ناقدین کے مطابق یہ قانون ترکی کو آن لائن سینسر شپ کے ایک نئے تاریک دور میں دھکیل دے گا۔اس متنازعہ قانون کے روح رواں ترک صدر رجب طیب ایردوآن خود ہیں۔ ان کے مطابق قانون کا مقصد انٹرنیٹ سے غیراخلاقی مواد اور سائبر جرائم کا خاتمہ ہے۔
انہوں نے اس ماہ کے اوائل میں اس وقت خاصی برہمی کا اظہار کیا تھا جب ان کے یہاں نواسے کی پیدائش کے اعلان پر انہیں ٹوئٹر پر بے جا تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں انہوں نے ملک میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال روکنے کے لیے ایک نیا قانون لانے کی دھمکی دی تھی۔آخرکار آج بدھ 29 جولائی کو پارلیمان سے ان کی جماعت ای کے پی پارٹی نے اپنی عددی اکثریت کے زور پر یہ قانون منظور کرا لیا۔
ترکی میں پہلے ہی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد پابند سلاسل ہے۔ ان میں اکثر کو2016 میں صدر ایردوآن کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
قانون میں کیا ہے؟
نئے قانون کے تحت حکام کو سوشل میڈیا کی سینسر شپ کے حوالے سے وسیع اختیارات مل گئے ہیں۔ حکومت کو اب یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ لوگوں میں مقبول فیس بک اور ٹوئٹر جیسی عالمی سوشل میڈیا کمپنیوں سے تقاضہ کرے کہ وہ ملک کے اندر اپنے نمائندے نامزد کریں۔ اس کا بظاہر مقصد ان کمپنیوں کو ملکی قوانین اور اظہار آزادی کے حوالے سے حکومتی خواہشات کے تابع لانا ہے۔
قانون کے مطابق اگر سوشل میڈیا کمپنیاں اس سے انکار یا مزاحمت کرتی ہیں تو ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، ان کے اشتہارات پر پابندی لگائی جا سکتی ہے او ان کے لیے انٹرنیٹ اسپیڈ اتنی کم اور سُست کی جا سکتی ہے کہ وہ چل ہی نہ پائیں۔
اگر عدالتی حکم کے بعد کمپنیاں 24 گھنٹوں کے اندر قابل اعتراض مواد ہٹانے یا اسے بلاک کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو ان پر جرمانے عائد کیے جا سکیں گے۔ اس قانون کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں پر لازم ہوگا کہ وہ صارفین کا ڈیٹا ملک کے اندر ہی جمع کریں۔ ناقدین کے مطابق اس سے حکام جب چاہیں اپنے شہریوں کی نجی معلومات تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔
جمہوریت مخالف ایجنڈا
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق یہ قانون ”میڈیا پر مزید شکنجہ کسنے کے لیے ریاست کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار ثابت ہوگا‘‘، جبکہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن راٹس واچ کا کہنا ہے کہ اس سے ”ترکی میں آن لائن سینسر شپ کے ایک نئے تاریک دور‘‘ کا آغاز ہوگا۔
ترکی میں پہلے ہی میڈیا پر کافی قدغنیں ہیں اور حکام آئے دن سرکار کی ایما پر آن لائن مواد بلاک کرتے رہتے ہیں۔ استنبول میں اظہار آزادی پر کام کرنی والی ایک ترک تنظیم کے مطابق، ملک میں چار لاکھ سے زائد ویب سائٹس پہلے سے بلاک ہیں۔ اس کے علاوہ 7000 ٹوئٹر اکاؤنٹس، 40000 ٹوئیٹس، 10000 یو ٹیوب ویڈیوز، 6000 فیس بک پوسٹس قانونی طور پر بلاک ہیں۔
ترک حکام نے ڈھائی سال تک آن لائن انسائکلوپیڈیا ‘وِکی پیڈیا‘ کو بھی بلاک رکھا۔ لیکن پھر جب سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں اسے اظہار آزادی کے حقوق کے خلاف قرار دیا تو حکومت کو رواں برس جنوری میں اسے کھولنا پڑا۔
dw.com
♦