فرانس کے معروف طنزیہ جریدے شارلی ایبدو کے سابقہ دفتر کے قریب گوشت کاٹنے والے چھرے سے دو افراد کو زخمی کرنے والے مبینہ ملزم نے اعتراف جرم کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ذرائع کے مطابق اٹھارہ سالہ مشتبہ شخص نے بتایا کہ اس کی پیدائش پاکستان میں ہوئی تھی اور وہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ ملزم نے مزید کہا کہ اس نے یہ حملہ شارلی ایبدو میں پیغمبر اسلام کے خاکے دوبارہ شائع کیے جانے کی وجہ سے کیا۔
فرانسیسی وزیر داخلہ کے مطابق جمعے کے روز چاقو سے کیے گئے حملوں کے الزام میں اب تک سات مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والے ایک شخص کو تفتیشی اہلکاروں نے مرکزی ملزم کے طور پر لیا ہے۔
فرانسیسی وزیر داخلہ کے مطابق مشتبہ مرکزی ملزم کی عمر اٹھارہ سال ہے اور وہ تین سال قبل نابالغ مہاجر کے طور پر فرانس آیا تھا۔ پیرس حکام نے اس ملزم کی شناخت ابھی تک ظاہر نہیں کی ہے۔ تاہم وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ بظاہر ملزم کا تعلق پاکستان سے ہے۔ حملہ آور کی شناخت کے بارے میں تفتیش جاری ہے۔
مبینہ ملزم کو پیرس کے مشرقی علاقے میں واقع باسٹِل اوپرا کی سیڑھیوں سے حراست میں لیا گیا۔ یہ جگہ حملے کے مقام سے زیادہ دور نہیں ہے۔ گرفتاری کے وقت اس نوجوان کے ماتھے پر خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے۔
فرانس کے وزیر داخلہ ژیرالڈ دارماناں نے ملکی ٹیلی وژن کو بتایا کہ اس نوجوان کو ایک ماہ قبل پولیس نے پیچ کس اٹھا کر پھرنے پر بھی گرفتار کیا تھا۔
فرانسیسی وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کے پاس اس ملزم کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں اور نہ ہی پولیس کے بنیاد پرستانہ مذہبی عقائد کے تناظر میں کوئی ریکارڈ ہے۔دارماناں کا مزید کہنا تھا کہ اس میں شک نہیں ہے کہ یہ ‘اسلامی دہشت گردی کا ایک واقعہ‘ دکھائی دے رہا ہے اور اسے ملک، صحافیوں اور معاشرے کے خلاف ایک نیا خونی حملہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
فرانسیسی محکمہ انسداد دہشت گردی کے پراسیکیوٹر نے بتایا ہے کہ حکام حملے کے مقام یعنی شارلی ایبدو کے سابقہ دفتر کے تناظر میں اسے دہشت گردی کا ایک واقعہ خیال کرتے ہوئے تفتیش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فرانسیسی زبان کے طنز نگار جریدے شارلی ایبدو کے سابقہ دفتر کے قریب کل پچیس ستمبر کو ایک نوجوان شخص نے چاقو کے وار کر کے کم از کم دو افراد کو زخمی کر دیا۔ زخمی ہونے والے دونوں افراد ایک دستاویزی فلم کمپنی کے ملازم ہیں۔
فرانسیسی وزیر اعظم ژاں کاستیکس نے بتایا ہے کہ زخمی ہونے والے دونوں افراد کی زندگیاں اب خطرے سے باہر ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت زخمیوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتی ہے۔
کاستیکس کا کہنا ہے کہ حکومت آزادئ صحافت کا تحفظ ہر ممکن طریقے سے کرے گی اور دہشت گردی کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھے گی۔
یاد رہے جنوری سن 2015 میں شارلی ایبدو کے دفتر پر دہشت گردانہ حملے پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے بعد ہوئے تھے۔ جمعے کو چاقو سے یہ حملے ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب میگزین شارلی ایبدو کے دفتر پر کیے جانے والی خونی حملوں کے ملزمان کے مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا ہے۔
تقریباً چھ برس قبل کیے جانے والے دہشت گردانہ حملے میں ایک درجن انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ اس مقدمے میں ایک خاتون سمیت تیرہ افراد کے خلاف استغاثہ نے فرد جرم عائد کر رکھی ہے۔
رواں مہینے کے شروع میں شارلی ایبدو میگزین کی انتظامیہ نے پیغمبر اسلام کے پہلے سے شائع شدہ خاکوں کو دوبارہ شائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
dw.com/urdu