حاشر ابن ارشاد
ایک طرف کہا جاتا ہے کہ اسلام آنے کے بعد غلاموں کو حق آزادی دینے سے پوری معاشرت اور معیشت تباہ ہو جاتی دوسری طرف یہ اصرار کیا جاتا ہے کہ اسلام نے ہر ایک کو ترغیب دی کہ غلام آزاد کر دو۔ جس کا ایسا اثر ہوا کہ عبدالرحمن بن عوف نے تیس ہزار غلام آزاد کیے ۔ اسی طرح باقی صحابہ نے بھی۔ اگر آزاد ہونے والے کچھ کر نہیں سکتے تھے جس کی وجہ سے اسلام انہیں حق آزادی دینے کے مخالف تھا تو پھر آزادی کی ترغیب چہ معنی اور یہ جو ہزاروں آزاد ہوئے ان کی وجہ سے معیشت اور معاشرت کیوں نہ بگڑی۔ اگر ترغیب اچھی چیز تھی تو حق آزادی تو اس سے بھی بہتر ہوتی کہ دونوں کا حتمی نتیجہ ایک ہی تھا۔
کیا کمال ہے کہ پانسے تک حرام ہیں لیکن غلامی کی حرمت پر ایک لفظ بھی نہیں اور اصرار ہے کہ نہیں ، ہم تو غلامی کو ختم کرنے کے داعی تھے۔
ایک طرف کہا جاتا ہے کہ جنگ میں غلام بنانے پر پابندی لگ گئی دوسری طرف اسلامی تاریخ کی ہر جنگ حتی کہ غزوات کا احوال ہے جہاں بچے اور عورتیں تک غلام اور لونڈی بنائے گئے اور کثیر تعداد میں بنائے گئے۔
ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ارادہ غلامی کو بتدریج ختم کرنے کا تھا دوسری طرف پوری اسلامی تاریخ میں کسی ایک حکمران نے بھی اس حوالے سے ایک حکم بھی جاری نہیں کیا کہ اس دعوے کی تصدیق ہی ہو جاتی۔ حد یہ ہے کہ بیسویں صدی تک بھی غلامی صرف مسلم ممالک میں قانونی تھی۔روایات میں تو کہانی کہیں اور ہی جاتی نظر آتی ہے۔ چوتھے خلیفہ تک آتے آتے تو سماج “بتدریج” پر عمل پیرا نظر آتا اور کچھ نہیں تو حکمران ہی سہی پر حضرت علی کی لونڈیوں کی کثرت ایسی تھی کہ انیس اولادیں ان کے بطن سے ہوئیں ۔ امام حسن کے حرم کی وسعت تو روایت میں سماتی بھی نہیں ہے۔ اسکے بعد اموی اور عباسی تو چل سو چل ۔
پھر کہتے ہیں کہ غلام گھر کے افراد کی طرح ہوتے ہیں۔ اسکے لیے دو سے چار لوگوں کی مثالیں نکال لی جاتی ہیں اور جزو بلکہ ایک لایعنی جزو سے کل پر قیافہ باندھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں یاد رکھیے کہ جلابیب والی آیت تک کا مقصد یہ تھا کہ آزاد عورتیں لونڈیوں سے الگ پہچان لی جائیں۔ وہ آیات الگ ہیں جہاں غلام کے بدلے غلام اور آزاد کے بدلے آزاد کے قصاص کا حکم ہے۔ ایک صحابی سے دوسرے صحابی تک لونڈیوں کی فروخت اور خرید کے سینکڑوں قصے ہیں ۔ لونڈیوں کو اوپری جسم برہنہ رکھنا تھا اور ان کے جسم ٹٹول کر بازار میں ان کے سودے ہوتے تھے۔ یہ اسی تاریخ میں لکھا ہے جہاں بدر، احد اور حدیبیہ اور فتح مکہ کی داستان رقم ہے۔
مکاتبت اگر ایسی ہی موثر تھی تو پورے قرآن اور مستند حدیث میں اس کے حوالے سے ایک قانونی شق بھی کیوں نہیں ہے اور مکاتبت کا مطلب تو مالک کو مزید امیر کرنا ہے اور غلام کو اس حال میں آزاد کرنا کہ اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ ہو یعنی سودا پیسے اور مال بمقابلہ انسانی حرمت کا ہے۔
اب یہ آزاد ہونے والا غلام کیا معیشت اور معاشرت کو اسی طرح تباہ نہیں کرے گا جیسا کہ حق آزادی ودیعت ہونے کی صورت میں کرتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ آج کے دور میں اغوا برائے تاوان میں مغوی کو بھی ایسا ہی مکاتبت کا حق دیا جاتا ہے ۔ یعنی ہم ہیں تو غلط اور تمہیں غلام بنانا بھی انسان سوز ہے لیکن ہم اس قباحت سے تمہیں اس وقت آزاد کریں گے جب اشرفیاں ہماری ہتھیلی پر دھرو گے۔ اب اسکے لیے مسیار یا متعہ کے حلال رستے جسم بیچو یا سارا دن بازار میں پتھر توڑو، یہ تمہارا مسئلہ ہے ۔
