پشت پناہی نہیں کر رہی بلکہ مذہبی انتہا پسندی کے پردے میں بہت سے فوائد اٹھا رہی ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ عوام کی توجہ صرف ایک میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے پر مرکوز ہے جبکہ ترکی میں بہت کچھ کھویا جاچکا ہے۔آیا صوفیہ کی حیثیت تبدیل کرنے ا کافیصلہ شاید اگلی کئی دہائیوں تک تبدیل نہ ہوسکے۔بہرحال ترکی کو آمریت کی جانب دکھیلنے کی مذمت ضرور کی جان چاہیے۔
♦