آصف جاوید
پندرہ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں جمہوریت کا عالمی دِن منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متّحدہ کے تحت منائے جانے والے جمہوریت کے عالمی دِن کے موقعہ پر اس عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر کی ریاستیں اِس دن اپنے اپنے ممالک میں جمہوریت کی پاسداری، شہری آزادیوں، اظہار رائے کی آزادیوں، اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمیوں کو یقینی بنائے جانے کے اقدامات کا جائزہ لے کر متعلّقہ تمام امور کو یقینی بنائیں گی۔
مگر پاکستان میں جمہوریت کے عالمی دن کے موقعہ پر پارلیمنٹ میں آمریت کی بادشاہی کو مضبوط کرنے کے لئے کے لئے ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا ہے۔ اِس قانون کے تحت اب مسلح افواج یا اس کے کسی رکن کا جان بوجھ کر تمسخر اڑانا ،وقار کو گزند پہنچانا یا بدنام کرنا جرم تصور ہوگا ۔ ایسا کرنے والے کو 2سال تک قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی ۔
قومی اسمبلی میں اگر فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ 2020 بل منظور ہوگیا تو کوئی مائی کا لال فوج کے مواخذے پر سوال نہیں اٹھا سکے گا۔ کسی جرنیل سے اس کی بدعنوانیوں، ناجائز طور پر دولت اکھٹّی کرنے پر منی ٹریل نہیں مانگ سکے گا، یہ سب اچانک نہیں ہوا، یہ سب فوج نے خود نہیں کیا، بلکہ سیاستدانوں نے رضا کارانہ کیا ہے، سب کچھ جمہوری طریقے سے ، پارلیمنٹ سے باقاعدہ منظوری لے کر ، قانون میں تبدیلی کرکے کیا گیا ہے۔ سیاستدان اور پارلیمنٹ ہی ذمّہ دار ہے۔
یہ سب ہمارے سیاستدانوں کی نا اہلیاں ھیں ،کہ جمہوریہ پاکستان ایک طاقتور سیکیورٹی اسٹیٹ بن گئی ہے، یہ سیکیورٹی اسٹیٹ اپنے آپ میں اس قدر طاقتور اور خودمختار ہوگئی ہے کہ اب اسے، پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق، شہری آزادیوں، اظہارِ رائے کی آزادی کی حرمت اور آئینِ پاکستان میں اپنے شہریوں کو دی گئی ضمانتوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔
اگر شہری آزادیوں کی پامالی کی یہی رفتار رہی، اگر سیاستدانوں کی نااہلی اور عوام کے ساتھ بددیانتی کی یہی روِش رہی، تو اگلے کُچھ سالوں میں پاکستان، نارتھ کوریا کو بھی پیچھے چھوڑ کر ایک بدترین سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل ہوچکا ہوگا، مگر اّس وقت بہت دیر ہوچکے گی۔
اِس نئے بل کے تحت فوج پہ تنقید کرنا یا تمسخر اڑانا جرم تصوّر ہوگا، جس کی سزا دو سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ ہو گی – یہ بل، بڑی سیاسی جماعتوں کی مکمّل رضاء مندی اور جیّد سیاستدانوں کی مکمّل آمادگی کے بعد ہی پیش کیا گیا ہے، دونوں بڑی سیاسی جماعتیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ درونِ خانہ بِل کی حامی دکھائی دیتی ہیں!۔
تجویز کنندہ رُکن اسمبلی کے نزدیک اس ترمیمی بِل کا مقصد مسلّح افواج کے خلاف نفرت انگیز اور گستاخ رویّے کا سدّباب اور روک تھام کرنا ہے۔ مسلّح افواج کے اداروں کی ساکھ کو گزند پہنچانے والوں کے خلاف سخت ترین تادیبی کاروائی کرنا ہے۔
اپوزیشن اور حکومت کے سابقہ تعاون باھمی کو مدِنظر رکھتے ہوئے امیدِ کی جاتی ہے کہ ہے کہ بل ھذا من و عن قانون کا درجہ اختیار کر لے گا۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ سیاسی بیانیہ “ووٹ کو عزت دو‘” والے بشمول وارثینِ گڑھی خدا بخش، ایوانِ زیریں و ایوانِ بالا میں مسلح افواج کے حق میں پیش کئے جانے والے بل پہ مہر ثبت کریں گے، کیونکہ ماضی میں اہم فوجی شخصیت کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملہ پر بھی سیاسی مُک مکا ہو چکا ہے۔
♦