ہم مان کیوں نہیں لیتے کہ اسلام کا انقلاب انسانی حریت اور آزادی کے لیے نہیں تھا ۔ ایک مذہب کی ترویج مقصود تھی جس کا واحد مقصد اس مذہب کی تعلیمات کو پرانے مذاہب کے جگہ لا کر اس کے ماننے والوں کو طاقت دلوانا تھا ۔ غلامی سے اسلام کو کوئی تعرض نہیں تھا ۔ یہ مان لیں گے تو بچگانہ تاویلات کا سلسلہ بھی شاید رک جائے۔
♦
یہ کہنا کہ شعور اجتماعی نے یہ بہت بعد میں سیکھا کہ غلامی غیر انسانی ہے، ایک غلط مفروضہ ہے۔ اگر اس بات کو بھی پس پشت ڈال دیا جائے کہ اسلام ایک انقلاب کی دعوت ہوتے ہوئے بتوں کی پوجا پر پابندی تو لگا دیتا ہے پر غلامی کو ختم نہیں کرتا تو بھی کہانی اتنی سادہ نہیں ہے۔ شعور اجتماعی ظہور اسلام سے بہت پہلے غلامی کو قبیح افعال کی فہرست میں ڈال چکا تھا۔ اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔
اسلام کے آنے سے بارہ سو سال پہلے چھٹی صدی قبل مسیح میں ایتھنز کی ریاست نے باقاعدہ قانون سازی کر کے تمام غلاموں کو آزاد حیثیت عطا کی تھی۔ پانچویں صدی قبل از مسیح میں ایسا ہی قانون قدیم فارس کی ریاست میں نافذ ہوا۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں رومن ریپبلک میں قرض کے ساتھ جڑی غلامی کو ختم کیا گیا۔ تیسری صدی قبل از مسیح میں ہندوستان کی موریا سلطنت کے حکمران اشوکا نے غلاموں کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ چین میں چن خاندان کی حکمرانی کے دور میں تیسری صدی قبل از مسیح میں غلامی ممنوع قرار پائی۔ اگرچہ اس خاندان کی حکومت ختم ہونے کے بعد اس قانون کو بھی بھلا دیا گیا لیکن 12 قبل از مسیح میں ژن خاندان نے اقتدار سنبھالتے ہی دوبارہ غلامی پر مکمل پابندی عائد کر دی۔ پانچویں صدی عیسوی سے نویں صدی عیسوی تک آئرلینڈ میں غلامی پر پابندی رہی۔ سن 590 میں پوپ گریگوری نے عیسائیوں پر یہودیوں کو غلام بنانا قانوناً ناجائز قرار دیا۔
اس کے کچھ عرصے بعد اسلام کا ظہور ہوتا ہے۔ اگلے گیارہ سو سال میں قدیم فرانس اور برطانیہ سمیت بے شمار ملکوں نے غلامی پر پابندی عائد کی پر کسی مسلم ریاست یا حکمران نے یہ گناہ اپنے سر نہ لیا۔ سنہ 1703 میں عثمانی سلطنت نے پہلی دفعہ اس حوالے سے قدم اٹھاتے ہوئے عیسائی بچوں کی زبردستی فوج میں غلامانہ حیثیت میں بھرتی کو ختم کیا لیکن غلامی کے دیگر ادارے قائم رہے۔ 1816 میں الجزائر پر برطانوی اور فرانسیسی فوجوں نے حملہ کر کے تین ہزار غلام آزاد کروائے۔ سنہ 1846 میں برطانوی دباؤ کے تحت تیونس نے غلامی پر پابندی عائد کی مگر جلد ہی وہاں اس قانون کو پھر بدل کر غلامی کو پھر سے قانونی تحفظ دے دیا گیا۔ 1857 میں بالآخر مصر نے بھی مغربی طاقتوں کے دباؤ پر غلامی ختم کی۔
اسی دباؤ کے تحت 1884 میں عثمانی سلطنت نے بھی غلاموں کو آزاد کرنا شروع کیا۔ مراکش میں 1922 اور افغانستان میں 1923 میں غلامی پر پابندی لگی۔ قطر میں 1952، شام میں 1954، سعودی عرب اور یمن میں 1962، عمان میں 1970 اور موریطانیہ میں 1981 میں غلامی پر پابندی لگی لیکن اس کے باوجود سن 2007 تک موریطانیہ میں غلام بنانا جرم نہیں تھا اور 2007 میں پہلی دفعہ اس قانون کی تدوین کی گئی جس کے تحت غلام بنانا جرم قرار پایا۔
آج تمام اسلامی ملکوں میں غلامی غیر قانونی ہے لیکن اس کے لیے ان میں سے کسی ایک ملک نے بھی کتاب، سنت یا فقہہ کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں کیا۔ غلامی کے کاروبار پر پابندی مغربی طاقتوں کے زور دینے پر ممکن ہو سکی۔ یہ بات الگ ہے کہ یہ مغربی طاقتیں بھی ایک دور میں غلامی کو قانونی بنائے بیٹھی رہیں لیکن ایک دفعہ جب ان معاشروں نے اپنی اصلاح کر لی تو پھر یہی شمع اٹھا کر انہوں نے امت مسلمہ کی تاریکی بھی دور کی۔ وگرنہ ہمارا ”بتدریج“ ابھی ڈیڑھ ہزار سال بعد بھی بتدریج ہوتا۔
♠