سنگین ولی
بظاہر یہ اچنبھے کی بات لگتی ہے کہ ایک مولوی رجعت پسندی اور تنگ نظری کی بجائے کیسے ترقی پسند اور روشن خیال ہوسکتا ہے۔ جی ایسا ہوسکتا ہے اور مولوی سلطان خروٹی اس کی مثال ہے۔ مولوی سلطان ایک روشن خیال اور ترقی پسند مولوی تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی رجعت پسندی، تنگ نظری ، فرقہ پرستی، جاگیر داری اور استحصال کے خلاف اور قوم دوستی کی سیاست میں گزار دی۔ وہ ہر قسم کے ظلم، جبر اور استبداد کے خلاف تھے۔ استحصالی اور غاصب قوتوں کے خلاف زندگی بھر لڑتے رہے۔
مولوی سلطان خروٹی ایک ترقی پسند قوم پرست تھے ۔ وہ خان شہید عبد الصمد خان اچکزئی کے دیرینہ ساتھی تھے ۔اور مرتے دم تک ان کی تحریک میں شامل رہے اور ایک فعال کردار ادا کیا، انہوں نے اپنے قومی مفادات، پارٹی کے نظریات اور قومی اہداف کے حصول کے لیے ساری زندگی جدوجہد میں گزاری۔
وہ استعماری اور استحصالی قوتوں کے خلاف زندگی بھر لڑتے رہے۔ انہوں نے اپنے وطن میں نچلے اور کمزور طبقے کے حقوق کی تحفظ کے لیے اپنی زندگی لگا دی۔ ہر قسم کے جابر اور غاصبوں کو للکارا۔ اور زندگی بھر ظالموں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔
مولوی سلطان خروٹی کا تعلق بلوچستان کے مردم خیز ضلع، ضلع ژوب سے تھا۔ انہوں نے ابتدائی طور پر اسلامی تعلیم حاصل کی تھی اور پھر جوانی میں ترقی پسند اور قوم دوست تحریک نیشنل عوامی پارٹی کا حصہ بن گئے۔ پھر بعد میں پشتونخوا میپ کا حصہ بن گئے اور مرکزی کمیٹی کے رکن بن گئے۔
جب انہوں نے سیاست کا آغاز کیا اس وقت رجعت پسندی کا دور دورہ تھا ۔ ہر طرف فتوے بازی اور ظلمت کے سائے پھیلے ہوئے تھے۔ ترقی پسند سیاست خطرے سے خالی نہیں تھی۔ ایسے دور میں مولانا نے سیاست شروع کی اور پھر ایک نہ ختم ہونے والے ظلم اور ستم کے سلسلے کا سامنا کیا ۔مگر وہ اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوئے اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ مزاحمت اور جدوجہد کا استعارہ تھے۔
جب انہوں نے افغانستان کے ثور انقلاب کی بھرپور حمایت کی تو ان پر مولویوں کے فتوے لگنا شروع ہوئے۔حتی کہ ان پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا، پھر ان کو مسجد کی امامت سے نکالا گیا۔ ان کے مال و دولت کو مالِ غنیمت کی طرح حلال قرار دیا گیا اور کئی دفعہ ان کے دوکان کو ثواب کی خاطر دن دھاڑے لوٹا گیا اور جب کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو ان کے گھر اور دوکان کو آگ لگادی گئی۔ان کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ یہ سب رجعت پسندوں کی طرف سے ہوا۔ اور اس سے اس وقت اور خطے کی سیاست کا پتہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور میں ترقی پسند سیاست کتنی مشکل تھی اور وہ رجعت پسند جب ایک مولوی پر کفر کے فتوے لگا سکتے ہیں تو اور کیا کیا نہیں کرسکتے ہیں۔
اس وقت اپنے قوم اور وطن کیلئے سیاست کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ریاستی غنڈے اور بدمعاش ایسے لوگوں کو آزادی سے سیاست کرنے نہیں دیتے تھے اور ان پر مختلف قسم کے دباؤ ڈالتے تھے تاکہ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں ۔
مولوی سلطان صاحب ہمیشہ امن اور استحکام کے حامی رہے ،دہشت گردی، فرقہ پرستی اور انتہا پسندی کے سخت مخالف تھے ۔وہ پہلے بھی افغان ڈالر جہاد کو فساد قرار دیتے رہے۔وہ اس استعماری جنگ کو جہاد نہیں سمجھتے بلکہ استعماری قوتوں کے
مسلط کردہ جنگ کو افغان وطن کی بربادی اور تباہی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اور اسی بنا پر وہ بار بار مولویوں کے غیض و غضب کا نشانہ بن گئے۔ اور اب بھی امریکہ اور طالبان جنگ میں کو فساد قرار دیتے رہے ۔
ذاتی زندگی میں وہ ایک نفیس اور پاکیزہ انسان تھے۔ کبھی سیاست اور مذہب کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ انہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ سیاست میں گزارا، مگر کبھی لالچ اور طمع نہیں کی اور نہ کبھی مالی مفادات حاصل کئے ۔ان پر کبھی کوئی کرپشن اور دوسرے الزام نہیں لگے۔ بلکہ وہ صاف اور شفاف شخصیت کے مالک تھے ۔اور ایک جید عالم ہونے کے باوجود مذہب کو معاشی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ بلکہ وہ مذہبی اجارہ داری اور مذہب کی بطور کاروبار استعمال کے شدید ناقد تھے۔
گزشتہ ہفتے ان کا انتقال ہوا ۔تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