عابد حسن منٹو
میں اب صرف امید کے سہارے زندہ نہیں رہتا۔پندرہ برس کا تھا جب پاکستا ن آزاد ہوا تھا۔پاکستان بنانے کی جدوجہد میں میرا خاندان پیش پیش تھا اور میں نے خود بھی کئی مواقع پر قیام پاکستان کی جدو جہد میں حصہ لیا۔ہم راولپنڈی میں رہتے تھے اور زیادہ تر جلوس جامعہ مسجد راولپنڈی کی سڑک پر نکلتے تھے۔میرے والد مسلم لیگ کے عہدیدار تھے،میں بھی ان کے ساتھ ان جلوسوں میں شریک ہوا کرتا تھا۔
ایک دفعہ ایک جلوس پر جس میں میرے والد اور میں شریک تھے پولیس نے دھاوا بولا اور ہم سب کو گرفتار کرکے لے گئی،جیل جانے کا میرا یہ پہلا تجربہ تھا۔یہ وہ جلوس تھا جس کے لئے قائد اعظم نے پنجاب میں خضرحیا ت کی حکومت کے خلاف کال دی تھی۔ایک ماہ بعد مجھے کم عمر ہونے کی بنا پر جیل سے رہاکردیا گیا تھالیکن وہ ساری چیزیں آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ہم ایک ایسا پاکستان بنانے کی جدوجہد کر رہے تھے جس کے بننے سے پہلے ہی مشکلات شروع ہوچکی تھیں۔
اس وقت ہمارے راولپنڈی شہر کی مسلم لیگ کے صدر شیخ محمد عمر تجربہ کار ضرور مگر زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ میرے والد جو مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری اور وکیل بھی تھے،سے پوچھتے تھے کہ خواجہ صاحب جب پاکستان بن جائے گا تو مجھے کیا بنائیں گے۔ افسوس ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے ہی لوگ اس میں اپنے لئے عہدے تلاش کر رہے تھے۔پاکستان بننے کے بعد ہماری سیاست میں وہ کردار آگئے جن کا سیاست سے صرف اتنا ہی تعلق تھاکہ وہ انگریزوں کے قریب تھے۔
جو لوگ لیڈر شپ میں آئے وہ وزارتوں اور عہدوں کے پہلے سے ہی دعویدار تھے جب کہ عوام کا جم غفیر جو قائد اعظم سے متاثر ہوکر ان کے ساتھ چلا وہ نیچے ہی رہا ۔پہلے دن سے ہی پنجاب میں نواب ممدوٹ اور دولتانہ کے درمیان لڑائی ہوئی اور یہ دونوں مسلم لیگی تھے۔میں نے ساری کشمکش کو قریب سے دیکھا ہے۔جن لوگوں کے قبضے میں یہ ملک آیا انھوں نے اسے ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج پاکستان موجود کیسے ہے؟
اس وقت اگر کوئی نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگاتا ہے تو میرا اس سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ پرانا پاکستان کیا اور کیسا تھا؟کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ملک میں دو دفعہ زرعی اصلاحات کی گئیں کیونکہ اس وقت کی حکومت نے سمجھا کہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان دونوں زرعی اصلاحات کو ہمارے ہی ملک کی عدالت نے غیر شرعی قرار دے دیا ۔میں نے گزشتہ آٹھ برسوں سے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے لیکن اس کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا۔
آج کچھ لوگ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات کررہے ہیں۔یہ مطالبہ کرنے والی لیڈرشپ پر غور کیا جائے تو وہ تمام جاگیر دار ہیں جنہیں پنجاب کے بڑے علاقے میں اپنی طاقت منوانے کا وہ موقع نہیں ملتا جو الگ صوبہ بنا کر حکمرانی میں ملے گا ۔ہمارا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ملک میں حقیقی جمہوری نظام قائم کرنا چاہتے ہیں؟ جمہوری نظام کا مطلب صر ف یہ نہیں ہے کہ الیکشن کروا کر حکومت بنائی جائے۔حالیہ الیکشن ہونے کے بعد جیتنے والی جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے،یہ دھاندلی صرف ان انتخابات ہی میں نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے اور طاقتور طبقات ایسا کرتے آئے ہیں۔
عمرا ن خان کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم ہاوس میں نہیں رہیں گے اور گورنر ہاوس کو عوام کے لئے کھول دیں گے۔ایسا ہو بھی سکتا ہو کیونکہ یہ سرکاری عمارتیں ہیں اور ان کے حوالے سے کسی سے مفادات کا ٹکراو نہیں ہے۔میرے نزدیک یہ پاکستان کو نیابنانے کے حوالے سے کوئی قدم نہیں ہوگا ۔اگر ہم نے نیا پاکستان بنانا ہے تو ہمیں جاگیرداری نظام ختم کرنا ہوگا اور زمین جاگیرداروں سے لے کر کسانوں میں تقسیم کرنا ہوگی کیونکہ جب تک کسان جاگیرداروں سے چنگل سے آزاد نہیں ہوں گے تب تک ساٹھ فی صد آبادی آزادی اور اپنی مرضی سے اپنا ووٹ نہیں ڈال سکے گی۔ جہاں ایک فرد کے پاس اسی ہزار ایکٹر رقبہ ہو وہاں یہ توقع کہ اس کے مزارعے اپنی مرضی اور آزادی سے ووٹ ڈال سکتے ہیں خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کیا کسی نے دیکھا کہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں میں جہاں جاگیرداارانہ نظام ہے وہاں لوگوں نے کسے ووٹ دیا،سرداروں کے علاقے میں کسے ووٹ ملے،ہر الیکشن کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہی لوگ دوبارہ بر سر اقتدار آگئے ہیں یا ان کے رشتہ دار آگئے، اس طرح سے تو نیا پاکستان نہیں بنے گا۔افسوس ہے کہ جن لوگوں نے پرانے پاکستان کی ترقی کو روکا وہی اب نیا پاکستان بنانے کے نعرے لگارہے ہیں ۔قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کا بہت چرچا کیا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس تقریر کے مندرجات پر آج تک عمل درآمد کیوں نہیں ہوسکا۔
قائد اعظم نے پاکستان کو جمہوری ریاست بنانے کا عہد کیا تھا ۔ وہ ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں شہریوں کے مابین مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہو۔قائد اعظم کی اس تقریر کو آج پہلے زیادہ زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔جمہوری نظام کو وسعت دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے آئین پر عمل درآمد کرنا ہوگا ۔عوام کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ روزگار، تعلیم اور صحت و رہائش کی سہولتوں سے محروم ہیں اس کے برعکس ایک چھوٹے سے قبضے نے ریاست اور سماج کے تمام وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔بیرون ملک سے دولت واپس لانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دولت لائیں گے کیسے؟اُ ن کے تو اپنے قوانین ہیں اور ان قوانین کی موجودگی میں وہاں موجود پاکستانیوں کی دولت کو واپس لانا ناممکن ہے۔میرے خیال میں یہاں موجود دولت کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے اور حکمران طبقات سے دولت لے کر عوام کی خوشحالی کے منصوبوں پر خرچ کریں۔ ریاستی وسائل پر عوام کے حق کو تسلیم کیا جائے اور انھیں حکمران طبقات اور ریاستی و حکومتی عہدیداروں کی لوٹ مار سے محفوظ رکھا جائے۔
ترتیب و تدوین: لیاقت علی ایڈووکیٹ